حازم بنگوار، فیشن اور منافقانہ معاشرتی رویہ

شایان تمثیل  ہفتہ 4 فروری 2023
ایک فیشن کا دلدادہ شخص ’’اسسٹنٹ کمشنر‘‘ کیوں نہیں بن سکتا؟ (فوٹو: فائل)

ایک فیشن کا دلدادہ شخص ’’اسسٹنٹ کمشنر‘‘ کیوں نہیں بن سکتا؟ (فوٹو: فائل)

سوشل میڈیا کی طاقت سے کون انکار کرسکتا ہے۔ لمحوں میں کسی بھی موضوع یا شخصیت کو پوری قوم کےلیے موضوع بحث بنادینا سوشل میڈیا صارفین کےلیے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ کچھ ایسا ہی نارتھ ناظم آباد کے اسسٹنٹ کمشنر حازم بنگوار کے ساتھ ہورہا ہے۔ محض چوبیس گھنٹوں میں حازم بنگوار سوشل میڈیا صارفین کی پوسٹوں اور گفتگو کا مرکز بن گئے ہیں، یہاں تک کہ ٹوئٹر پر پاکستان کے ٹاپ ٹرینڈنگ ہیش ٹیگز میں حازم بنگوار کا نام چوتھی پوزیشن پر ہے۔

لیکن عجب رویہ ہے کہ حازم بنگوار کا نام بطور اسسٹنٹ کمشنر ان کے کارناموں کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کی ذاتی زندگی اور فیشن سے لگاؤ کے باعث زیرِ بحث ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ ایک ’’قابل شخص‘‘ کا تذکرہ محض اس وجہ سے تضحیک آمیز انداز سے کیا جارہا ہے کیونکہ وہ ہمارے معاشرے کے نام نہاد ’’مردوں‘‘ سے ہٹ کر ہے۔ ایک اسسٹنٹ کمشنر کا رکھ رکھاؤ اور ڈیل ڈول جیسا ہونا چاہیے (مخصوص طبقے کی نظر میں) ویسا نہیں ہے۔ یہ اسسٹنٹ کمشنر تاؤ دی ہوئی بڑی مونچھیں، چہرے پر رعونت، کروفر اور انداز میں فرعونیت نہیں رکھتا بلکہ ایک دوستانہ شفیق مسکراہٹ اور مزاج میں حلاوت کے ساتھ اپنے فرائض انجام دے رہا ہے۔ ہمارے معاشرے کے منافقین سے بھلا یہ سب کیسے برداشت ہوسکتا ہے؟

حازم بنگوار کو ابھی ہم نے ’’قابل‘‘ کہا۔ کیونکہ قابلیت کسی کے ظاہری حلیے سے متاثر نہیں ہوتی۔ لیکن سوشل میڈیا پر حازم بنگوار پر تنقید کرنے والوں کا رویہ ایسا ہے جیسے فیشن سے ان کی وابستگی یا ان کا انداز و برتاؤ ان کی ’’قابلیت‘‘ کے برخلاف ہے اور اسسٹنٹ کمشنر کی پوسٹ انھیں زیب نہیں دیتی۔ ایسے افراد کی سوچ پر محض افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ اگر حازم کا تعارف کروایا جائے تو انھوں نے ’’فیشن ڈیزائننگ اینڈ مارکیٹنگ‘‘ میں ڈگری لینے کے علاوہ یونیورسٹی آف لندن سے ’’ایل ایل بی‘‘ کی ڈگری بھی حاصل کی ہے۔ اور یہ ڈگری یقیناً پاکستانی سیاستدانوں کی طرح ’’جعلی‘‘ نہیں ہے۔ حازم کی والدہ فیروزی اکبر کا تعلق عراق سے تھا اور وہ ایک آرکیٹیکٹ تھیں جبکہ والد علی اکبر بنگوار پاکستان میں پولیس جنرل ڈی آئی جی رہ چکے ہیں۔ حازم کی پیدائش تو کراچی کی ہی ہے لیکن وہ نیویارک میں پلے بڑھے اور وہیں تعلیم حاصل کی۔ پاکستان سے بھی ان کا تعلق قائم رہا۔

حازم نے فیشن ڈیزائننگ کی ڈگری لی ہے تو ظاہر ہے ان کا تعلق فیشن انڈسٹری سے بھی ہے۔ اپنے اکیڈمک دور میں ہی وہ میوزک بھی ترتیب دیتے رہے اور گلوکاری بھی کی۔ 2013 میں ہی ان کا پہلا مکس ٹیپ ریلیز ہوچکا تھا۔ 2014 میں ہپ ہاپ رائٹنگ اسکلز میں نام بنانے کے بعد انھوں نے مختلف انگریزی گلوکاروں کےلیے ہپ ہاپ بھی تیار کیے۔ 2019 میں ان کا گانا ’’حرام‘‘ صرف ایک ہفتے میں انٹرنیشل میوزک چارٹس میں پانچویں نمبر پر آچکا تھا۔ حازم وہ پہلے پاکستانی سنگر تھے جنھوں نے اپنے انگریزی گانے کے ساتھ انٹرنیشنل چارٹس تک رسائی حاصل کی۔ اس دوران وہ تین بڑی کمپنیوں کے برانڈ ایمبیسیڈر بھی رہے۔ 2021 میں حازم کا پہلا اردو گانا ’’تجھ کو بھلایا‘‘ ریلیز ہوا اور حال ہی میں پہلا میوزک البم ’’پلیئنگ ود فائر‘‘ ریلیز ہوا ہے۔

یہ تو تھی حازم کی فیشن کی دنیا میں قابلیت، لیکن فیشن ڈیزائننگ سے بالکل ہٹ کر انھوں نے ایل ایل بی کی ڈگری بھی حاصل کی ہے۔ پاکستان آنے کے بعد لوگوں کے عمومی رویے کا تذکرہ کرتے ہوئے حازم کا کہنا تھا کہ ’’لوگ کہتے تھے تم یہاں نہیں رہ سکو گے، تم یہاں ٹِک نہیں سکو گے۔ مگر مجھ میں اب یہ ضد آگئی تھی۔ مجھ میں ضد آگئی تو ایس پی ایس سی امتحانات دیے اور پہلی ہی باری میں پاس ہوگیا۔‘‘ یہ حازم کا اپنا بیان ہے لیکن معترضین کی قابلیت جانچیں تو ان میں سے کتنے افراد اہل ہیں کہ ’’مقابلے کے امتحان‘‘ میں بیٹھ بھی سکیں؟ یہاں تو قابلیت کا یہ حال ہے کہ گزشتہ سال جب سی ایس ایس 2022 کے امتحانی نتائج کا اعلان کیا گیا تو کامیاب امیدواروں کی شرح صرف 1.94 فیصد تھی۔ کیا ایسے میں حازم کی قابلیت کو سراہا جانا نہیں چاہیے؟ چلیے اس قابلیت کو بھی ایک جانب رکھ دیتے ہیں۔

حازم فلاح و بہبود کے کاموں میں بھی سرگرم ہیں۔ ان کی فلاحی تنظیم ساحلی علاقوں کی صفائی سمیت دیگر ماحولیاتی منصوبوں پر بھی کام کرتی ہے۔ جبکہ اگر ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا جائزہ لیا جائے تو فلاح و بہبود سے متعلق کئی کارناموں کی تصویری جھلکیاں بھی دیکھنے کو مل جائیں گی جو کہ اسسٹنٹ کمشنر بننے سے بہت پہلے کی ہیں، یعنی یہ سب فلاحی کام ’’نمود و نمائش‘‘ کےلیے یا ’’وائرل‘‘ ہونے کے بعد نہیں کیے گئے۔ حازم کے ظاہری حلیے پر تنقید کرنے والوں میں سے کتنے فیصد خلق خدا کےلیے اپنے دل میں درد رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیں گے؟

ہماری تحریر کا محرک صرف یہ نہیں کہ حازم کی شخصیت چونکہ اس وقت سوشل میڈیا پر موضوع بحث ہے اور ’’وائرل‘‘ ہوتی پوسٹوں میں ہم بھی اپنا نام شامل کروانا چاہتے ہیں بلکہ اس تحریر کا بنیادی مقصد حازم سے ہٹ کر ہمارے معاشرے کے منافقانہ اور نچلے رویوں کا تذکرہ ہے۔ حازم کی حمایت میں جہاں لکھا جارہا ہے وہیں تنقید کرنے والے اخلاقی زوال کی حدیں پار کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ بلاشبہ حازم کے انداز میں نسوانیت اور اطوار سے نزاکت مترشح ہے لیکن وہ ایک مرد ہیں، بے شک عام مردوں سے ہٹ کر سہی لیکن انھوں نے کسی بھی فورم پر خود کو کسی اور صنف کا نمائندہ ظاہر نہیں کیا۔ لیکن سوشل میڈیا صارفین اپنی اخلاقی گراوٹ میں انھیں ٹرانس جینڈر یا تیسری جنس کا نمائندہ کہتے ہوئے ان کا تعلق ایل جی بی ٹی تحریک سے جوڑ رہے ہیں۔ قانونی طور پر جب تک کوئی شخص خود اپنی جنس کا تعلق کسی اور صنف سے ظاہر نہیں کرتا، کوئی بھی اس پر انگلی نہیں اٹھا سکتا، نیز کسی کے انداز و اطوار پر طنز و تحقیر ’’باڈی شیمنگ‘‘ کے زمرے میں اخلاقی اور قانونی جرم ہے۔

معترضین میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جن کا اخلاقیات سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ کوئی بھی شخص کسی کے ظاہری انداز سے اس کے کردار کا اندازہ (بلکہ ہمارے معاشرے میں الزام) کیسے لگا سکتا ہے؟ کوئی کیسے کہہ سکتا ہے کہ ایک شخص اپنی خلوت میں کیسا ہوگا؟ حازم کی حیثیت اسسٹنٹ کمشنر کی ہے، اگر وہ اپنے فرائض سے روگردانی کرتے ہیں، کرپشن کرتے ہیں یا وہ اس عہدے کے لائق نہیں تو ان سے سوال کیا جاسکتا ہے، ان پر انگلی اٹھائی جاسکتی ہے۔ لیکن ان کی ’’اخلاقیات‘‘ یا نجی زندگی پر کسی ثبوت کے بغیر الزام لگا کر ان کی کردارکشی کا حق ناقدین کو کس نے دیا؟ اس پر مستزاد کچھ لوگ ایل جی بی ٹی اور مذہب کو موضوع بحث لارہے ہیں جو کہ ایک اور منافقانہ عمل ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو مذہب کا استعمال صرف اپنے ذاتی مفادات اور اپنے اعتراضات کے حق میں دلائل کے طور پر پیش کرتے ہیں لیکن خود عمل سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔

برسبیل تذکرہ ایک واقعہ بھی پیش کرنا چاہوں گا۔ ایک عرصے سے پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر رہتا ہے۔ ایک بار بھری ہوئی بس میں انیس بیس سالہ نازک اندام لڑکا سوار ہوا۔ اس لڑکے کے انداز سے ہی ظاہر تھا کہ وہ عوامی مقامات پر کم ہی جاتا ہوگا، چہرے اور حلیے سے بھی شرافت ٹپک رہی تھی۔ اس کے بس میں سوار ہوتے ہی کئی مسافروں کے چہرے پر مکروہ مسکراہٹ اور دبی دبی ہنسی جھلکنے لگی تھی۔ بس میں رش کی وجہ سے وہ لڑکا خود کو غیر محفوظ محسوس کررہا تھا اور حتی الامکان اپنا جسم دوسروں سے بچائے رکھنے کی کوشش کررہا تھا۔ جب اس نے کرایہ دیتے ہوئے اسٹاپ کا نام لیا تو کچھ لوگوں نے باقاعدہ قہقہہ لگایا کیونکہ اس لڑکے کی آواز باریک اور لہجے میں لوچ تھا، جیسے کوئی دوشیزہ بول رہی ہو۔ کچھ مسافروں نے اس لڑکے سے ’’فری‘‘ ہونے کی کوشش شروع کردی تو کچھ جملے کَس رہے تھے۔ وہ لڑکا ان رویوں کی تاب نہ لاتے ہوئے دو اسٹاپ آگے ہی اتر گیا۔ بس سے اترتے ہوئے اس کی آنکھوں کی نمی صاف دکھائی دے رہی تھی۔ لڑکے کے بس سے اترنے کے بعد بھی وہ ہی موضوع بحث رہا۔ ایک شخص نے لقمہ دیا کہ ’’بس سے اتر جائیں گے لیکن خود کو سدھاریں گے نہیں‘‘۔ کسی نے اپنے جملے سے اس لڑکے کے کردار پر فیصلہ کن مہر ثبت کی تو کسی نے مذہب کا حوالہ دیتے ہوئے ’’ایسے‘‘ لوگوں کو مطعون و جہنمی تک قرار دے دیا۔ میں دیکھ رہا تھا کہ ان نام نہاد شرفا اور ’’خالص مردوں‘‘ میں سے کچھ زبردستی لیڈیز کمپارٹمنٹ میں گھسنے کی کوشش کررہے تھے اور کچھ دور سے ہی اپنی آنکھیں ’’سینک‘‘ رہے تھے۔ ایسے وقت میں ان کی مذہبی تعلیمات کہیں سوئی ہوئی تھیں۔

لکھنے کو بہت کچھ ہے لیکن ایکسپریس کی سنسر پالیسی ان باتوں کو ضبطِ تحریر لانے کی اجازت نہیں دیتی۔ وہ تمام لوگ جو حازم کے جنسی رجحانات کو بغیر ثبوت زیر بحث لارہے ہیں انھیں مفت مشورہ ہے کہ اپنے گریبان میں جھانکیں۔ آپ لوگ جو سوشل میڈیا پر بغیر ثبوت الزام لگارہے ہیں اور ان اعتراضات کے جواب میں اپنے حق میں کہہ رہے ہیں کہ مرد و عورت کے درمیان کشش تو قدرت نے خود رکھی ہے تو یاد رکھیے کہ قدرت نے کچھ ضوابط بھی بتائے ہیں۔ آپ کے مذہب نے ہی آپ کو آنکھوں کی حفاظت کا بھی کہا ہے۔ مذہب کو اپنے مفاد کےلیے استعمال نہیں کیجیے بلکہ اپنی زندگی پر لاگو کیجیے۔ وہ تمام لوگ جو معترض ہیں اپنے گریبان میں جھانکیں کہ کیا واقعی وہ خود پاک صاف ہیں؟ مذہبی تعلیمات پر مکمل عمل پیرا ہیں؟ آپ سے کبھی کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا؟ اگر ایسا ہے تو بھی بغیر ثبوت کسی پر الزام نہیں لگائیے۔ کیونکہ کسی پر تہمت باندھنا بھی ایک گناہ ہے۔

آخر میں کچھ باتیں حازم کےلیے۔ سب سے پہلے تو ہم حازم کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ وہ اس منافق معاشرے میں اپنی لگن کے ساتھ خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ لوگوں کی پروا نہ کیجیے، آپ کی نجی زندگی آپ کی اپنی ہے، لیکن یہ پاکستانی معاشرہ ہے اور آپ جس معاشرے میں رہ رہے ہوں وہاں کی اقدار کا بہرحال خیال رکھنا پڑتا ہے۔ نجی زندگی میں آپ جو بھی کیجیے لیکن جس عہدے پر اب آپ موجود ہیں اس میں جواب دہی کا خیال رکھیے گا۔ مغربی ممالک میں بھی ایک عہدے دار کو اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی پڑتی ہے، ایک عام شخص بھی اخلاقیات کی ہلکی سی غلطی، چاہے وہ برسوں پہلے ہی کیوں نہ کی گئی ہو، اس پر سوال اٹھا سکتا ہے۔ اور مغربی معاشرے میں کتنی ہی ایسی مثالیں ہیں جب مختلف عہدے داروں نے اپنی ماضی کی اخلاقی غلطیوں پر معافی مانگی۔ ہمیں امید ہے کہ آپ اس بات کو ’’الزام‘‘ نہیں سمجھیں گے بلکہ ایک ’’مشورہ‘‘ سمجھتے ہوئے خیال رکھیں گے کہ جب تک آپ اس عہدے پر موجود ہیں، اس عہدے کی عزت رکھیے گا، اخلاقیات کا خیال رکھیے گا، تاکہ وہ لوگ جو آج بغیر ثبوت آپ کی شخصیت پر تہمت لگا رہے ہیں انھیں ہنسنے کا موقع نہ مل سکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

Shayan Tamseel

شایان تمثیل

بلاگر کوچہ صحافت کے پرانے مکین ہیں اور اپنے قلمی نام سے نفسیات وما بعد النفسیات کے موضوعات پر ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔ معاشرت، انسانی رویوں اور نفسانی الجھنوں جیسے پیچیدہ موضوعات پر زیادہ خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ صحافت اور ٹیچنگ کے علاوہ سوشل ورک میں بھی مصروف رہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔