عرفان جاوید کی کتاب آدمی

جاوید چوہدری  اتوار 5 فروری 2023
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

نیلسن منڈیلا کی زندگی کا ایک رخ یہ بھی ہے وہ ستائیس برس جیل میں قید رہے۔جب وہ رہا ہوئے توان کے فیصلوں نے انھیں ایک مدبر اورعظیم لیڈر ثابت کر دیا۔

ایک جانب ان کے اوپر کتابیں لکھی اور فلمیں بنائی گئیں‘ان کے مجسّمے چوراہوں اور سڑکوں پر نصب کیے گئے‘ ان کے نام کے ڈاک ٹکٹ جاری ہوئے اور انھیںعالمی اعزازات سے نوازا گیااور دوسری جانب ان کی اپنی بیوی وِنی نے 34 برس کی شادی کے بعد ان سے طلاق لے لی‘ وہ دیگر خانگی مسائل کے شکار بھی رہے۔ بسترِ مرگ پر بہ قول ان کے وہ اداس ترین اور’’دنیا کا تنہا ترین‘‘ آدمی تھے۔

میں نے یہ واقعہ عرفان جاوید کے شان دارتحقیقی اور فکری مضامین کی کتاب ’’عجائب خانہ‘‘ میں پڑھا تھا۔جب میں نے ان کے خاکوں کی تازہ کتاب ’’آدمی‘‘ میں شامل آصف فرخی کا خاکہ پڑھا تو مجھے نیلسن منڈیلا کا واقعہ یاد آگیا۔ آصف فرخی کی زندگی بھی دھوپ چھاؤں پر مشتمل تھی۔انھوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی امینہ سیّد کے ساتھ مل کر پاکستان میں بین الاقوامی سطح کے میلوں کی بنیاد رکھی‘ بے شمار افسانے لکھے‘ تراجم کیے‘ مضامین لکھے اور ایک ادبی رسالے کے مدیر رہے لیکن جب میں نے ان کے آخری دنوں کا احوال پڑھا تو میری آنکھیں بھیگ گئیں۔

عرفان جاوید کی کتاب’’آدمی‘‘ کے کل چھے خاکوں میں سے پہلا خاکہ آصف فرخی کا ہے۔ اس کا آغاز ایک مکالمے سے ہوتا ہے۔ عرفان جاوید نے عطاء الحق قاسمی کا خاکہ لکھ کر اسے آصف فرخی کو ان کے ادبی رسالے ’’دنیا زاد‘‘ میں اشاعت کے لیے بھجوایا۔جب چند روز بعد عرفان نے آصف سے خاکے کے بارے میں پوچھا توانھوں نے بتایا کہ خاکہ توانھیں بہت اچھا لگا ہے لیکن دنیا زاد کی پالیسی ہے یہ زندہ لوگوں پر تحریریں شایع نہیں کرتے۔

یہ بات جب عرفان نے عطاء الحق قاسمی صاحب کو بتائی تو انھوں نے بلند بانگ قہقہہ لگایا اور اپنی روایتی حاضر دماغی سے بولے ’’توکیا آصف انتظار حسین کوان کی زندگی ہی میں مردہ سمجھ بیٹھا ہے؟‘‘ آصف فرخی انتظارحسین سے عشق میں مبتلا تھے اور وہ ان کی زندگی ہی میں ان پرلکھتے رہتے تھے اور انتظار صاحب کی تحریریں بھی شایع کرتے رہتے تھے۔

اس خاکے میں جہاں مستنصر حسین تارڑ‘ عبداللہ حسین‘ شکیل عادل زادہ‘ احمد ندیم قاسمی اور اسلم فرخی جیسے قد آور ادیبوں کے دِل چسپ واقعات اور مکالمات ہیں وہیں کراچی آرٹس کونسل کے متحرک اور باصلاحیت صدر احمد شاہ‘ مصوری کے ماسٹرز میں شمار ہونے والے تصدق سہیل‘ بھارتی اداکار نصیر الدین شاہ اوردانش ور داؤد رہبرکے قصّے بھی ہیں۔مشہورتاریخ دان ولیم ڈلرمپل کے ایک نکتہ خیز لیکچر کا بھی حوالہ ہے جس میں عرفان اور آصف فرخی اکٹھے شریک تھے۔

ایک بات جس نے مجھے خاص طور پر متاثر کیا و ہ آصف فرخی کے فن کا ان کی زندگی کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ مختصر تجزیہ ہے۔ ہمارے ہاں ایسا کم کم ہوتا ہے کہ کسی ادیب کی ذاتی زندگی کے اس کی تحریروں پر اثرات کا اس گہرائی سے تجزیہ کیا جائے۔دوسرے خاکے کا عنوان ’’من موجی‘‘ ہے اور یہ اسحاق نور نامی ستارہ شناس اور زائچہ نویس کا ہے۔ میری بھی اسحاق نور سے ملاقاتیں رہیں۔ وہ زندگی سے بھر پور دل چسپ آدمی تھے۔

اس خاکے جیسی پراثر‘معلوماتی اور عمدہ تحریرمیں نے اس سے پہلے کبھی خاکوںتوکیا افسانوں اور ناولوں میںبھی نہیں پڑھی۔ اسحاق نور کے ذیلی عنوان میں اسے ’’ناول کا ایک گم شدہ کردار‘‘ لکھا گیا ہے۔اگراسحاق نور کی زندگی پر فلم بنائی جائے یا ناول لکھا جائے تو وہ بلاک بسٹر فلم اور بین الاقوامی سطح کا بڑا ناول ہوگا۔ اسحاق نور کی پرویز مشرف سے ملاقاتیں رہیں‘ صدر الدین ہاشوانی ان کے قریبی دوست رہے اور دیگر نمایاں لوگوں سے بھی ان کی صحبت رہی البتہ اپنی جوانی کا ایک حصہ انھوں نے لاہور کے بازار حسن کے ایک چوبارے پر ملازمت کرتے گزارا۔

اس خاکے میں ہیرا منڈی کا ایسا تفصیلی اور براہ راست مشاہدہ نظر آتا ہے جو کم یاب ہے۔ اس کے علاوہ اس میں خوشاب سے لے کر مٹھی تک پورے پاکستان کی ثقافت کی کہانیاں اورقصّے ملتے ہیں۔ اسحاق نور ویگنوں‘ بسوں میں اور پیدل پاکستان کے طول وعرض میں پھرا کرتے تھے سو اس میں خالص مشاہدے کی بنیاد پر جگہ جگہ کی روایات کا تذکرہ بھی ہے اور وہاں کے پکوانوں اور لوگوں کی عادات کا حوالہ بھی ہے اور آخر میں ایک دکھ کا ذکر بھی ہے‘ ایک ایسا دکھ جسے اپنے سینے میں لے کر اسحاق نور زیر زمین چلے گئے۔

آدمی میں گیبرئیل کا خاکہ بھی شامل ہے‘ وہ سوئٹزرلینڈ سے تعلق رکھنے والا ایک دائمی آوارہ گرد تھا۔ یونی ورسٹی کا تعلیم یافتہ‘ ایگزیکٹو جاب کرنے والا ایک روز سب چھوڑ چھاڑ کر دنیا کے سفروسیاحت پر نکل کھڑا ہوا تھا۔ استنبول اس کے جی کو ایسا بھایا کہ وہ جدھر بھی جاتا‘ لوٹ کر اُدھر آتا۔

استنبول میں اس کی ملاقات پاکستان کے ایک یونی ورسٹی اسٹوڈنٹ سے ہوتی ہے جو وہاں پر ہفتوں کے لیے اسی اسٹوڈنٹ ہوسٹل نما ہوٹل میں مقیم تھا جہاں گیبرئیل رہتا تھا۔ دونوں کی ایسی دوستی ہوتی ہے کہ گیبرئیل اسے اپنے دوست لڑکوں لڑکیوں سے ملواتا ہے اور استنبول کے ان حصوں تک لے جاتا ہے جوسیاحوں کی لسٹ میں نہیں ہوتے۔ ایک رات اس پاکستانی اسٹوڈنٹ کوپولیس پاسپورٹ ساتھ نہ رکھنے پر غیر قانونی قیام کے شک میں پکڑ کر حوالات لے جاتی ہے۔

گیبرئیل کو گورایورپی ہونے کی وجہ سے پولیس چھوڑ دیتی ہے مگر گیبرئیل اپنے پاکستانی دوست سے حق دوستی ادا کرتے ہوئے اس کے ساتھ حوالات چلا جاتا ہے۔ وہ پاکستانی یونی ورسٹی اسٹوڈنٹ عرفان جاوید ہوتا ہے اور حوالات والی رات سے وہ گیبرئیل پر لکھے طویل خاکے کا آغاز کرتا ہے۔ یہ خاکہ‘ خاکہ نہیں ایک سفر نامہ‘ افسانہ اور تاریخ وسماج کی عکاسی ہے۔

بعدازاں دنیا کے کئی ملکوں کے سفر کرنے کے باوجود استنبول عرفان کے اندر ایسے اتر جاتا ہے کہ جب وہ اس پر تحریر کرنے پر آتا ہے تو اس نظر سے اس شہر کو‘ تہذیب کے گہوارے کو‘ دیکھتا ہے جو ایک عام آدمی کی نظر نہیں‘ایک فن کار کی نظر ہے‘ ایک شہ پارہ تخلیق کرتے ادیب کی نظر ہے۔

آدمی میں’’خواب دیکھنے‘ دکھانے والا‘‘ دست شناس مطیع الرحمان کا خاکہ بھی ہے۔ اس خاکے میں اسے ایک پامسٹ کے طور پر نہیں دیکھا گیا بلکہ ایک غم خوار انسان‘ ایک یارباش دوست اور ایک مجبور شخص کے طور پر دیکھا گیا ہے ۔پامسٹ کے سامنے لوگ اپنا دل کھول کر رکھ دیتے ہیں‘ اپنے دکھ سکھ‘ اپنے راز بیان کرتے ہیں۔

عرفان نے مطیع الرحمان کی نظرسے لوگوں کو دیکھا ہے۔ مطیع جو نوادرات کا شوق رکھتا ہے‘ شکاری ہے‘ آواگون‘ جنموں کے سلسلے کے عقیدے میں دل چسپی رکھتا ہے اور سیاست دانوں سے اس کی دوستی ہے۔ اس خاکے میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب منظور وٹو‘ گزشتہ گورنر چوہدری الطاف‘ چوہدری پرویز الٰہی اور دیگر کئی سیاست دانوں سے اس کی ملاقاتوں اور حکایات کا بیان ہے۔

عاملوں‘ جعلی پیروں کی جعل سازی کا احوال اور جیل کے ان قیدیوں کا تذکرہ ہے جو اسے خط لکھتے تھے اور وہ ان سے ملنے جیل چلا جاتا تھا۔ عرفان نے مطیع کی کل شخصیت کو تین الفاظ میں سمیٹا ہے۔ساٹھ کی دہائی میں جب یورپ اور امریکا میں ہپی تحریک اپنے عروج پر تھی تو کھاتے پیتے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے چند پڑھے لکھے لڑکے بھی شوق وجستجو میں یورپ اورامریکا کو نکل گئے تھے۔ پھر وہ لڑکے کبھی پاکستان نہ لوٹے اگر آئے بھی تو چند روز کے لیے۔آج وہ کس حال میں ہیں‘ ایڈونچر کے شوقین ان لڑکوں کا کیا بنا؟

یہ سب بڈی ماموں نامی ایک ایسے ہی من چلے کے خاکے کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے۔ بڈی ماموں کا بھانجا عرفان کا دوست تھا۔ عرفان یونی ورسٹی کے زمانے میں بڈی ماموں کو پہلی مرتبہ ملا تھا اور بعد میں کئی سال ملتا رہا۔ وہ آج بھی بڈی ماموں سے رابطے میں ہے۔ اس میں ساٹھ ستر کی دہائی کا ویانا‘آسٹریا اور یورپ نظر آتے ہیں‘ امریکا کا انڈیانا دِکھتا ہے اور لاس ویگاس جسے ’’شہرگناہ‘‘ کہا جاتا ہے اور جہاں بڈی ماموں ایک جوئے خانے میں برسوں منیجر کے فرائض سرانجام دیتے رہے کے شب و روز کا احوال ہے۔

اس میں ایک تجربہ کار جہاں گرد کی نظر سے عورت اور مرد کی نفسیات‘ طلاق کے بڑھتے ہوئے رجحان‘ عشق و رومان کی مختلف جہتوں اور مختلف موضوعات کو منفرد انداز میں دیکھا گیا ہے۔ مغرب کے بہت سے لوگوں کی طرح بڈی ماموں اشیا کے بجائے یادیں اکٹھی کرنے پر یقین رکھتے تھے۔ عمر کے اس آخری حصّے میں ان کی یادوں کے خزانے کا کیا ہوا؟اس موضوع پر ایک بہت مختلف اور منفرد پہلو سے چونکا دینے والے انداز میں اس خاکے کا اختتام ہوتا ہے۔

’’بانسری بابا‘‘اس کتاب کا آخری خاکہ ہے اور میرا پسندیدہ بھی۔ کسی بڑے ادیب کی خوبی ہوتی ہے کہ کسی عام کردار کو چھو کر لازوال کردیتا ہے۔ اس خاکے میں بابا اقبال پہرے دار کے سے درویش صفت صوفی منش‘جانوروں‘ پرندوں سے عشق کرنے والے‘ شاموں کو بانسری کی دھن چھیڑنے والے بانسری بابا کو عرفان نے امرکردیا ہے۔مجھے اس خاکے میں اے حمید کا قلم نظر آیا اور اساتذئہ ادب کی جھلک نظر آئی۔ اس میں ماضی کی‘ چھتنا ور درختوں میں گھری اور انوکھے جیتے جاگتے کرداروں سے رنگی‘ لاہور چھاؤنی دوبارہ زندہ ہوتی نظر آتی ہے۔

اس تحریر میں کوئل کی کوک‘چلتی چکی کی ہوک اور بانسری کی مدھر موسیقی سنائی دیتی ہے‘ گنگناتی ندی کی کومل آواز اور چھوٹے ننھے منے بچوں کی قلقاریاںسنائی دیتی ہیں جو کانوں کے رستے روح میں اتر جاتی ہیں۔شمیم حنفی ہندوستان کے نام ور دانش وراورنقاد تھے جو گزشتہ دنوں وفات پاگئے۔ ان کا ایک بیان بہت مشہور ہوا تھا کہ اردو ادب پر تین حُسینوں کی حکم رانی ہے یعنی عبداللہ حسین‘ انتظارحسین اور مستنصر حسین تارڑ۔

جب انھوں نے عرفان کے تحریر کردہ خاکے پڑھے تو کہہ اٹھے’’عرفان جاوید کے تحریر کردہ خاکوں نے مجھ پر جادوئی اثر کیا‘ ‘انھوں نے کیا خوب سچ کہا‘ پاکستان کے اہم ترین اور بڑے ادیب مستنصر حسین تارڑ اگر عرفان کے خاکوں کو رجحان ساز کہتے ہیں اور الفاظ کے جادوگر شکیل عادل زادہ اگر ان خاکوں کی تعریف کرتے ہیں تو اس سے بڑا اعزاز کیا ہوسکتا ہے۔جو لوگ کہتے ہیں کہ اب اردو میں بڑا ادب‘عمدہ زبان میں تخلیق نہیں ہورہا‘ میرا بس چلے تو ان کے سامنے عرفان جاوید کی کتابیں خاص طور پر’’ آدمی‘‘ رکھ دوں اور ان سے کہوں ’’خود فیصلہ کریں‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔