ان سے بد تر حالات اب کیا ہونگے

ڈاکٹر منصور نورانی  پير 6 فروری 2023
mnoorani08@hotmail.com

[email protected]

آج ہم جن مشکل حالات سے دوچار ہیں یہ کوئی غیر متوقع نہیں تھے۔ 2017 میں جس طرح ایک اچھی بھلی چلتی حکومت کو پاناما لیکس کو بہانہ بنا کر اقامہ کی بنیاد پر فارغ کیا گیا اس کے پیچھے بہت سے عوامل اور راز پوشیدہ ہیں۔

2013 میں برسر اقتدار آنے والی مسلم لیگ (ن) کی حکومت جس طرح تیزی سے اس ملک کو بحرانوں سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کر رہی تھی ہمیں اپنا غلام اور تابع دار رکھنے والی عالمی قوتوں کو یہ ہرگز گوارا نہیں ہو پایا۔ ہم پرویز مشرف دور میں شروع ہونے والی دوسروں کی لڑائی میں اپنا خون بہا رہے تھے، جانوں کی قربانیاں دے رہے تھے، امن و سکون برباد کر رہے تھے وہ کسی طور تھمنے ہی نہیں پا رہا تھا۔

ہماری معیشت بری طرح متاثر ہورہی تھی۔ دنیا ہمیں ایک غیر محفوظ ملک قرار دیکر ہم سے اپنے رشتے ناتے توڑ رہی تھی۔ ہم دنیا میں تنہا ہوتے جا رہے تھے ، ہماری تجارت اور بزنس ٹھپ ہوتا جا رہا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ توانائی کے بحران اور کراچی کی بد امنی نے عوام کا جینا دوبھر کر کے رکھ دیا تھا۔

اِن سب مسائل سے جو مسلم لیگ نون کی حکومت کو ورثہ میں ملے تھے اُن سے بہت ہی کم عرصے میں میاں نواز شریف نے کامیابی سے نمٹا اور چائنا سے نئے تعلقات استوار کر کے ایک بڑے منصوبے سی پیک پرکام شروع کر دیا۔ یہی وہ وجہ تھی جو ہمارے دشمنوں کو برداشت نہ ہوسکی اور انھوں نے طے کر لیا کہ اس شخص کو 1999 کی طرح ایک بار پھر نشان عبرت بنا دیا جائے۔

یہ جب بھی برسر اقتدار آتا ہے پاکستان کوایک خود کفیل اور خود مختار ملک بنانے کی کوششیں شروع کر دیتا ہے۔ دنیا کو ہماری ترقی اور خود مختاری ایک آنکھ بھی گوارا نہیں۔ ہمیں اپنا غلام اور محتاج رکھنا ہی اُن کی ترجیح اور منشاء ہے ، لہٰذا میاں نواز شریف کو اقتدار سے قبل از وقت معزول کر کے اس ملک کو ڈی ریل کر دیا گیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ہم مسلسل تنزلی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔

پچھلے دو سالوں سے ہم معاشی طور پرکنگال ہوچکے ہیں۔ اپنے زرمبادلہ کے ذخائرکو جھوٹا سہارا دینے کے لیے سعودی عرب اور یو اے ای سے تین تین ارب ڈالر ادھار مانگے گئے۔ معیشت کو اِن ظاہری اور فریب طریقوں سے سہارا دینے کا سلسلہ خان صاحب کے دور ہی میں شروع ہوچکا تھا ، یہ چیز خان کے اُن دعوؤں کی مکمل طور پر نفی کرتی ہے کہ اُن کے دور میں ملک بہت ترقی کر رہا تھا ، اگر ایسا ہوتا تو ملکی خزانے میں دکھائوے کے ان چھ ارب ڈالروں کی بھلا کیا ضرورت تھی۔

عالمی دشمنوں نے ہمیں اس مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں اُن کا ٹارگٹ بھی نہیں تھا۔ آج ہم کوڑی کوڑی کو محتاج ہوچکے ہیں۔ سیلاب کی تباہی کے باوجود آئی ایم ایف ہمیں کوئی رعایت یا ریلیف دینے کو تیار نہیں۔ وہ ہم پر سخت سے سخت شرائط عائد کرتا جا رہا ہے اور ہم چند ڈالروں کے لیے اُن کی ہر شرط پوری کرتے جا رہے ہیں۔

ہمیں اس مقام پر پہنچانے والے ہمارے اپنے لوگ اب خاموشی کے ساتھ ایک طرف ہو کے ہماری بے بسی کا تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ قوم اپنے ناکردہ گناہوں کی پاداش میں ایک ناگہانی عذاب میں مبتلا ہے۔ آس پاس کے تمام پڑوسی ملک ہماری اس مجبوری اور بے چارگی پر ہنس رہے ہیں۔ خطے میں اس وقت سب سے سستی اور بے توقیر کرنسی ہماری ہی ہے۔ ہم پچاس سال پیچھے دھکیل دیے گئے ہیں۔

ہمیں اب خود کو دوسروں کے برابر لانے میں اب پھر چالیس پچاس سال کا عرصہ درکار ہوگا ، ہماری اس ذلت و رسوائی کا ذمے دار کون ہے۔ آزاد ہوئے 75 برس بیت جانے کے بعد بھی ہمارا یہ حال کس نے کر دیا ہے ، ہم ابھی تک اصل مجرموں کو پہچان ہی نہیں پائے ہیں ، جب تک ہم اپنے اِن مجروموں کو پہچان کر اُن کا سدباب نہیں کر دیتے ، ہم اگلے پچاس سال بھی اسی طرح ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے۔

ذرا سوچیے تو ہم نے اپنے ساتھ ساتھ کشمیریوں کو بھی شدید مایوس اور نا اُمید کیا ہے۔ آج ہم چند سکوں کے لیے دنیا کے آگے گڑگڑا رہے ہیں ایسے میںہم اپنے کشمیر ی بھائیوں کی بھلا کیسے مدد کرسکتے ہیں۔

ایک طرف ہم اپنی معاشی مشکلات سے نبرد آزما ہیں تو دوسری طرف سیاسی کشمکش بھی عروج پر ہے۔ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو برداشت ہی نہیں کر پا رہی ہے۔ خان صاحب نئے الیکشن کے لیے ایک سال سے لڑ رہے ہیں۔ دوسری جانب حکومت ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے ، جب کہ حالات بتا رہے ہیں کہ نئے انتخابات اس سال شاید ہو ہی نہ پائیں ، اگر ہو بھی گئے تو سیاسی استحکام پھر بھی ممکن نہ ہو پائے گا۔

یہ تو طے ہے کہ خان اپنے شکست کسی طور تسلیم نہیں کرے گا اور جیت کے سوا اُسے کوئی نتیجہ قبول بھی نہ ہوگا ، جب ایک فریق اس سوچ کا حامل ہو تو غیر جانبدارانہ اور شفاف الیکشن اگر ہو بھی جائیں تو اس ساری مشق کی حیثیت مشق رائیگاں کے سوا کچھ نہیں ، ملک اور بھی افراتفری کا شکار ہوجائے گا۔ ویسے بھی مقتدر حلقے اس سال الیکشن کروانے کے موڈ میں دکھائی نہیں دیتے۔ جون جولائی تک سارا سیٹ اپ تبدیل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

معاشی حالات ان انتخابات کے حق میں جاتے دکھائی نہیں دے رہے۔ خان صاحب بھی کس حد تک یہ سمجھ چکے ہیں ، جس طرح ماضی میں جنرل ضیاء الحق نے اور پرویز مشرف نے پہلے احتساب اور پھر انتخابات کا ڈول ڈال کر انتخابات کو غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کر دیا تھا اسی طرح اس بار بھی پہلے معیشت پھر انتخابات کا نعرہ لگا کر نئے انتخابات کو باآسانی ملتوی کیا جاسکتا ہے۔ قوم بھی اب اس سوچ کی حامل ہوتی جا رہی ہے۔

سیاست دانوں کی لڑائیوں سے وہ بد دل اور بیزار بھی ہوچکی ہے۔ جس عوامی پذیرائی کا دعویٰ خان صاحب کیا کرتے ہیں وہ رفتہ رفتہ ماند پڑتی جا رہی ہے۔ عوام الناس کو بھی احساس ہو چکا ہے کہ ملک کے معاشی حالات اب کسی سے بھی سدھر نہیں سکتے ہیں ، وہ ذہنی طور پر ڈیفالٹ ہوجانے کے اعلان کو قبل از وقت قبول کرچکی ہے۔ اُسے اب کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون حکمران ہے۔ شاید اسی لیے وہ کسی کی گرفتاری پر رد عمل دینے سے بھی اجتناب کررہی ہے۔

لال حویلی کے مکین کو یہ غلط فہمی تھی کہ اس کی گرفتاری کا سن کر لوگ سڑکوں پر نکل آئیں گے اور سارا پنڈی دو منٹ میں بند ہوجائے گا ، مگر افسوس کہ ایسا نہ ہو پایا۔ یہی حال خان صاحب کا بھی ہے۔ عوام کسی کے لیے بھی اب اپنی جانوں کا نذرانہ دینے کو تیار نہیں ہے ، بہت ہوچکا۔ قوم کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ ایسے میں وہ آنسو گیس اور لاٹھی چارج کھانے کے لیے بھلا کیوں نکلے گی۔

صرف چند آسودہ افراد اور حمایتی شور مچائیں گے اور دوسرے دن وہ بھی دبک کے سو جائیں گے۔ اسی لیے خان صاحب چار مہینوں سے زمان پارک سے باہر نہیں نکل رہے۔ انھیں اگر یقین ہوتا کہ اُن کے چاہنے والے اُن کی گرفتاری پر سارا ملک جام کردیں گے تو وہ باہر نکلنے میں اتنی دیر نہیں لگاتے۔ ویسے بھی قوم نے سب کو آزما لیا ہے۔ اسی لیے اس نے اپنے آپ کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے ، جوبھی اب ہوگا ، اس سے بدترکیا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔