- ان لینڈ ریونیو سروس ملازمین کی مراعات پر عملدرآمد کا فیصلہ
- پٹرولیم مصنوعات کی فروخت میں 26 فیصد کی کمی
- آن لائن حاضری نہ لگانے والے اساتذہ کی تنخواہ روکنے کا حکم
- جناح ہاؤس پر حملہ کرنے والے شرپسند کے ہوش ربا انکشافات
- نئے بجٹ میں ویلتھ ٹیکس لگانے کی تجویز
- بونس شیئر اورغیر تقسیم شدہ منافع پر 5 فیصد ٹیکس کی تجویز
- سندھ کا بجٹ 10 جون کو پیش کیا جائیگا
- بجٹ؛ قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس 6 جون کو طلب
- ’’دنیائے کرکٹ نے محمد آصف جیسا بالر کبھی نہیں دیکھا‘‘
- پاک فوج کا ٹرک بےقابو ہوکر دریائے نیلم میں گرگیا، 4جوان شہید
- آنجہانی ریسلر اوماگا کے بیٹے زیلا فاتو نے اسلام قبول کرلیا
- پاکستانی اسٹارز نے ٹی20 بلاسٹ کو چار چاند لگا دیے
- ڈیوڈ وارنر پاکستان کیخلاف الوداعی ٹیسٹ کھیلیں گے
- واٹس ایپ نے ایموجی کی بورڈ میں تبدیلی کر دی
- شہر میں رہنے والوں کا مضافاتی علاقوں میں جا بسنا نقصان دہ ہوسکتا ہے
- جسم پر 34 ٹیٹو کے ساتھ مشترکہ ریکارڈ بنانے والے دو مارول مداح
- آڈیو لیکس انکوائری کمیشن اور مریم نواز کےخلاف توہین عدالت کی درخواست ناقابل سماعت قرار
- بنوں میں جھڑپ کے دوران پاک فوج کے 2 جوان شہید، 2 دہشتگرد جہنم واصل
- منگھوپیر میں واٹر بورڈ کے عملے کو پانی کے غیر قانونی کنکشن کیخلاف کارروائی مہنگی پڑ گئی
- سندھ بھر میں ڈاکٹروں کا چھٹے روز بھی او پی ڈیز کا بائیکاٹ، مریضوں کو مشکلات
جنرل پرویز مشرف کی عسکری زندگی کا جائزہ

سقوط ڈھاکہ اور سیاچن میں ناکامی کے واقعات زندگی بھر اُن کے دل و دماغ پر چھائے رہے۔ فوٹو: فائل
پاک فوج کے سابق سربراہ اور پاکستان کے سابق صدر مملکت جنرل پرویز مشرف مرحوم کا خاندان تقسیم سے قبل متحدہ ہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں آباد تھا، جہاں ان کا آبائی گھر نہر والی حویلی کے نام سے مشہور تھا۔
برصغیر کے مسلمانوں کے عظیم مُصلح سرسید احمد خان کا خاندان ساتھ والے گھر میں رہتا تھا۔ یہیں پر پرویز مشرف پیدا ہوئے۔ تقسیم کے بعد 1947ء میں یہ خاندان ہجرت کرکے کراچی میں آباد ہوا۔ ان کے والد کو ’جو سرکاری ملازم تھے‘ پاکستان آنے کے بعد وزارت خارجہ میں تعینات کردیا گیا اور ایک سفارتکار کے طور پر ترکی بھیج دیا گیا۔
یہ خاندان 1956 میں پاکستان واپس آیا جہاں پرویز مشرف کو سینٹ پیٹرکس اسکول کراچی میں داخل کرا دیا گیا۔ بعد ازاں وہ ایف سی کالج لاہور میں داخل ہوئے۔ یہاں عجیب اتفاق یہ ہوا کہ کالج ہوسٹل میں جو دو نوجوان ان کے ساتھ رہتے تھے، انہوں نے بھی پاکستان کی مسلح افواج میں اعلیٰ ترین عہدوں پر خدمات انجام دیں۔ ان میں ایئر چیف مارشل پرویز مہدی قریشی نے پاک فضائیہ اور ایڈمرل عبدالعزیز مرزا نے پاک بحریہ کے سربراہ کے طور پر خدمات انجام دیں۔
پرویز مشرف نے 1964 میں پاک فوج کی کور آف آرٹلری (توپ خانے) میں کمیشن حاصل کیا۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ میں کھیم کرن کے محاذ پر بہادری کا مظاہرہ کرنے پر امتیازی سند حاصل کی۔ سیالکوٹ کے محاذ پر تعیناتی کے دوران ان کے کمانڈنگ آفیسر نے ان کا نام اسپیشل فورس اسکول کے کورس کے لئے تجویز کیا جہاں سے سخت تربیت کے بعد انہیں کمانڈو کی حیثیت سے ایس ایس جی میں شامل کرلیا گیا۔
1966 سے 1972 کے دوران پہلے کیپٹن اور پھر میجر کے عہدے پر ترقی پائی۔ 1971 کی پاک بھارت جنگ میں انہوں نے ایس ایس جی کی ایک کمپنی کمانڈ کی۔ انہوں نے 1980 میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سے سیاسیات میں ڈگری حاصل کی اور کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر کام کیا۔ انہوں نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں بھی تدریسی فرائض انجام دیئے۔
1987 میں جنرل محمد ضیاء الحق نے ’جو اُس وقت صدر مملکت بھی تھے‘ پرویز مشرف کو بریگیڈئیر کے عہدے پر ترقی دیتے ہوئے انہیں پہاڑی علاقوں میں فوجی کارروائیوں کے وسیع تجربے کی بنا پر سیاچن گلیشیئر کے علاقے میں تعینات نو تشکیل شدہ بریگیڈ کی کمان سونپی۔
سال 1988-89 کے دوران تب بریگیڈئیر پرویز مشرف نے اُس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو کارگل میں فوجی کارروائی کی تجویز پیش کی۔ اس مقصد کے لئے دی جانے والی بریفنگ کے بعد بے نظیر بھٹو نے فوجی کارروائی کی اجازت نہیں دی۔ 1990میںمشرف نے برطانیہ کے رائل کالج آف ڈیفنس سٹڈیز سے اعزاز کے ساتھ گریجویشن کی۔ کالج کے کمانڈانٹ جنرل اینٹونی والکر نے ان کے مقالے ‘Impact of Arms Race in The Indo-Pak Subcontinent’کو شاندار الفاظ میں سراہا۔
1991 میں انہوں نے میجر جنرل کے عہدے پر ترقی پائی۔ فوج کے اعلیٰ ترین عہدے پر ترقی پانے سے قبل اُس دور کے دونوں وزراء اعظم محترمہ بے نظیر اور میاں نواز شریف کو کارگل میں فوجی کارروائی پر بریفنگز دی گئیں تھیں لیکن دونوں وزراء اعظم اس عسکری کارروائی پر راضی نہیں ہوئے۔ بعد ازاں 1999 میں اُس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کارگل میں عسکری کارروائی کے اس منصوبے کی منظوری دے دی تھی۔
7 اکتوبر 1998کو انہیں پاک فوج کا سربراہ بنا دیا گیا۔ کارگل میں فوجی آپریشن پرویز مشرف کی زندگی میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ اس متنازع آپریشن کے حوالے سے کئی طرح کے تجزیئے اور دعوے کئے جاتے ہیں لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں اسی آپریشن کی اجازت نہ ملنے کے باعث اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا تھا۔
دراصل 13 اپریل 1984 میں بھارتی فوج نے کشمیر کے انتہائی شمالی علاقے میں واقع سیاچن گلیشیر پر قبضہ کرلیا تھا۔ جس کا مقصد مقبوضہ کشمیر پر اپنے قبضے کو ممکنہ خطرات سے مزید محفوظ بنانا تھا۔ بھارتی فوج نے سیاچن گلیشیر اور اس سے ملحق سالتورو ریج پر کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔ گلیشیر سے بھارتی قبضہ ختم کرانے کی متعدد کوششیں کی گئیں جو کامیاب نہ ہوسکیں۔
قبضے کے کچھ برس بعد علاقہ واگزار کرانے کے لئے جو سب سے بڑا جوابی حملہ کیا گیا اس کی قیادت جنرل پرویز مشرف نے کی تھی جو اُس وقت بریگیڈئیر تھے لیکن یہ حملہ بھی مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ 2003 میں اس بلند ترین محاذ جنگ پر فائر بندی کا معاہدہ ہوگیا تھا۔ سقوط ڈھاکہ اور سیاچن میں پاک فوج کی ناکامیاں تمام زندگی جنرل مشرف کے دل و دماغ پر چھائی رہیں اور وہ یہ داغ دھونے کی کوشش کرتے رہے۔
کارگل کی فوجی کارروائی کو اگر منطقی انجام تک پہنچایا جاتا تو سیاچن پر بھارتی تسلط کے خاتمے کی راہ ہموار ہو سکتی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ پاک فوج کی قیادت سنبھالنے کے بعد جنرل پرویز مشرف نے جو کارگل میں فوجی کارروائی کی تھی اُس کے پیچھے لازماً سیاچن میں ہونے والی ناکامی کا عمل دخل تھا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔