ادبی شعبدہ بازیاں!

رئیس فاطمہ  اتوار 16 ستمبر 2012
رئیس فاطمہ

رئیس فاطمہ

پچھلے کالم میں علمی و ادبی اداروں کی تباہی، اقربا پروری اور کتابوں کے حوالے سے بات ہوئی تھی۔

چند قارئین نے اسی حوالے سے کچھ اور باتوں کی طرف بھی توجہ دلائی، جس میں سرفہرست یہ بات تھی کہ کتابیں تو بے تحاشا چھپ رہی ہیں، لیکن ان کی اہمیت کیا ہے؟ پیسے اور پی آر شپ کی بدولت چھپنے والی کتابوں سے ادب کو کیا فائدہ ہے؟ قارئین نے نشان دہی تو واقعی ایک اہم مسئلے کی ہے۔ پاکستان کے بڑے اور چھوٹے شہروں سے کتابیں تو تواتر سے چھپ رہی ہیں جو کہ ایک اچھی علامت ہے کہ انٹرنیٹ کے ناگ نے سب کچھ نہیں نگل لیا۔

لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ان شایع ہونے والی کتابوں میں زیادہ تر کتابیں وہ ہیں جو بعض لوگ اپنے نام کے ساتھ زیادہ سے زیادہ کتابوں کی تعداد کا لاحقہ لگا کر بعض فوائد حاصل کرتے ہیں۔ اس قسم کی کتابوں کو صرف صفحے سیاہ کرنے سے تعبیر کرنا زیادہ صحیح ہے۔ ہو یہ رہا ہے کہ بڑی کاری گری سے چار پانچ کتابیں ایک ہی موضوع کی سامنے رکھ کر ان کے صفحات پر نشان لگا کر کمپوزر کے حوالے کردی جاتی ہیں اور ان پر نمبر ڈال دیے جاتے ہیں۔ لیجیے کتاب تیار۔

بعض ذہین افراد تو اس کی بھی زحمت نہیں کرتے بلکہ کسی ایسے مصنف کی جو اب حیات نہیں ہیں، ان کی کوئی کتاب اٹھائی اور اس کی تلخیص کرکے اپنے نام سے چھاپ دی۔ چند سال پہلے ایک ادارے کی طرف سے تبصرے کے لیے آنے والی کتابوں میں ایک کتاب اردو افسانے کے ارتقائی سفر پر بھی تھی۔ جب میں نے پڑھا تو وہ وقار عظیم کی کتاب ’’داستان سے افسانے تک‘‘ کا چربہ تھی۔

ان مصنف کی آئے دن کوئی نہ کوئی کتاب شایع ہوتی رہتی ہے۔ ذرا تحقیق کیجیے تو سارا کچا چٹھا سامنے آجاتا ہے۔ میری طرح اور بھی لوگ یہ چوری پکڑلیتے ہیں مگر خاموش رہتے ہیں کہ سچ لکھ کر دشمنی مول کون لے۔ دراصل زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح ادب میں بھی وقار عظیم، ڈاکٹر عبادت بریلوی، ڈاکٹر سید عبداﷲ، ڈاکٹر وحید قریشی، آل احمد سرور اور احتشام حسین جیسے بڑے نقاد نہیں رہے جو ہر تحریر کو پڑھ کر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کردیتے تھے۔ موجودہ دور کرنسی اور پی آر کا ہے۔

پیسہ خرچ کیجیے اور اپنی مرضی کی کتاب بڑے بڑے لوگوں کے فلیپ اور تعریفی مضامین کے ساتھ کسی بھی ایسے پبلشنگ ہائوس سے اٹھا لیجیے جو کراچی، لاہور، فیصل آباد، ملتان اور دیگر شہروں میں اپنی اپنی ذاتی حیثیت میں کام کررہے ہیں۔ ان کے پاس سارا مال تیار ملے گا، آپ کو ناول، افسانے، سفرنامے، شاعری، غرض یہ کہ کسی بھی موضوع پہ کتاب درکار ہو، خریدار کے حسب منشا سب کچھ مہیا کردیا جائے گا۔

فلیپ، مضمون، ٹائٹل اور مکمل کتاب تیار کرکے دینے میں خریدار کی خواہش پر آرٹس کونسل یا کسی اور جگہ تقریب بھی منعقد کروا دی جائے گی، لیکن اس کے پیسے علیحدہ ہوں گے۔ اس کے علاوہ اگر خریدار کی مرضی کے مطابق مقررین درکار ہوں گے تو ان کے اخراجات بھی الگ ہوں گے۔ مثلاً کسی دوسرے شہر سے ایسے بڑے ناموں کو بلوانا جو سیاست اور میڈیا کی وجہ سے بڑے بن گئے ہیں یا بڑے بنادیے گئے ہیں۔ ان کے فضائی سفر اور ہوٹلوں میں رہایش کے اخراجات کی لسٹ الگ ہوتی ہے۔

البتہ مقامی مقررین کو کوئی معاوضہ ادا نہیں کیا جاتا۔ اب جس مقرر کو ہوائی جہاز کا آنے جانے کا کرایہ دے کر بلایا جارہا ہے وہ تو پابند ہے کہ نام نہاد کتاب اور مصنف/ مصنفہ کو قرۃ العین حیدر سے بڑا ناول نگار یا شاعری میں غالب ثانی قرار دے دے۔ ہمارے ایک پروفیسر صاحب تو اس حد تک چلے گئے کہ ایک شاعرہ کو انھوں نے غالب کے ہم پلّہ قرار دے دیا تھا۔

اس لیے کہ ساری سرمایہ کاری کی ہی اس لیے جاتی ہے بغیر ایک لفظ لکھے ادیب اور شاعر کا دم چھلّہ نام کے ساتھ لگ جائے۔ آخر کو سعودی عرب کے ریال، امریکا و کینیڈا کے ڈالرز کس کام آئیں گے؟

لیکن اس سب کے باوجود حقیقت تو یہ ہے کہ پیسے خرچ کرکے بڑے بڑے جغادری ادیبوں اور شاعروں سے اپنے لیے خواہ کتنے ہی قصیدے کیوں نہ لکھوالیں۔ شہ سرخیوں میں خبریں بھی کیوں نہ لگوالیں، تصاویر بھی کیوں نہ چھپوالیں۔ ایک دن کے بعد ان لوگوں کو بھی کتاب اور مصنف (نقلی) کا نام یاد نہیں رہتا جو صرف چائے اور سموسے کھانے وہاں گئے تھے۔

البتہ وہ ادارے یا وہ لوگ جو ذاتی حیثیت میں یہ بازار اور محفلیں سجاتے ہیں سراسر فائدے میں رہتے ہیں، کیونکہ یہ ان کا کاروبار ہے۔ انھیں بھی بچّے پالنے ہیں، گھر چلانا ہے اور پھر وہ لوگوں کی جیبوں سے زور زبردستی پیسے تو نہیں نکالتے، بھتہ تو نہیں لیتے، اغوا تو نہیں کرتے، نقلی دوائوں کا کاروبار تو نہیں کرتے، صرف دو نمبر کا ادیب اور شاعر تخلیق کرتے ہیں۔ خود بھی خوش رہتے ہیں اور جسے تخلیق کار بناتے ہیں وہ بھی خوش۔

یہ ایک پیکیج ڈیل ہوتی ہے۔ مال دار لوگ رقم لے کر ان کے آستانے پر حاضری دیتے ہیں۔ ان ادبی آستانوں کے مالک حسبِ خواہش نذرانہ لے کر ان کے من کی مراد پوری کرتے ہیں تو ان کی شکل دیکھنے کے قابل ہوتی ہے۔

دراصل ادب میں یہ کوئی نیا سلسلہ نہیں ہے۔ ڈالروں، دیناروں، درہم اور یورو کے عوض رسالوں میں بہت پہلے سے یہ کام جاری ہے۔ اس المیے کی جانب مشفق خواجہ صاحب نے بھی کئی بار نہایت خوبصورت، کٹیلے اور تیکھے طنزیہ و مزاحیہ انداز میں توجہ دلائی تھی بلکہ سب سے پہلے اسی ’’مردِ حق‘‘ نے ہنستے کھیلتے یہ راز بھی کھولا کہ بیرونِ ملک جو لوگ مشاعرے پڑھنے جاتے ہیں، وہ دراصل ’’من ترا حاجی بگویم، تو مرا حاجی بگو‘‘ یعنی میں تمہیں حاجی کہوں تم مجھے حاجی کہو۔

آج تک یہی ہورہا ہے۔ بیرونی دورے چند بااثر اور پی آر شپ کے ماہر ہی کرتے ہیں۔ گزشتہ 25 سال کی فہرست پر نظر ڈال لیجیے، چند ہی لوگ بھارت جاتے ہیں اور وہاں سے بھی چند مخصوص افراد جوابی دورے کرتے ہیں۔ اکادمی ادبیات ہو، مقتدرہ ہو یا نیشنل بک فائونڈیشن۔ یہ صرف چند من پسند خواتین و حضرات کو ہی منتخب کرتے ہیں۔ کبھی کوئی نیا اور مستحق نام نظر نہیں آتا۔

خواہ غالب کے سلسلے کا کوئی پروگرام ہو یا سارک کانفرنس۔ قرعہ فال ’’اپنوں‘‘ ہی کے نام نکلتا ہے، کیونکہ یہ سب باہمی افہام و تفہیم کا معاملہ ہے۔ یہاں سے جو لوگ جائیں گے، وہ واپسی پر اپنے میزبانوں کو شرفِ میزبانی بخشیں گے۔ افسوس اس بات کا بھی اکثر ادیبوں اور شاعروں کو ہے کہ کئی کئی بار غیر ملکی دورے کرنے والے خود بھی اتنا ظرف نہیں رکھتے کہ وہ کہیں کہ بھائی ہم تو جاتے ہی رہتے ہیں۔

اب کچھ دوسرے لکھاریوں کو کم از کم ان کی صلاحیتوں کی بِنا پر نہ سہی، صوبائی سطح پر ہی ان کی باری آنی چاہیے، لیکن اتنا ظرف بھلا کہاں؟ وہ تو ٹیلی فون پر ہی بھارت سے اپنے دوستوں سے دعوت نامے منگوا لیتے ہیں اور ادھر سے بھی انھی ’’عاشقانِ ادب‘‘ کو دعوت نامہ بھیجا جاتا ہے جو انھیں یہ یقین دہانی کرادیتے ہیں کہ اگلی بار وہ پاکستان میں ان کے مہمان ہوں گے اور ان کے اعزاز میں ادبی تقاریب کا انعقاد بھی انھی کی ذمے داری ہوگا۔

کہتے ہیں کہ ادب زندگی کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ یہ سو فیصد درست ہے۔ جب زندگی کے تمام شعبے روبہ زوال ہیں، کرپشن نے ہر جگہ پائوں پھیلا لیے ہیں تو ادب کا شعبہ کیونکر اس سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ بس افسوس ہوتا ہے تو یہ دیکھ کر کہ پہلے یہ کام برملا نہیں ہوتا تھا جب کہ آج دو نمبر کا ادب تخلیق کرکے متشاعر کو درجہ اوّل کا شاعر بنایا جارہا ہے۔

ایک نمبر کا اصلی ادیب اور اصلی فنکار انانیت اور خودداری کے خول میں بند منہ لپیٹے پڑا سسک رہا ہے۔ ادب کی ناقدری پر، کتابوں کی ناقدری پر، مطالعے سے دوری پر۔ اور جعلی فنکار پیسے کے بل بوتے پر میڈیا پر چھایا ہوا ہے، اخباروں میں چھپ رہا ہے، ادبی جراید میں نمایاں شایع ہورہا ہے جب کہ جینوئن ادیب اور شاعر آخری حصّے میں کہیں کونے کھدرے میں اس لیے پڑے ہیں کہ وہ اپنی تخلیقات پر نازاں ہیں، جس کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔

قدر ہے تو کینیڈین اور امریکی ڈالرز کی، دینار و درہم کی اور اس پیسے کی جو N.G.O چلا کر کمایا جارہا ہے۔ ڈاکٹریٹ بھی جعلی طریقے سے کیا جارہا ہے اور ٹی وی پر چہرہ نمائی بھی یہی پیسہ کروارہا ہے، کیونکہ اب ادب میں سے اخلاقیات ختم ہوچکی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔