داخلی خطرات اور زمینی حقائق

ایڈیٹوریل  بدھ 9 اپريل 2014
 امن و امان کی بحالی کے لیے اہم پیش قدمی کی سخت ضرورت ہے۔   فوٹو : وسیم نذیر

امن و امان کی بحالی کے لیے اہم پیش قدمی کی سخت ضرورت ہے۔ فوٹو : وسیم نذیر

ملک میں ایک طرف تحفظ پاکستان بل کے خلاف اپوزیشن اراکین کا پارلیمنٹ اور اس سے باہر احتجاج کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری جانب دہشت گردی اور تخریب کاری کی مسلسل وارداتیں ملکی سالمیت اور قومی وجود کی سمت  بڑھتے ہوئے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے وفاقی و صوبائی حکومتوں سے مدبرانہ ، جرات مندانہ اور فیصلہ کن اقدامات کا تقاضا کر رہی ہیں ۔دہشت گردی عالمی عفریت ہے لیکن ملکی معیشت، سماجی وحدت اور جمہوری عمل کو جس قدر سنگین خطرہ انتہا پسندی اور دہشت گردی سے ہے اس پر اب دو رائے نہیں ہوسکتیں ۔بد امنی کا جن روایتی قانون اور مروجہ سیکیورٹی اقدامات کے نتیجہ میں قابو میں نہیں آ رہا ہے، اس لیے امن و امان کی بحالی کے لیے اہم پیش قدمی کی سخت ضرورت ہے۔

اس پس منظر میں منگل کو ملک بھر میں قتل و غارت سمیت ہلاکتوں ، مسلح تصادم اور شہریوں میں خوف و ہراس پھیلانے کے لیے کریکر اور بم دھماکوں کے واقعات ایک تشویش ناک سماجی منظر نامہ کی عکاسی کرتے ہیں جب کہ کوئٹہ سے راولپنڈی جانے والی جعفر ایکسپریس میں سبی ریلوے اسٹیشن پر بم دھماکے کے نتیجے میں 17 افراد جاں بحق اور درجنوں کے زخمی ہونے کا سانحہ درد انگیز ہے۔ دھماکے کی ذمے داری یونائٹیڈ بلوچ آرمی نامی تنظیم نے قبول کرلی ۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق ڈپٹی کمشنر سبی کا کہنا ہے کہ ٹرین جیسے ہی سبی ریلوے جنکشن پر پہنچی تو ایک زور دار دھماکا ہوا ، دھماکے کے بعد آگ لگ گئی جس سے ایک بوگی مکمل تباہ جب کہ اس سے منسلک 2 دیگر بوگیاں بھی آگ کی لپیٹ میں آگئیں۔

جاں بحق ہونیوالوں میں 4 بچے 3 خواتین شامل ہیں جب کہ ایک ہندو خاندان کے 8افراد بھی ہلاک ہوئے، زیادہ تر ہلاکتیں آگ سے جھلسنے کے باعث ہوئیں ، سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں نے علاقے کا محاصرہ کر کے دھماکے کی نوعیت اور وجوہات کا پتہ لگانے کے لیے کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔ تاہم عجیب بات یہ ہے کہ ڈی آئی جی کوئٹہ کے مطابق سیکیورٹی انتظامات سخت تھے لیکن اس پر کس طرح یقین کیا جائے ، اندرون سندھ ریلوے ٹریکس کے قرب وجوار میں کریکر اور بم دھماکے کیوں ہوئے اور سیکیورٹی کے مربوط اور موثر انتظامات اگر تھے تو اس کے باوجود دھماکا کس طرح ہو گیا، بہرحال حکام تسلیم کرلیں کہ سیکیورٹی اقدامات کے دعوؤں کی بد امنی میں ملوث عناصر کے نیٹ ورک کی چابکدستی اور واردات کرنے کی فعالیت کے سامنے کچھ بھی وقعت و اہمیت نہیں رہی۔

وہ مسلسل اسٹبلشمنٹ کو چیلنج کیے جا رہے ہیں، ان کا ہاتھ روکنے والا کوئی تو ہو۔ کشمور کے علاقے کرم پور میں 8 انچ قطر کی گیس پائپ لائن دھماکے سے اڑا دی گئی ۔جس سے کرمپور اور آس پاس کے علاقوں کو گیس کی فراہمی معطل ہوگئی ۔کراچی، حیدرآباد ،کوٹری، دادو، نوشہرو فیروز سمیت سندھ بھر میں ریلوے ٹریکس اور دیگر مقامات پر25 سے زائدکریکر دھماکے کیے گئے ۔ کراچی میں زمزمہ کمرشل اسٹریٹ پر واقع ملبوسات کے شو روم کے باہر زور دار دھماکا ہوا جس کی آواز دور تک سنائی دی گئی ،دھماکے کے نتیجے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ، واضح رہے کہ جئے سندھ متحدہ محاذ کی طلبہ تنظیم کو سندھ یونیورسٹی میں3اپریل کو ویلکم پارٹی کرنے کی اجازت نہ دینے اور ایک درجن سے زائدکارکنان کی گرفتاری کے خلاف جسقم کی جانب سے بدھ کو سندھ بھر میں ہڑتال کا اعلان کیا گیا تھا۔

بدھ کی صبح کراچی میں تخریب کاری کا ایک بڑا منصوبہ ناکام بنایا گیا۔ پولیس اور بم ڈسپوزل عملے نے ایک مشکوک بیگ میں موجود 13 کلو بارودی مواد برآمد کر کے اسے ناکارہ بنا دیا ۔ واردات ہوجاتی تو بڑا جانی و مالی نقصان ہوسکتا تھا جب کہ شہر قائد میں فائرنگ کے مختلف واقعات کے دوران مزید 6 افراد جاں بحق ہوگئے ۔کوئٹہ اور اندرون صوبہ فائرنگ اور متفرق واقعات میں خاتون سمیت 3 افراد جاں بحق اور3 زخمی ہوگئے جب کہ حب میں مسلح افراد بینک سے ایک کروڑ 34 لاکھ روپے کے ساتھ ساتھ سی ٹی وی کیمرے، اور دیگر ریکارڈ بھی لے گئے،نجی بینک کے سیکیورٹی گارڈز کی طرف سے کوئی مزاحمت نہیں کی گئی ، حب پولیس نے 11گاڑیاں برآمد کرکے 2 ملزمان کو گرفتار کر لیا ۔ایسی گاڑیاں بھی ہیں جن کی مالیت ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے۔

جنوبی وزیرستان میںدو مسلح گروپوں کے درمیان تازہ جھڑپوں کے نتیجے میں کم ازکم 14افراد ہلاک ہوگئے ۔ سیکیورٹی ذرایع کے مطابق خان سید سجنا اور مقتول طالبان لیڈرحکیم اللہ محسود کے حامیوںکے درمیان اتوار سے اب تک ان جھڑپوں میں34 افرادہلاک ہوچکے ہیں ۔ اب آپشن  یہی ہے کہ دستیاب وقت روایتی تحقیقات میں ضایع کرنے کے بجائے ٹھوس اور شفاف دہشت گردی مخالف میکنزم کی جلد تیاری کو یقینی بنایا جائے ۔ ڈی آئی جی کوئٹہ کے مطابق دھماکے میں 20سے 25کلو دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا ہے ،بلوچستان حکومت کے ترجمان کا کہنا تھا کہ کارروائی پیر کو ایف سی کی جانب سے تربت اور خضدار میں ہونے والی کارروائیوں کا ردِعمل ہے ۔

یہ سارے واقعات یکجا کیے جائیں تو کوئی بھی محب وطن شہری بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ ملک کو کتنی ہولناک صورتحال کا سامنا ہے اور ہم ہیں کہ باہم الجھے ہوئے ہیں اور ہر سیاست دان پوائنٹ اسکورنگ میں جتا ہوا ہے ۔ادھر وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے سبی دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے17 افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کی ہے، دھماکے کے وقت بوگی میں 80 مسافر موجود تھے، دھماکے میں ممکنہ طور پر کوئی خاتون ملوث ہوسکتی ہے ۔ وزیر ریلوے کا کہنا ہے کہ ریلوے اسٹیشنوں پر 4 دہشت گرد حملے ناکام بنائے جا چکے ہیں، ریلوے حکام سے واقعے کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے زخمیوں کو مکمل طبی سہولیات فراہم کرنے کا حکم دے دیا ہے۔

ارباب اختیار سے التجا ہے کہ اس تلخ حقیقت کا ادراک کریں کہ بلوچستان سمیت پوری ملکی معاشرت سخت ہیجان ، اضطراب اور بے یقینی میں مبتلا ہے، دشمن طاقتیں سیاسی رہنمائوں اور فکری حلقوں کو فروعی معاملات اور داخلی انتشار کے گرداب میں پھنسانے کی سازشوں میں مصروف ہیں اس لیے ملکی صورتحال بحیثیت مجموعی فوری توجہ کی مستحق ہے۔ صدر مملکت ممنون حسین نے کہا ہے کہ ناراض بلوچ رہنمائوں کو قومی دھارے میں لایا جائے گا مگر کب؟جب کہ خفیہ اداروں نے خبردار کیا ہے کہ حکومت اور طالبان کے درمیان مصالحتی عمل کے مخالف شدت پسند اسلام آباد، پشاور اور کوئٹہ میں شدت پسند سرگرمیوں کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔کیا اب بھی اہل اقتدار محاذ آرائی اور مخالفانہ زورآزمائی میں وقت ضایع کریں گے یا احساس زیاںکرتے ہوئے وقت کی للکار پر کان دھریں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔