بحث مباحثہ اور نئی منزلیں

نصرت جاوید  بدھ 9 اپريل 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

امریکا میں جمہوری نظام ہمارے ہاں سے کہیں زیادہ قدیم اورمستحکم ہے۔ اس کے باوجود کبھی وقت ملے تو باب وڈورڈز کی Obama’s Warsوالی کتاب پڑھ لیجیے۔ آپ کو خوب اندازہ ہوجائے گا کہ وہاں براہِ راست ووٹوں سے منتخب ہونے والے صدر کو اپنی ترجیحات کے مطابق پالیسیاں بنانے میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ امریکی تاریخ میں پہلی بار ایک سیاہ فام صدربننے والے اوبامہ نے اپنی ساری انتخابی مہم ’’تبدیلی‘‘ کے نعرے پر مرکوز رکھی۔ اس ’’تبدیلی‘‘ کے پیچھے فلسفہ یہ تھا کہ صدر بش نے اپنے دور میں ساری توجہ افغانستان اور عراق کو فتح کرنے پر صرف کردی۔

ان جنگوں میں اُلجھ جانے کی وجہ سے امریکی ریاست کے معاشی وسائل کا معتدبہ حصہ مسلح افواج کو جدید ترین ہتھیاروں کے ذریعے زیادہ سے زیادہ طاقتور بنانے پر خرچ ہوگیا۔ معاشی وسائل جنگوں کی طرف منتقل کردینے کی وجہ سے امریکی ریاست اپنے عوام کی تعلیم اور صحت کے لیے کوئی خاص رقوم مختص نہ کرسکی۔ وہ تمام کاروبار جن کا دفاعی امور سے کوئی تعلق نہ تھا آہستہ آہستہ مندی کا شکار ہوجانے کے بعد بالآخر دیوالیہ ہوگئے جس کے نتیجے میں کساد بازاری اور بے روزگاری ناقابلِ برداشت حد تک بڑھ گئی۔

صدر اوبامہ نے اپنے لوگوں سے وعدہ کیا کہ وہ برسرِ اقتدار آنے کے بعد امریکا کو عراق اور افغانستان کی جنگوں سے الگ کردیں گے۔ صدر منتخب ہوتے ہی انھوں نے عراق کے بارے میں اپنا وعدہ ابتدائی چند ماہ میں ایفا کردیا۔ افغانستان کے معاملے میں وہ ایسا نہ کرپائے۔ امریکی مسلح افواج نے یک جا ہوکر انھیں سمجھانے کی کوشش کی کہ اگر وہ اپنا ’’مشن‘‘ مکمل کیے بغیر افغانستان سے واپس آگئے تو یہ ملک دوبارہ القاعدہ کا مرکز بن جائے گا اور 9/11جیسے کئی واقعات ہونا شروع ہوجائیں گے۔ اوبامہ امریکی افواج کو افغانستان سے باہر نکالنے پر بضد رہے تو وہاں کی افواج نے اپنے بااعتماد صحافیوں کے ذریعے ’’اندر کی باتیں‘‘ لوگوں تک پھیلانا شروع کردیں۔ ’’اندر کی باتیں‘‘ باہر آئیں تو میڈیا میں ہا ہا کار مچ گئی۔ ٹاک شوز وغیرہ میں اوبامہ کے سیاسی مخالفین اپنے سیاہ فام صدر کو ’’بزدل‘‘ وغیرہ پکارنا شروع ہوگئے۔

کئی ایک نے تو اسے ایک Closet Muslimقرار دیتے ہوئے یہ کہانی بھی پھیلانا شروع کردی کہ اپنی ’’خفیہ مسلمانی‘‘کی وجہ سے اوبامہ درحقیقت بڑے سازشی انداز میں امریکا کو دنیا کی واحد سپرطاقت کے طور پر قائم رہنا نہیں دیکھنا چاہتے۔ میڈیا میں اس سارے شورشرابے کے باوجود کسی ایک دن بھی کسی ایک شخص کو ٹی وی کیمروں کے سامنے آکر یہ کہنے کی جرأت نہیں ہوئی کہ امریکی مسلح افواج ’’غدار اور بزدل‘‘ اوبامہ کو فارغ کردیں۔ امریکی ریاست کے مختلف فیصلہ ساز اداروں میں افغانستان کے معاملے پر کئی مہینوں تک بحث مباحثہ جاری رہا۔

بالآخر ’’مک مکا‘‘ یہ ہوا کہ اوبامہ نے اپنی فوج کے مطالبے پر افغانستان میں Surgeکے نام پر مزید فوج بھیج دی مگر ساتھ ہی یہ شرط بھی عائد کردی کہ اس Surgeکے نتائج جو بھی ہوں امریکا 2014ء میں افغانستان کی قومی سلامتی کے معاملات سے خود کو الگ کرلے گا۔ افغانستان کے بارے میں جاری اسی بحث کے دوران ایک غیر سنجیدہ رسالے کے ایک رپورٹر کے ساتھ افغانستان میں مقیم امریکی افواج کے سربراہ نے کچھ طنزیہ فقرے بھی کہہ دیے۔ اگرچہ اس نے بات Off The Recordکی تھی مگر رپورٹر نے چھاپ دی۔ اوبامہ نے یہ فقرے چھپتے ہی اس جرنیل کو واشنگٹن بلاکر فارغ کردیا۔ اس کی فراغت کے باوجود گلشن کا کاروبار اپنے معمول کے مطابق چلتا رہا۔

پاکستان کو بنے ابھی صرف 67سال ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے ہم انگریزوں کے غلام ہوا کرتے تھے اور ان کی آمد سے پہلے مختلف بادشاہوں کی رعایا۔ آزاد ملک بن جانے کے باوجود ہم بہت ساری وجوہات کی بناء پر امریکا کے دفاعی اتحادی رہے جس کی بناء پر ہمارے ہاں جمہوری نظام مستحکم نہ ہوسکا۔ ایوب خان، یحییٰ خان، جنرل ضیاء اور جنرل مشرف نے کئی برسوں تک اس ملک پر مکمل اقتدار کے ساتھ راج کیا۔ فوجی حکومتوں کے طویل ادوار کی وجہ سے ہمارے عسکری اداروں میں ایک خاص سوچ کا پیدا ہوجانا اچنبھے کی بات نہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اسی ملک میں 2007ء بھی ہوا تھا۔ اس سال جنرل مشرف نے ایک بار پھر آئین کو معطل کیا۔ اس کے نتیجے میں لیکن اسے ذاتی طور پر کیا حاصل ہوا؟ ٹھنڈے دل سے سوچیں تو کچھ بھی نہیں۔ ایمرجنسی کے نفاذ کے چند ہی روز بعد موصوف کو فوجی وردی جسے وہ اپنی کھال قرار دیا کرتے تھے اتار کر مسلح افواج کی کمان جنرل کیانی کو دینا پڑی۔ انتخابات ہوئے تو ان کی لاڈلی مسلم لیگ کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس کی مخالف جماعتوں نے بنائیں اور پھر مشرف کو بھی استعفیٰ دے کر اس ملک سے باہر چلے جانا پڑا۔

مشرف کے چلے جانے کے بعد ہر تیسرے چوتھے مہینے ہمیں میڈیا میں بیٹھے چند بہت ہی معتبر لوگ ’’میرے عزیز ہم وطنو‘‘ کے لیے تیار کرتے رہے۔ ایسا ہرگز نہ ہوا۔ منتخب حکومت نے اپنی میعاد جیسے تیسے ہی سہی مکمل کی اور اب نواز شریف تیسری مرتبہ اس ملک کے وزیر اعظم بن گئے ہیں۔ نواز شریف اپنی سرشت میں یقینا آصف علی زرداری سے بالکل مختلف ہیں۔ زرداری صاحب نے صدر بننے کے بعد اپنے اختیارات کو پورے خلوص کے ساتھ وزیر اعظم کو منتقل کیا اور جنرل کیانی کو تین سالہ تاریخی Extension دلوا کر عسکری قیادت کو یقین دلادیا کہ منتخب حکومت دفاعی اور خارجہ امور میں ہرگز مداخلت نہیں کرے گی۔ نواز شریف کی ان دونوں شعبوں میں اپنی ترجیحات ہیں اور وہ انھیں عمل پیرا ہوتا دیکھنے کے شدید خواہش مند بھی ہیں۔ ان کی خواہش ہماری مختصر سیاسی تاریخ کے حوالے سے ذرا ’’عجیب‘‘ سے دِکھتی ہے۔ مگر پاکستان بھی تو کافی بدل گیا ہے۔ 2014ء میں 1958ء والے کام نہیں ہوسکتے۔ 5جولائی 1977ء کے لیے تین مہینوں تک عوام کو ایک احتجاجی تحریک میں مصروف رکھنا ہوتا ہے۔ 12اکتوبر 1999ء سے پہلے ایک واقعہ جہانگیر کرامت کے استعفیٰ والا ہو چکا تھا۔

جنرل مشرف اپنے ہر پرخلوص دوست کے منع کرنے کے باوجود پاکستان آگئے۔ یہاں آگئے تھے تو شان کے ساتھ مقتل کو جاتے نظر آتے۔ نہیں گئے اور اپنے ہی ادارے کو مشکلات میں ڈالنا شروع ہوگئے۔ مسئلہ ان کی ذات تک ہی رہتا تو شاید اتنا الجھ نہ جاتا۔ اصل قصور احمد رضا جیسے قصوریوں کا ہے جو بجائے ان کی وکالت کرنے کے ٹیلی وژن پر آکر بڑھکیں لگاتے رہے۔ ان جیسے لوگوں کی وجہ سے جوابی وار تو ہونا تھے۔ احمد رضا جیسے لوگ بولیں تو بہت ساروں کو اپنے داغِ دل بھی یاد آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ خواجہ آصف اور سعد رفیق نے مشتعل ہوکر ایسے ہی چند داغوں کا ذکر کردیا تو ظاہر ہے ’’ادارے‘‘ میں ہل چل مچ گئی۔ اس ہل چل کو سنبھالنے کے لیے کماندار نے بڑی ہی محتاط زبان میں ایک بیان دے دیا ہے اور قصہ یہی ختم ہونا چاہیے۔ بات زیادہ بڑھی تو کسی کے ہاتھ کچھ نہ آئے گا۔ حتمی نقصان صرف اور صرف پاکستان کا ہوگا۔بحث مباحثہ چلاتے رہیں مگر اس انداز سے کہ یہ ہمیں نئی منزلوں تک لے جانے میں مدد کرے۔ واپس 1960ء کی دہائی میں نہ دھکیلے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔