سید محمد کاظم

امجد اسلام امجد  بدھ 9 اپريل 2014
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

کتنی بدنصیبی کی بات ہے کہ پڑھے لکھے لوگوں میں سے بھی دس میں سے نو کو یہ بتانا پڑتا ہے کہ سید محمد کاظم کون تھے اور ان کا کام اور علمی درجہ کیا ہے! کل صبح آٹھ بجے جب ڈاکٹر خورشید رضوی نے کاظم صاحب کی رحلت کی اطلاع دی تو گزشتہ تقریباً 40 برس ایک سلوموشن فلیش بیک کی طرح دھیان کی اسکرین پر پھیلتے چلے گئے۔ کاظم صاحب سے پہلی ملاقات ہوئی تو یقیناً احمد ندیم قاسمی صاحب کے ’’فنون‘‘ دفتر میں تھی لیکن کب؟ کچھ ٹھیک سے یاد نہیں آ سکا البتہ اتنا ضرور یاد ہے کہ اس محفل میں سید علی عباس جلال پوری‘ رشید ملک اور محمد خالد اختر بھی موجود تھے اب یہ سب نابغہ ہائے روز گار ایک ایک کرکے رخصت ہو چکے ہیں۔

کاظم صاحب ایک تیکھے نقوش والے وجہیہ‘ کم گو‘ نفیس طبع اور عمومی طور پر متبسم چہرے والے خوش وضع اور خوش لباس انسان تھے پیشے کے لحاظ سے انجینئر تھے اور واپڈا میں کسی اعلیٰ انتظامی عہدے پر فائز تھے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ ان کا اصل میدان تو جدید اور قدیم عربی زبان کا علم و ادب ہے اس وقت تک وہ مولانا مودودی کی چار کتابوں کے جدید اور رواں عربی میں تراجم کر کے اپنی زبان دانی کی دھاک بٹھا چکے تھے جس کا اقرار اس دور کے عربی کے بڑے بڑے اسکالرز بھی کرتے تھے حالانکہ کاظم صاحب نے عربی کی باقاعدہ نہ تو درسی تعلیم حاصل کی تھی اور نہ ہی اس میں کوئی ڈگری رکھتے تھے، اس اعتبار سے آپ انھیں مصوری کے حوالے سے صادقین اور اسلم کمال سے تشبیہہ دے سکتے ہیں۔ ان کی عربی دانی کے مداحین میں ڈاکٹر خورشید رضوی جیسے نام بھی شامل ہیں جو بذات خود اس میدان میں ایک Living legent کی حیثیت رکھتے ہیں۔

کاظم صاحب کا تعلق بہاولپور کی مردم خیز مٹی سے تھا وہ انجینئرنگ کی تعلیم کے ساتھ ساتھ عربی سے اپنے تعلق کو کس طرح قائم اور استوار رکھ پائے یہ اپنی جگہ پر ایک انوکھی صورت حال ہے جس کی تفصیلات کا تو مجھے علم نہیں لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ جدید عربی زبان کے بارے میں ان کا مطالعہ اور دسترس بہت وسیع اور غیر معمولی تھے۔ میری نظر سے ان کی جو تحریریں شروع شروع میں گزریں اتفاق سے ان کا تعلق ان کی عربی دانی سے نہیں تھا یہ ان کا سفر نامہ ’’مغربی جرمنی میں ایک برس‘‘ تھا جو کتابی شکل میں آنے سے قبل ’’فنون‘‘میں قسط وار چھپا کرتا تھا وہ اپنے محکمے کی طرف سے کسی تربیتی پروگرام میں گئے تھے۔

یہ تحریر ان کی رواں نثر اور جزئیات کے مشاہدے اور بیانیے کا ایک خوب صورت نمونہ تھی لیکن جلد ہی ان کے اصل جوہر سے براہ راست آشنائی کا راستہ نکل آیا جو ان سے زندگی بھر کے ذاتی تعلق اور میری فلسطینی شاعری کے منظوم تراجم پر مبنی کتاب’’عکس‘‘ کی بنیاد بنا، ہوا یوں کہ فنون کے دفتر میں ایک دن باتوں باتوں میں انھوں نے بیروت سے شایع ہونے والے جریدے‘ الادب‘ میں شایع شدہ عبدالوہاب ابسیاتی کی نظم ’’بکائتہ الی شمس حزیران‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے (جس کا ترجمہ میں نے آفتاب جون کی نذر۔ ایک نوحہ کے نام سے کیا تھا) شاعر‘ رسالے کے مدیر ڈاکٹر سہیل ادریس اور نظم کے موضوع اور بیانیہ کی شدت کا ذکر کچھ اس انداز سے کیا کہ سبھی حاضرین بے حد متاثر ہوئے۔

میں نے کہا کہ اس طرح کی نظموں کا تو اردو میں ترجمہ ہونا چاہیے کہ یہ شاعری کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کے جدید مسائل اور صورت حال کی بھی بہترین ترجمان ہیں اگلے دن کاظم صاحب نے اس نظم کا سلیس اور لفظی ترجمہ چپکے سے مجھے تھماتے ہوئے کہا کہ اسے پڑھیے اور اگر ممکن ہو تو اس کا نظم ہی میں ترجمہ کیجیے‘ مجھے یقین ہے کہ آپ ایسا کر سکتے ہیں‘ میں نے کسی دوسری زبان کی شاعری کے ترجمے اور بالخصوص منظوم ترجمے کی مشکلات کا ذکر کیا تو کہنے لگے کہ الفاظ کے اصل اور استعاراتی معانی کے ضمن میں میں آپ کی مدد کے لیے حاضر ہوں‘ یوں ان تراجم کا سلسلہ شروع ہوا۔ انھوں نے میری اس بات کی تائید کی کہ الفاظ کے لفظی ترجمے سے ’’روح شاعری‘‘ کا ترجمہ بلکہ ترجمانی زیادہ مناسب ہے بشرطیکہ اس میں ضرورت سے زیادہ ’’آزادی‘‘ کا استعمال نہ کیا جائے۔

انھوں نے کمال مہربانی اور شفقت سے کام لیتے ہوئے اس کتاب کا ایک مفصل دیباچہ بھی لکھا جس میں جو یہ عربی شاعری کے اجمالی تذکرے کے ساتھ ساتھ فلسطین کی صورت حال‘ اس کے تاریخی پس منظر اور اس کے بارے میں کی جانے والی مزاحمتی شاعری کی بھی بھرپور وضاحت کی اور آخر میں یہ ذمے داری بھی قبول کی کہ مترجم  یعنی میں نے ترجمہ کرتے وقت جہاں جہاں اصل متن کے الفاظ میں کمی بیشی کی ہے اس کی تمام تر ذمے داری ان کے سر ہے۔ ان کے اس احسان کا جذبہ تشکر عمر بھر میرے ساتھ رہے گا کہ اب ایسے گنی‘ صاحب علم اور صاحب دل لوگ ڈھونڈے سے بھی کم کم ہی ملتے ہیں۔ ان کی ریٹائرمنٹ اور قاسمی صاحب کی وفات کے بعد ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ بری طرح متاثر ہوا لیکن وہ جب اور جہاں بھی ملتے ان کی محبت کی گرمی اور شخصیت کا حسن چاروں طرف پھیل سے جاتے جیسا کہ میں نے عرض کیا وہ بہت کم گو تھے اور ان میں ایک خاص انداز کا شرمیلا پن بھی تھا۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے نوے کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں جب میں قاسمی صاحب پر ایک ڈاکیو منٹری بنا رہا تھا تو انھیں کیمرے کے سامنے لانے اور کچھ کہنے کے لیے مجھے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے تھے اس میدان میں شاید محمد خالد اختر، مشفق خواجہ اور شفیق الرحمن ہی ایسے نامور مہربان اور ادیب ہیں جن کا نام لیا جا سکتا ہے۔ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے عربی شاعری کے حوالے سے جم کر اور بہت وقیع کام کیا ان کی زیادہ تر کتابیں سنگ میل پبلی کیشنز نے شایع کی ہیں جن میں ’’عربی ادب کی تاریخ‘‘ عربی ادب میں مطالعے‘ ’’جنید بغداد‘‘ اور ’’اخوان العفا‘‘ خاص اہمیت کی حامل ہیں۔ ڈاکٹر خورشید رضوی جو کہ فی زمانہ عربی زبان و ادب پر ایک سند کا درجہ رکھتے ہیں بتا رہے تھے کہ ان کتابوں میں انھوں نے سچ مچ سمندر کو کوزے میں بند کر کے دکھا دیا ہے۔

ان کی نماز جنازہ میں بہت سے اہل علم و ادب احباب کے ساتھ ساتھ ان کے دونوں بیٹوں سے بھی ملاقات ہوئی جو ہو بہو کاظم صاحب کی تصویر ہیں دونوں مدت سے امریکا میں مقیم ہیں ان کو دیکھ کر ایک بار پھر اس سوال نے در دل پر دستک دی کہ اس ’’گلوبل ولیج‘‘ میں رہنے کے لیے ہم تیسری دنیا کے لوگوں کو ہر حوالے سے کتنی بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے کہ بہتر معاشی مستقبل کے تعاقب میں ہمارے بچے اپنے گھروں سے اتنی دور نکل جاتے ہیں کہ پھر انھیں دیکھنے اور واپس بلانے کے لیے خاص اہتمام کرنا پڑتا ہے۔سید محمد کاظم کی وفات سے ممکن ہے اہل جاہ و حشم کو کوئی فرق نہ پڑا ہو یہ بھی ممکن ہے کہ عوام الناس کے لیے بھی یہ خبر کوئی خبر نہ ہو مگر وہ تمام لوگ جو ادب اور ادیب کی حرمت سے آشنا ہیں ان کے لیے یقیناً کاظم صاحب کی رحلت اسی قول سعید کی باز گشت ہے کہ ’’ایک عالم کی موت ایک پورے عالم کی موت ہوتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔