شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں

رئیس فاطمہ  بدھ 9 اپريل 2014

اب تو واقعی یقین ہوگیا ہے کہ ہم سب احمقوں کی جنت میں رہنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔ کھلی آنکھوں سے سب دیکھ رہے ہیں کہ ہم ہر طرف سے گھر چکے ہیں۔ تمام دنیا نے ہمیں اپنے تیروں کے نشانے پر لیا ہوا ہے۔ اپنوں نے زیادہ۔ جی ہاں! یہ اپنے جنھیں ’’برادر اسلامی ممالک‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان کے نزدیک ہماری اوقات کیا ہے؟ آپ ایران جانا چاہیں تو ایران کی ایمبیسی کیسے کیسے سوالات کرکے آپ کو زچ کرے گی۔ زیارتوں پہ گروپ کے ساتھ جا رہے ہوں تو سب خیریت ہے۔ آپ سے کوئی خطرہ نہیں۔ لیکن اگر آپ بحیثیت سیاح وہاں جانا چاہتے ہیں، وہاں کے اہم شہر تاریخی اور مذہبی مقامات دیکھنا اور لکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو مشکوک سمجھ کر منع کردیا جائے گا۔ اس صورت حال سے ہم دو دفعہ گزر چکے ہیں۔ باوجود شوق و جستجو کے نہ جاسکے۔

ہم ان سے یہ بھی نہیں کہہ سکتے تھے شاہ رخ خان کی طرح کہ “I am not a terrorist” بنگلہ دیش تو کبھی ہمارا ہی بازو تھا جو کسی طالع آزما نے الگ کرکے بقیہ پاکستان کو ہمیشہ کے لیے اپنی آنے والی نسلوں کی چراگاہ بنادیا۔ اور یہ مقولہ بھی غلط ثابت کردیا کہ ایک جنگل میں دو شیر نہیں رہ سکتے اور ایک میان میں دو تلواریں نہیں رکھی جاسکتیں۔ تاریخ غلط ثابت ہوچکی ہے۔ اب شیروں اور تلواروں نے ساتھ ساتھ مل کر رہنا سیکھ لیا ہے تاکہ اس جنگل پہ ہمیشہ ان کی اور ان کی نسلوں کی حکمرانی رہے۔ لیکن بنگلہ دیش بہت جلد اس حقیقت کو فراموش کر بیٹھا کہ اصل پاکستان تو وہی تھا۔ قیام پاکستان کے لیے اکثریت میں ووٹ پہلے بنگالیوں کے تھے اور دوسرے نمبر پہ ہندوستان کے مسلمانوں کے۔ ٹھیک ہے بنگالیوں کا استحصال ہوا ۔ کسی کو اس سے انکار نہیں لیکن یہ استحصال اور ناانصافی کسی عام آدمی نے تو نہیں کی۔ عام آدمی تو خود استحصال کا شکار ہے خواہ وہ کہیں کا بھی ہو۔

لیکن بنگلہ دیشی حکومت نے بدلہ عام پاکستانی سے نکالا۔ نہ کوئی عام پاکستانی اگر سیر و تفریح یا تاریخ کھنگالنے کے لیے، ڈھاکہ، کومیلا، راجشاہی، چٹاگانگ، چاٹگام یا کہیں اور جانا چاہے۔ چائے کے باغات دیکھنا چاہے۔ قرۃ العین حیدر کے ناول ’’آخر شب کے ہم سفر‘‘ کو محسوس کرنا چاہے۔ یا ماضی کے اس مزار کو دیکھنا چاہے جسے ریس کورس گراؤنڈ کہتے ہیں جہاں جنرل نیازی نے ہتھیار ڈال کر پوری قوم کا سر فخر سے بلند کردیا تھا۔ تو بنگلہ دیش کا سفارت خانہ اتنی پابندیاں اور پیچیدگیاں لگاتا ہے کہ آپ دونوں ہاتھوں سے کان پکڑ سات پشتوں کو منع کر جائیں کہ سب جگہ جانا مگر بنگلہ دیش جانے کا بھی مت سوچنا۔ کیونکہ دیگر بہت سی تکلیف دہ وجوہات کے ساتھ ساتھ ایک سب سے بڑی اذیت یہ ہے کہ آپ بنگلہ دیشی حکومت کے منظور شدہ ہوٹلوں ہی میں قیام کرسکتے ہیں اور اس کی پیمنٹ بھی آپ کو یہیں کرنی پڑے گی۔ ویزا کا عذاب بھی سخت تھا۔ لہٰذا یہ ارادہ بھی ترک کرنا پڑا۔

اب لے لیجیے سعودی عرب، کویت، دبئی، شارجہ، لیبیا اور دیگر خلیجی ریاستوں کو۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ رویہ ان ممالک کا یہ کہ وہ آپ کا گرین پاسپورٹ دیکھ کر قطار میں سب سے پیچھے کھڑا کر دیتے ہیں۔ زمین آپ نہیں لے سکتے۔ مکان یا ملازمت بغیر کفیل کے ملنا ناممکن۔ جیلیں پاکستانیوں سے بھری ہوئیں۔ کسی بھی ملک میں پاکستانی سفارت خانہ اپنے ہم وطنوں کی مدد کرنے کے بجائے اپنیمصروفیات میں گم۔ حج اور عمرہ پر جانے والوں سے سعودی حکام ویزا کے لیے کتنی رقم لیتے ہیں؟ یہ سب جانتے ہیں۔ فضائی سفر کے اخراجات الگ، ہوٹلوں کے الگ۔ حرم کی توسیع کے ساتھ ساتھ اطراف میں صرف مہنگے ہوٹلوں کو کاروبار کی اجازت دے کر اس علاقے کو مکمل کمرشل کردیا گیا ہے۔ جہاں صرف صاحب ثروت ہی ٹھہر سکتے ہیں۔ خوش قسمتی سے اگر مکہ معظمہ ان کے پاس ہے۔ تیل کی دولت سے وہ مالا مال ہیں۔ تو کیا سعودی حکومت حج اور عمرے کے ویزے کی فیس کم نہیں کرسکتی؟

لیکن کبھی سوچا آپ نے کہ ہم بحیثیت مجموعی اس ذلت کے سزا وار کن لوگوں کی وجہ سے ٹھہرائے گئے ہیں؟ اس کا سیدھا سادہ سا جواب ہے۔ ہمارے نام نہاد حکمرانوں کے کالے کرتوت۔ اور ان کے شہ بالوں کا بڑھ چڑھ کر ڈینگیں مارنا۔ عقل سے پیدل، آنکھوں کے اندھے یہ مشیر ان کو ہر لمحے سبز خواب دکھاتے رہتے ہیں۔ کوئی پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنائے گا۔ کوئی روٹی کپڑا اور مکان دے گا۔ اور تو اور ان احمقوں کی دیکھا دیکھی اب فلمی اداکارائیں بھی مردہ پاکستانی فلم انڈسٹری کو 2014 میں دوبارہ زندہ دیکھ رہی ہیں۔ دراصل یہی کوتاہ بین سیاہ کو سفید کرنے میں صرف زبانی جمع خرچ کرتے ہیں۔ اس میں بھلا کیا جاتا ہے۔ سیاست اب تک ایسی ’’رضیہ‘‘  ہے جو نچلے درجے کے عیار مکار اور امیر تماش بینوں کے درمیان پھنسی بیٹھی ہے۔ اسے ان بدنام لوگوں سے نکالنے والا کوئی نہیں۔ کیونکہ قوم ایک مخلص لیڈر سے محروم ہے۔ بڑی بڑی سیاسی جماعتیں بنتی ہیں۔

عوام کے دکھ درد اور انھیں استحصالی طبقے سے آزاد کرانے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ پارٹیاں بنانے والے مخلص ہوتے ہیں۔ لیکن بہت جلد یہ جماعتیں آمریت کا تاج اپنے سر پہ سجا لیتی ہیں۔ کوئی اگر پیٹھ موڑ کر کھڑا ہوگیا تو لائق تعزیر، کوئی نادانستہ طور پر لیڈر کی طرف ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کے بیٹھ گیا تو واجب القتل سمجھا گیا۔ طاقت کا محور اور مرکز صرف ایک انا پرست انسان، جسے اس کے اپنے لوگوں نے عام انسان سے دیوتا بنادیا اور خود پجاری بن گئے۔ بس یہیں سے زوال شروع ہوگیا۔ اپنے ہی لیڈر سے مکالمہ ختم ہوگیا، اعتراض کرنا گویا گناہ کبیرہ سمجھا گیا۔ اور پھر عظمت کے اس درخت میں دیمک لگنے لگی۔ حکمرانوں نے تب بھی یہ نہ سوچا کہ جو کاندھوں پہ اٹھا کے اقتدار تک لائے ہیں وہی دوبارہ کاندھوں پہ اٹھا کر تحت الثریٰ میں بھی پہنچا سکتے ہیں۔

مقبول پارٹیاں جب زوال کا شکار ہوتی ہیں تو یہ تقدیر کی نہیں خود ان کے ذاتی رویوں اور انا کے غبارے میں ضرورت سے زیادہ ہوا بھر جانا ہوتا ہے۔ یہ اضافی ہوا وہ مشیر، وزیر اور چہیتے بھرتے ہیں جنھیں باقاعدہ ان کاموں کا معاوضہ دیا جاتا ہے اور وہ لاؤڈ اسپیکر بن کر صرف اپنے ہی لیڈر اور اپنی ہی پارٹی کو وطن عزیز کا نجات دہندہ ثابت کرنے پہ تلے ہوتے ہیں۔ قوم سے کوئی مخلص نہیں، اپنے لوگوں کی کسی کو پرواہ نہیں۔ ہم سب ایک ایسی بند گلی میں پہنچ چکے ہیں جہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔ کیونکہ اس قوم کو کوئی ایسا لیڈر نہیں نصیب ہوسکا جو انھیں تعصب کی خرافات سے نکال سکے۔ پتہ نہیں ان ساون کے اندھوں کو ہرا ہرا کیوں سوجھ رہا ہے کہ وہ ہر طرف ہریالی، خوشحالی دیکھ رہے ہیں۔ جب کہ حقیقت وہ ہے جو ہر طرف بکھری پڑی ہے۔

کہیں تھر میں قحط اور بھوک کی صورت میں، کہیں قتل و غارت گری، لوٹ مار، تشدد، اور ڈکیتی کے ہولناک مناظر میں، کہیں قصبوں کے لیے میٹرو بس کے منصوبے اور کہیں میٹرو سٹی کے لیے چنگچی رکشے، اور مکمل تباہی کے سامان کے ساتھ ساتھ کھنڈرات کی دیکھ بھال کے بہانے اربوں روپے کی کرپشن۔ کہیں مردہ خوش قسمت لیڈروں کی تصاویر اور پیغامات کے ذریعے پارٹی کے تن مردہ میں جان ڈالنے کے لیے کروڑوں روپے کے اشتہارات اور سپلیمنٹ۔ اور زندہ لوگوں کے لیے صرف بھوک، قحط، بیماریاں، نفرتیں اور تعصب۔ پھر بھی عقل کے اندھوں میں کانے راجاؤں کے مشیروں کو ’’سب اچھا‘‘ کہنے کی جو فیس مل رہی ہے۔

اس میں سوائے فاتحہ پڑھنے اور مرثیے لکھنے کے سوا کچھ نہیں بچا۔ شہر آشوب لکھنے کا زمانہ بھی گزر گیا۔ اب تو سروں کی فصلیں کاٹنے کا موسم ہے۔ یہ فصلیں  ضیا الحق کی لگائی ہوئی ہیں۔ جس میں رواداری، مروت، اخلاص، بین المذاہب مکالمہ اور اخوت سب ختم ہوگیا ہے۔ مسلکی تعصب ہر جگہ پروان چڑھ رہا ہے۔ خواہ ادبی انجمنیں ہوں یا ادبی کانفرنسیں۔ ہر جگہ سے انسان غائب ہوگیا ہے۔ آدمی باقی رہ گیا ہے۔ انسان کو پلاننگ کے تحت غائب کرادیا گیا ہے۔ مذہب، صوبوں اور زبانوں کی بنیاد پر ایوارڈ تقسیم کیے جا رہے ہیں۔ اس قوم کو گرداب سے نکالنے کے لیے کوئی طوفان نوح بھی نہیں آنے والا۔ اندھیرے اجالوں میں بدلنے کا وقت ختم ہوگیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔