سرکاری ملازمین کے اثاثہ جات اور آئی ایم ایف

ڈاکٹر توصیف احمد خان  جمعرات 9 فروری 2023
tauceeph@gmail.com

[email protected]

سرکاری ملازمین کے اثاثہ جات کے بارے میں ڈیکلریشن اب فیڈرل بیورو آف ریونیو میں جمع ہونگے۔ ان اثاثہ جات کے ڈیکلریشن کی تفصیلات متعلقہ اداروں کو فراہم کی جاسکتی ہیں۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(I.M.F) نے قرضوں کی فراہمی کے لیے جن نئے مطالبات کی فہرست حکومت پاکستان کو دی تھی ، اس فہرست میں ایک مطالبہ گریڈ 17 اور اوپر کے سول و فوجی افسروں کے اثاثوں کو افشاء کرنے کا بھی تھا۔

سی بی آر کے جاری کردہ نوٹی فکیشن میں بتایا گیا ہے کہ نئے قانون کے تحت تمام سرکاری ملازمین پر اینٹی منی لانڈرنگ اور انکم ٹیکس کے قوانین کا اطلاق ہوگا اور کوئی افسر بے نامی جائیداد نہیں رکھ سکے گا۔

اس فیصلہ کے تحت گریڈ 17اور اوپر کے افسران سال میں دو دفعہ اپنے اور اپنے اہل خانہ کے ملک میں اور بیرون ملک اثاثہ جات کے ڈیکلریشن ایف بی آر کو دینے کے پابند ہوں گے۔

اس نئے قانون کے تحت تمام بینکوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ افسروں کے اکاؤنٹس کی تفصیلات سال میں دو دفعہ ایف بی آر کو فراہم کریں گے۔ آئی ایم ایف کے وفد نے یوں ماضی سے مختلف شرائط پیش کر کے ملک کے معاشی نظام پر نئے سوالات اٹھا دیے ہیں۔ ادھر بدعنوانی کے معیار کا تعین کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں بدعنوانی کا گراف بہت زیادہ کم نہیں ہوا۔

اس رپورٹ کے چارٹس اور گراف کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ دنیا کے جدید 180ممالک کی فہرست میں پاکستان 140ویں نمبر پر تعینات ہوا ہے ، یوں تحریک انصاف اور موجودہ مخلوط حکومت میں بدعنوانی میں کوئی کمی نہ ہوئی۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی گزشتہ سال کی رپورٹ میں پاکستان کی پوزیشن میں معمولی کمی ہوئی ہے۔

ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی یہ رپورٹ سابقہ تحریک انصاف کی حکومت اور پی ڈی ایم کی موجودہ حکومت کے بارے میں بین الاقوامی مالیاتی ادارہ کا سول اور عسکری افسروں اور ان کے اہلِ خانہ کے اثاثہ جات عام کرنے کا مطالبہ اپنی گہرائی کے تناظر میں انتہائی اہم ہے۔ اثاثوں کو ظاہرکرنے کے خلاف بعض حلقوں کی جانب سے شدید مزاحمت متوقع ہے۔

یہ حلقے آئی ایم ایف کے اس مطالبے کو اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دے سکتے ہیں اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جن افسروں اور ان کے اہلِ خانہ کے اثاثے ان کی آمدنی سے زیادہ ہونگے ، ان کے خلاف بین الاقوامی طور پر قانونی کارروائی جیسے مطالبات بھی ہوسکتے ہیں، یوں ملک کی بین الاقوامی منظر نامہ پر جگ ہنسائی ہوگی۔

یہ حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ ہر افسر ہر سال اپنے اور اپنے اہل خانہ کے اثاثوں کے ڈیکلریشن جمع کرانے کے پابند ہیں اور افسران اپنی ملازمت کے آغاز کے پہلے سال سے ہی اس طرح کے ڈیکلریشن ظاہر کرتے ہیں، یوں حکومت کے پاس کسی بھی افسر کے ہر سال کے ڈیکلریشن کا ریکارڈ موجود ہوتا ہے اور یہ ایک ذاتی دستاویز ہوتی ہے، یوں اس کا افشاء ہونا کسی افسر کے خلوت کے حق (Right of privacy) کی کھلی خلاف ورزی ہوگی۔

پاکستان کے آئین میں ہر شخص کو خلوت کا حق دیا گیا ہے مگر بدعنوانی کو ترقی کے لیے خطرناک جاننے والے ماہرین کی رائے ہے کہ سرکاری افسروں اور ان کے اہلِ خانہ کے اثاثوں کو ظاہر کرنے کے خاصے فوائد ہوں گے۔

ان ماہرین کا بیانیہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے ایک منظم طریقے سے سیاست دانوں کو بدعنوان قرار دینے کا بیانیہ دہرایا جارہا ہے۔

ہمیشہ سیاست دانوں کو بدعنوان قرار دینے کے بیانیہ کو تقویت دی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام تاثر یہ ہے کہ وہ تمام تر سیاست دان بدعنوان ہیں ، یوں عام آدمی سیاسی عمل سے دور ہوا ہے۔ سیاسی عمل سے عوام کی بیزاری کا سارا فائدہ طالع آزما قوتوں نے اٹھایا ہے۔

تاریخ شاہد ہے کہ سرکاری افسروں میں بدعنوانی کی شرح بہت زیادہ ہے اور جنرل ایوب خان کے دور میں بھی جنرل ایوب خان سمیت کئی افسروں کی دولت کا ذکر قومی اور بین الاقوامی ذرایع ابلاغ پر ہونے لگا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 300 افسروں کو بدعنوانی کے الزامات کے تحت ملازمتوں سے برطرف کیا تھا۔

ان میں سے کچھ کے بارے میں بعد میں ثابت ہوا کہ انھیں بدعنوان نہ ہونے کی سزا دی گئی تھی اور یہ افسران سیاسی انتقام کا نشانہ بنے تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے بھٹو دور کے سیاست دانوں کے ساتھ سول افسروں کے احتساب پر خصوصی توجہ دی۔

ان سیاست دانوں اور سول افسروں کے خلاف خصوصی ٹریبونل میں مقدمات چلائے گئے مگر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں کچھ افسروں کو کھلی چھوٹ دی گئی، جب جنرل ضیاء الحق افغانستان حکومت کے خاتمہ کے پروجیکٹ میں شامل ہوئے تو ملک میں ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر عام ہوا۔ افغان پروجیکٹ میں شامل افسروں نے کروڑوں ڈالر سے یورپ ، امریکا اورکینیڈا میں جائیدادیں بنائیں۔

ان میں سے کچھ کے نام بین الاقوامی ذرایع ابلاغ پر گردش کرتے رہے۔ امریکا میں مقیم ایک صحافی کا کہنا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں افسروں نے اربوں ڈالر کی جائیدادیں بیرون ملک بنائیں۔ اسی طرح سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت کے بھی بعض افسروں کی غیر ممالک میں موجودہ جائیدادوں کا ذکر ہوتا ہے ، مگر ان کو کبھی قانون کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ اس ملک میں بدعنوانی کا کلچر مستحکم ہوا اپنی آمدنی سے زیادہ اثاثہ رکھنے والے افسروں کا کوئی احتساب کرنے کو تیار نہیں ہے۔

متحدہ عرب امارات، یورپ، امریکا اور کینیڈا میں مقیم پاکستانی صحافیوں کا کہنا ہے کہ ان ممالک میں صرف پاکستانی سیاست دانوں کی جائیدادوں نہیں ہیں بلکہ حاضر اور ریٹائرڈ افسروں کی بھی اربوں روپوں کی جائیدادیں موجود ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایسی وڈیوز وائرل ہوتی ہیں جن میں سابق افسروں کی ملکیت میں جزائر کا بھی ذکر ہوتا رہا ہے۔

ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی گزشتہ سال کی رپورٹ کے سرسری مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اب بھی دنیا کے پہلے بدعنوان 40 ممالک میں شامل ہے۔ سابقہ حکومت نے ادارہ نیب کے ذریعہ سیاست دانوں اور ناپسندیدہ افسروں کا احتساب کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔

عمران خان مسلسل سابقہ حکومتوں کو بدعنوان قرار دے رہے ہیں جب کہ خود ان کی حکومت میں بدعنوانی نہ رک سکی۔ اس صورتحال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بدعنوانی کے خاتمے کے لیے تمام ایجنسیاں بدعنوانی کے خاتمے کے بجائے سیاسی اہداف پورے کررہی تھیں۔

موجودہ حکومت نے نیب کے قوانین کو نرم کیا ہے اور بہت سے بااثر افراد نے اس سہولت سے فائدہ اٹھایا ہے ، مگر بدعنوانی کی شرح کو کم کرنے کے لیے کچھ نہیں ہورہا۔ آئی ایم ایف کے اس مطالبہ اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈز کے بیانیہ کو ترقیات کے جدید ماڈل کے تناظر میں زیرِ غور لانا چاہیے تاکہ ملک موجودہ بحران سے کسی طرح نکل سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔