- پاکستان کیخلاف افغان اسکواڈ کا اعلان، راشد خان کپتان مقرر
- لاہور میں بس ہوسٹس کو ہراساں کرنے والا ملزم گرفتار
- کراچی میں غربت سے تنگ آکر لڑکی نے خودکشی کرلی
- میری موت کو حادثہ قرار دینے کا منصوبہ تھا، عمران خان
- وسیم اکرم نے پاکستان کو ’’ون ڈے ورلڈکپ‘‘ کیلئے فیورٹ ٹیم قرار دیدیا
- منڈی بہاالدین میں تاریخ کی شدید ژالہ باری نے شہریوں کو حیران کر دیا
- عمران خان پر درج دہشت گردی کیسز کی تحقیقات کیلیے جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ
- ٹرمپ کے اہل خانہ نے بیرون ملک سے ملنے والے 100 سے زائد قیمتی تحائف ہڑپ لیے
- رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کیلیے رویت کمیٹی کا اجلاس کل ہوگا
- ٹی ٹی پی میں بڑھتے جانی نقصان کی وجہ سے پھوٹ پڑ گئی
- افغانستان میں نئے تعلیمی سال کا آغاز ہوگیا لیکن کلاسیں ویران ہیں
- عمران خان کے بھانجے حسان نیازی کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور
- عمران خان لاہور ہائیکورٹ میں پیش، نیب و دہشتگردی کیسز میں حفاظتی ضمانت منظور
- تحریک انصاف کے رہنماؤں کی غیر ملکی سفیروں سے ملاقات، الیکشن پر تبادلہ خیال
- لیجنڈز لیگ؛ آفریدی نے ٹرافی ’’افغان بھائیوں‘‘ کے نام کردی
- زرعی فارمنگ کیلئے پاک فوج سے بہتر کوئی ادارہ نہیں، اوکاڑہ میں کسان ریلی
- بزنس مین نے میسی کے مداح کو فٹبال تھیم والا گھر تحفے میں دیدیا
- بھارتی پنجاب میں امرت پال سنگھ کی گرفتاری کیلئے 4 روز سے انٹرنیٹ بند
- کراچی؛ سنی علما کونسل کے مرکزی رہنما مولانا عبدالقیوم فائرنگ سے قتل
- زمان پارک آپریشن؛ مریم نواز، رانا ثنا و دیگر کیخلاف اندراج مقدمہ کی درخواست
چار گرفتاریوں پر ہی اتنی پریشانی
سابق وزیر داخلہ شیخ رشید کی گرفتاری کے کیس میں فاضل جج نے پی ٹی آئی کے وکیل کو کہا کہ آپ کی حکومت نے ایسے قوانین نہ بنائے ہوتے تو آج آپ لوگوں کو بھی موجودہ صورتحال کا سامنا نہ ہوتا کہ تقریر یا بیان اسلام آباد میں دیا گیا اور مقدمات کراچی و حب بلوچستان میں درج ہوگئے۔ کراچی پولیس کو جو تفتیش کرنی ہے وہ یہیں جیل میں کر لے، کراچی لے جانے کی اجازت اور راہداری ریمانڈ نہیں دیا جاسکتا۔
پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما پرویز خٹک نے بھی کہا ہے کہ موجودہ حکمران اتنا ظلم کریں جتنا کل وہ بھی برداشت کرسکیں۔ سابق وزیر داخلہ شیخ رشید بھی عدالت سے استدعا کرچکے ہیں کہ مجھے کراچی پولیس کو دینے سے بہتر ہے کہ سزائے موت سنا دیں۔
ایسے ہی بیانات پی ٹی آئی کے دور میں اپوزیشن رہنما دیا کرتے تھے ، وہ اپنی گرفتاریوں پر رونے دھونے کے بجائے عمران خان کو بھی پرویز خٹک جیسے مشورے دیا کرتے تھے کہ حکومت اپوزیشن پر جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات نہ بنائے۔
اس وقت کے اپوزیشن اور آج کی اتحادی حکومت کے رہنما پی ٹی آئی کی حکومت پر غلط گرفتاریوں اور جھوٹے مقدمات پر حکومت سے احتجاج کرنے کے بجائے عدالتوں سے رجوع کرتے تھے اور عدالتیں انھیں نوے نوے روز کے ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیتی تھیں پھر وہ مہینوں بعد جیل بھیجے جاتے اور انھیں اپنی عدالتوں سے ضمانتوں کے لیے رجوع کرنا پڑتا تھا۔
موجودہ حکومت کے دس ماہ میں پی ٹی آئی کے صرف تین اور ایک اتحادی کی گرفتاری عمل میں آئی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف، حمزہ شہباز طویل عرصہ جیل میں رہے مگر انھوں نے کبھی نہیں کہا کہ ہم اقتدار میں آ کر کسی کو مونچھوں سے پکڑ کر جیل میں ڈالیں گے یا پولیس افسروں کو پھانسی دیں گے۔
ایسے دعوے ماضی میں عمران خان نے اقتدار میں آنے سے قبل کیے تھے اور اقتدار میں آ کر انھوں نے ایسا کر کے بھی دکھایا۔ عمران خان کی حکومت میں سابق صدر آصف زرداری ، تین بار کے وزیر اعظم نواز شریف، دو بار کے پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف سمیت (ن) لیگ اور حکومتوں کے وزرا خواجہ آصف، احسن اقبال، خواجہ سعید رفیق، مفتاح اسمٰعیل، خورشید شاہ کے علاوہ اچھی شہرت کے حامل سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی گرفتار اور طویل عرصہ جیلوں میں رہے۔
مسلم لیگ پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ کو ہیروئن رکھنے کے ایسے جھوٹے مقدمے میں گرفتار کرایا گیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے امریکا میں کہا تھا کہ واپس جا کر سابق وزیر اعظم نواز شریف کو جیل میں حاصل سہولتیں ختم کرا دوں گا۔
موجودہ حکومت نے خود سابق وزرا شیخ رشید ، فواد چوہدری ، اعظم سواتی اور پی ٹی آئی رہنما شہباز گل سمیت کسی خاتون رہنما پر مقدمہ نہیں بنایا جب کہ پی ٹی آئی حکومت میں نواز شریف کی بیٹی اور آصف زرداری کی بہن تک کو گرفتار کرکے جیلوں میں رکھا گیا تھا۔
موجودہ حکومت میں گرفتار ہونے والے رہنماؤں شہباز گل، اعظم سواتی، فواد چوہدری اور شیخ رشید اپنی اشتعال انگیز تقاریر اور دھمکیوں کے باعث درج کرائے گئے مقدمات کے باعث گرفتار ہوئے۔ عدالتوں نے کسی بھی رہنما کا پولیس کو ہفتوں کا بھی ریمانڈ نہیں دیا اور وہ دو چار دنوں کی پولیس حراست میں گھبرا گئے ۔
(ن) لیگی رہنما طلال چوہدری کا یہ شکوہ بھی بجا ہے کہ عدالتوں سے پی ٹی آئی رہنماؤں اور عمران خان کو جو فوری ریلیف دنوں میں مل رہا ہے وہ ہمیں مہینوں میں نہیں ملتا تھا۔
فواد چوہدری اپنے بچوں سے دو چار دن کی جدائی پر احتجاج کرنے لگے مگر حمزہ شہباز کو اس کی 8 ماہ کی بیٹی سے دور کر کے دو سال جیل میں رکھا گیا تھا۔ نواز شریف کو لندن میں بستر مرگ پر پڑی اپنی اہلیہ سے بات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی جو انسانیت کے بھی خلاف تھی مگر عمران خان کو ترس نہیں آیا تھا۔
مریم نواز اپنے والد سے ملنے آئیں تو انھیں نواز شریف کے سامنے گرفتار کرلیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ سے انھیں پاناما میں نام نہ ہونے پر اقامہ پر نااہلیت ملی اور ان کی حکومت ختم ہوئی تھی۔ کھلے عام اعلیٰ عدالتوں پر الزام تراشی کرنے والے اعظم سواتی اور فواد چوہدری کو کسی عدالت نے طلب نہیں کیا۔
دونوں کو مشروط ضمانت ملی مگر دونوں کی زبان بند کسی نے نہیں ہونے دی۔ شیخ رشید کے نا مناسب الفاظ اور بلاول بھٹو پر سخت ناروا تنقید پر جیالے ضرور مشتعل ہوئے مگر انھیں کسی عدالت نے وارننگ نہیں دی کیونکہ ایسے نامناسب الفاظوں پر سزا کا کوئی قانون موجود نہیں کہ شیخ رشید کو کچھ ہوتا۔
عمران خان موجودہ حکومت کو متعصب قرار دے رہے ہیں حالانکہ انھیں حکومت کو بزدل قرار دینا چاہیے جو پی ٹی آئی رہنماؤں پر کوئی سخت قانون بھی عائد نہیں کرسکی۔
عمران خان کو گھر بیٹے عدالتوں سے ریلیف مل رہا ہے وہ اب تک مقدمات کے اندراج کے باوجود گرفتاری سے محفوظ ہیں اور گرفتاری کے خوف سے زمان پارک میں خواتین اور نوجوانوں کے حصار میں ہیں۔ الیکشن کمیشن اور اس کے اہم عہدیداروں پر پی ٹی آئی رہنماؤں نے کون سا سنگین الزام نہیں لگایا اور اپنے خلاف دھمکی کا مقدمہ درج کرانے والے سیکریٹری الیکشن کمیشن کو رہائی کے بعد فواد چوہدری سزا دلوانا چاہتے ہیں۔
اتحادی حکومت بلاشبہ کمزور اور بزدل ہے جس کے عہدیداروں کا زور صرف بیان بازیوں پر ہے عملی طور پر عدالتوں کے خوف سے وہ کچھ نہیں کر پا رہے مگر صرف چار رہنماؤں کی گرفتاری پر پریشان پی ٹی آئی سربراہ اور رہنماؤں نے بے بس حکومت پر الزام تراشی شروع کررکھی ہے جب کہ انھیں حکومت کا شکر گزار ہونا چاہیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔