عمران خان کی ڈبل گیم

آئزک چوٹینر  جمعرات 9 فروری 2023

(عمران خان کے 5 فروری کو امریکی جریدے دی نیویارکر کے صحافی آئزک چوٹینرسے زوم پر انٹرویو)

ایک قاتلانہ حملے کے بعد، پاکستان کے سابق وزیر اعظم کا اظہارِ خیال، جس میں انھوں نے طالبان کے بارے میں اپنے خیالات، فوج کے ساتھ تعلقات، اور کیوں وہ دوسرے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ’’روشن خیال‘‘ ہیں پر گفتگو کی ہے۔’’پاکستان میں اس وقت صرف ایک ادارہ ہے جو برقرار ہے اور کام کر رہا ہے، وہ فوج ہے‘‘۔

عمران خان کااپنے ملک کے بارے میں یہ کہنا ہے۔عمران خان نے 30سال قبل کرکٹ ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کو فتح دلائی، وہ کرکٹ کے عظیم ترین کھلاڑیوں میں شامل ہوئے اور اپنے ملک میںبطور ہیرو اپنا مقام بنایا۔ وہ انتیس سال کی عمر میں کرکٹ سے ریٹائر ہوئے۔ چار سال بعد، 1996 میں پاکستان تحریک انصاف کے نام سے سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔ 2013 میں خان کی مقبولیت کی بدولت پی ٹی آئی نے اقتدار حاصل کرنا شروع کیا۔ 2018 میں، پولنگ کی بے ضابطگیوں سے متاثرہ عام انتخابات میں عمران خان کو وزیر اعظم منتخب کیا گیا یا ’’سلیکٹڈ‘‘، جیسا کہ ان کے مخالفین کہتے ہیں۔

یہ ایک حیرت انگیز لیکن ستم ظریفی سے بھرپور عروج کی انتہا تھی۔ خان دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے کھلم کھلا مخالف رہے تھے، جس میں پاکستان کا کردار تھا، خان ایک ایسی جماعت کی قیادت کرتے ہیں جو سماجی طور پر قدامت پسند ہے، لیکن وہ خود عالمی سطح پر پلے بوائے لائف اسٹائل کے لیے مشہور ہیں۔

خان کے غلط بیانات کی طویل تاریخ کو دیکھتے ہوئے، جیسا کہ خواتین کے لباس کو جنسی حملوں کا سبب قرار دینا، خان نے طالبان کے بارے میں بھی مسلسل ہمدردانہ تبصرے کیے ہیں۔ (2012 میں، نیویارکر میں ایک پروفائل کے لیے، عمران خان نے اسٹیو کول کو بتایا، ’’میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ طالبان پاکستان کے لیے خطرہ ہیں‘‘؛ حالانکہ اس وقت تک طالبان کے مختلف دھڑے چالیس ہزار سے زیادہ پاکستانیوں کو قتل کر چکے تھے۔ )خان کی وزارت عظمیٰ عدم استحکام کا شکارتھی۔ ان کے اقتدار کے پہلے سال پاکستانی معیشت تباہ ہو گئی، صحافیوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں پر حملوں میں اضافہ ہوا۔ پچھلے سال مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کی سربراہی میں کئی پارٹیوں کے ایک اتحاد نے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے خان کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹا دیا۔خان اور میں نے حال ہی میں زوم پر بات کی۔

انیس سو نوے کی دہائی کے وسط میں سیاست میں آنے کے بعد پاکستان کے لیے آپ کا وژن کیسے بدلا؟

میرا سیاست میں آنے کا مقصد یہ تھا کہ اٹھارہ سال کی عمر میں، جب انگلینڈ پڑھنے اور پروفیشنل کرکٹ کھیلنے گیا تھا تو میں نے وہاں پاکستان کی زندگی کا موازنہ انگلینڈ کی زندگی سے کیا، جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ دو تھیں، ایک تو فلاحی ریاست تھی، دوسرا قانون کی حکمرانی تھی، ہمارے پاس یہ دو گھرانے‘ مافیا خاندان پاکستان کو چلا رہے تھے۔

یہ پوری ترقی پذیر دنیا کا مسئلہ ہے: ہمارے پاس وائٹ کالر مجرموں کو پکڑنے کی صلاحیت نہیں ہے کیونکہ جو لوگ اقتدار میں ہیں، وہ ریاستی اداروں کو کمزور کرتے ہیں۔ کرپشن قانون کی حکمرانی نہ ہونے کی علامت ہے۔

اس لیے میں چاہتا تھا کہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی ہو۔جب میں 2018 میں اقتدار میں آیا تو نیب نے پی ایم ایل این اور پی پی پی کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات بنائے تھے، میں چاہتا تھا کہ مقدمات آگے بڑھیں مگرمیرا پورا وژن یعنی قانون کی حکمرانی، طاقتور کو قانون کے دائرے میں لانا ناکام ہوگیا۔ (خان کے دور میں، پاکستان ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے انسداد بدعنوانی انڈیکس میں گر گیا، منی لانڈرنگ بلا روک ٹوک جاری رہی۔)

ایسے الزامات ہیں کہ فوج نے 2018 کے انتخابات میں آپ کی مدد کے لیے مداخلت کی۔ ان پچھلے چند مہینوں میں سویلین بالادستی کی خواہش اور عوام کے ذریعے کامیابی کی بات ، کیا یہ سچ ہے یا آپ بس اس کے ذریعے سیاسی کامیابی کے خواہاں ہیں؟

آج فوج ہمارے ملک کا واحد منظم ادارہ ہے۔جس کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی اور نہ ہی اسے کمزور کیا گیا۔ سویلین حکومتوں نے دوسرے اداروں کو مضبوط نہیں ہونے دیا، کیونکہ تب وہ ملک سے پیسہ باہر نہیں لے جا سکیں گے، میری پوری مہم ان دو خاندانوں کے خلاف تھی۔2018 میں جب ہمیں الیکشن کے بارے میں چیلنج کیا گیا تو میں نے اپنی پہلی تقریر میں الیکشن کھولنے کی پیشکش کی۔ ہم دراصل یہ نہیں سمجھتے کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے۔ بصورت دیگر، ہم اسے کھولنے کی پیشکش نہیں کرتے۔

مجھے نہیں لگتا کہ کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ آپ کی پاکستان میں اس وقت مقبولیت نہیں ہے، یہ ماضی میں فوج کے ساتھکا م کرنے کے بارے میں زیادہ ہے۔ آپ مشرف آمریت کے ناقد بن کر سامنے آئے، پرویز مشرف نے 1999 سے 2008 تک پاکستان پر حکومت کی لیکن اقتدار میں آنے کے بعد، آپ کی ابتدائی کابینہ میں سے کم از کم نصف نے مشرف کے ساتھ کام کیا تھا۔

اب، ایک بار پھر، میں آپ کو سمجھاؤں گا۔ اس وقت پاکستان میں صرف ایک ادارہ ہے جو برقرار ہے اور وہ کام کرتا ہے۔ وہ فوج ہے۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے یہ دو خاندان ہیں جنھوں نے اداروں کو کمزور کیا ہے۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں بہترچیزیں ہوں تو یہ سویلین حکومت اور فوج کے درمیان ہم آہنگی سے ممکن ہے۔ ہمارے پاس سیلاب تھا، فوج کے پاس تنظیم تھی، پولیو سے جنگ اور سرحدوں پر عسکریت پسندی کے مسائل۔ فوج کے بغیر، ہم یہ نہیں کر سکتے تھے، تو مجھے بالکل درست بتانے دیں، اقتدار سویلین حکومت کے پاس ہونا چاہیے، جس کے پاس ملک چلانے کا عوامی مینڈیٹ ہے۔ لیکن فوج ہمیشہ بڑا کردار ادا کرے گی۔

ناقدین کا کہنا ہے ، آپ کی وزارت عظمیٰ کے دوران، آپ نے فوج کے ساتھ مل کر کام کیا۔ آزادی صحافت میں کمی آئی اور صحافیوں پر حملے ہوئے۔

میرے ساڑھے تین سال صحافیوں کے حوالے سے، میڈیا اور پریس کی آزادی کے حوالے سے پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ لبرل تصور کیے جاتے ہیں۔ میرے ساڑھے تین سال مثالی تھے۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔