مائیکروسافٹ کے بعد گوگل نے ’بارڈ‘ نامی اے آئی سہولت کا اعلان کردیا

ویب ڈیسک  جمعرات 9 فروری 2023
گوگل نے مائیکروسافٹ کو دیکھتے ہوئے اپنا اے آئی فیچر بارڈ پیش کرنے کا اعلان کیا ہے۔ فوٹو: فائل

گوگل نے مائیکروسافٹ کو دیکھتے ہوئے اپنا اے آئی فیچر بارڈ پیش کرنے کا اعلان کیا ہے۔ فوٹو: فائل

شکاگو: مائیکروسافٹ اپنے سرچ انجن، بنگ میں چیٹ جی پی ٹی جیسا انتہائی طاقتور مصنوعی ذہانت (اے آئی) فیچر تقریباً پیش کردیا ہے۔ اس کے بعد گوگل نے اپنے اے آئی فیچر بارڈ کو گوگل سرچ کے ساتھ پیش کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔

ماہرین کہہ چکے ہیں کہ سرچ انجن میں اگلا فیچر اے آئی ہوگا اور وہی سرچ انجن بہتر نتائج فراہم کرے گا جس کی پشت پر طویل ڈیٹا کی بنیاد پر اے آئی انجن ہوگا۔ تاہم تجزیہ نگاروں نے نہ صرف بارڈ فیچر کو متنازعہ قرار دیا ہے بلکہ اس میں غلطیوں کی نشاندہی بھی کی ہے جس کا ذکر آگے آئے گا۔

بارڈ، سوال کے جواب دیتا ہے اورلگتا یوں ہے کہ اسے چیٹ جی پی ٹی کی طرز پر ہی بنایا گیا ہے۔ اسی تناظر میں طب، صحافت، ویڈیو اور دیگر شعبوں میں مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا جارہا ہے۔ یہاں تک کہ کاروبار اور تجارت کے نت نئے طریقے بھی سامنے آرہے ہیں۔

ٹیکنالوجی تجزیہ نگاروں کے مطابق، گوگل نے چیٹ جی پی ٹی سے غیرمعمولی طور پر متاثر ہوکر اس پر کام شروع کیا تھا۔ تاہم ان کا اصرار ہے کہ اب روایتی ایس ای او کی مہارت بھی ناکافی ہوگی کیونکہ اے آئی فیچر کی بدولت سرچ انجن بہت تیزی سے خود کو تبدیل کرے گا۔

اس سے قبل گوگل کا مؤقف رہا ہے کہ اے آئی سے بنائی گئی کوئی بھی تخلیق اس کی رہنما ہدایات کے خلاف ہے۔ اس سے قبل امریکہ میں کئی فنکار اور مصوروں نے ان کی تخلیقات کو قدرے بدل کر نئے انداز سے پیش کرنے والے اے آئی پروگرام اور سافٹ ویئر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا عندیہ بھی دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی کمپنیاں اے آئی کے اس پہلو سے فکرمند ضرور ہیں۔

دوسری جانب ٹیکنالوجی کی خبریں دینے والی مشہور ویب سائٹ ’دی ورج‘ نے اے آئی چیٹ بارڈ میں غلطیوں کی نشاندہی بھی ہے جو حقائق (فیچکوئل) پرمبنی ہیں۔ بارڈ سے پوچھا گیا کہ ’جیمز ویب خلائی دوربین نے کی ایسی کونسی دریافت ہے جو میرے 9 سالہ بچے کے لیے دلچسپی کی وجہ ہوسکتی ہے؟

اس کےجواب میں بارڈ نے تین نقاط پر مبنی جواب دیا جس کی پہلی سطر میں لکھا گیا تھا کہ ’ جے ایس ٹی نے ایسے سیاروں کی اولین تصاویر ایسی اتاریں جو ہمارے نظامِ شمسی سے باہر کی تھیں۔‘ اس کے بعد ماہرینِ فلکیات نے فوری ردِ عمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ بات بالکل غلط ہے۔ جیمزویب ٹیلی اسکوپ سے بھی بہت پہلے سال 2004 میں ہم نظامِ شمسی سے ورا پہلے سیارے (ایگزوپلانیٹ) کی تصویر لے چکے تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔