- مینار پاکستان پر جلسہ سے قبل پی ٹی آئی کارکنوں کی پکڑ دھکڑ شروع
- لاہور؛ لاپتا نوجوان لڑکی کی لاش نہر سے مل گئی، 3 ملزمان گرفتار
- سعودی عرب اور شام کا 11 برس بعد سفارتی تعلقات کی بحالی پر اتفاق
- عمران خان سے بڑا دہشت گرد اورفراڈیا نہیں دیکھا، نوازشریف
- ڈکیتی کی وارداتوں میں ملوث 2 ملزمان گرفتار
- نادرا کی نئی ایپ، شہری اسمارٹ فون کے ذریعے شناختی کارڈ بنواسکیں گے
- گلوکار طلحہ یونس کو 15 لاکھ مالیت کا گمشدہ بیگ واپس مل گیا
- یوم پاکستان پر ایوان صدر میں سول اعزازات دینے کی تقریب
- دنیا بھرمیں پاکستانی سفارت خانوں میں یوم پاکستان کی تقاریب کا انعقاد
- عمران خان کے قتل کی کوئی منصوبہ بندی نہیں ہوئی، آئی جی پنجاب
- حسان نیازی کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد، 14 روز کیلئے جیل روانہ
- ایف آئی اے نے انسانی اسمگلنگ میں ملوث ملزم کو گرفتار کرلیا
- پی ٹی آئی کا پنجاب الیکشن ملتوی کرنے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان
- اینٹی نارکوٹکس کی کارروائیاں؛ جدہ جانے والے مسافر سے 3 کلوآئس برآمد
- راولپنڈی میں سوتیلے باپ کا کمسن بچی پر تشدد، ویڈیو وائرل ہونے پر ملزم گرفتار
- چھوٹے سے گاؤں میں پراسرار ’مینیئن‘ ماڈل کی بہتات ایک معمہ بن گئی
- تھری ڈی پرنٹر کی مدد سے میٹھی ڈش تیار کرلی گئی
- رمضان میں وزن کم کرنا چاہتے ہیں تو یہ مشروب پیئیں
- سینئرصحافی عامر الیاس رانا کو تمغہ امتیاز اور اینکرجاوید چوہدری کو ستارہ امتیاز سے نوازدیا گیا
- فضائی حدود میں داخل ہونے والے امریکی طیارے کو بھاگنے پر مجبور کردیا؛ چین
ترکیہ میں زلزلے زیادہ ہلاکت خیز کیوں ہوتے ہیں؟

زلزلے کا مرکز زیادہ گہرائی پر نہیں تھا اور حکام کے مطابق یہ گہرائی 18 کلومیٹر تھی۔ فوٹو:ٹوئٹر
پیر کی صبح شام کی سرحد کے قریب ترکی کے جنوب مشرقی علاقے میں شدید زلزلے کے نتیجے میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق تین ہزار سے زیادہ افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو گئے ہیں۔
زلزلے کا مرکز غازی عنتیپ کے شہر کے قریب کا علاقہ تھا اور پہلے شدید جھٹکے کے کچھ ہی دیر بعد یہاں ایک اور زلزلہ آیا اور آفٹر شاکس کا سلسلہ کئی گھنٹے گزرنے کے بعد بھی جاری رہا۔
یہ زلزلہ اتنا ہولناک کیوں تھا؟
یہ ایک شدید زلزلہ تھا۔ اس کی شدت 7 اعشاریہ 8 ریکارڈ کی گئی اور سرکاری حکام کے مطابق یہ ایک ’بڑا‘ زلزلہ تھا۔ زلزلے کا مرکز زیادہ گہرائی پر نہیں تھا اور حکام کے مطابق یہ گہرائی 18 کلومیٹر تھی، اسی لیے متاثرہ علاقے میں کئی عمارتیں منہدم ہو گئیں۔
یونیورسٹی کالج لندن کے قدرتی آفات پر تحقیق کے شعبے ’رِسک این ڈیزاسٹر ریڈکشن‘ سے منسلک پروفیسر جوئنا فار واکر کے مطابق ’پچھلے تمام برسوں کے مہلک ترین زلزلوں کو دیکھا جائے تو گذشتہ دس برس میں ایسے صرف دو زلزلے آئے جن کی شدت پیر کے زلزلے کے برابر تھی اور اس سے پہلے کے عشرے میں ایسے چار زلزلے ریکارڈ کیے گئے تھے۔‘
تاہم کسی بھی زلزلے سے آنے والی تباہی کا انحصار صرف اس پر نہیں ہوتا کہ اس کی شدت کیا تھی۔یہ زلزلہ صبح سویرے اس وقت آیا جب لوگ اپنے گھروں میں سو رہے تھے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی اہم ہے کہ عمارتیں کس قدر مضبوط یا کمزور تھیں۔
یونیورسٹی آف پورٹسمتھ میں آتش فشاؤں پر تحقیق کی ماہر، ڈاکٹر کارمن سولانا کہتی ہیں کہ ’بدقسمتی سے جنوبی ترکی اور خاص طور پر شام میں ایسی عمارات کی تعداد کم ہی ہے جو زلزلے کے جھٹکوں کو برداشت کر سکتی ہیں۔
’ اسی لیے زلزلے سے تباہی سے بچنے کا انحصار امدادی کارروائیوں پر ہے۔ آئندہ 24 گھنٹے اس حوالے سے نہایت اہم ہیں کہ ان میں کتنے لوگوں کو زندہ نکال لیا جاتا ہے۔ 48 گھنٹے گزرنے کے بعد زندہ بچنے والوں کی تعداد بہت کم ہو جاتی ہے۔‘
ترکی اور شام کی سرحد کے قریب کے اس علاقے میں گزشتہ سو سال میں کوئی شدید زلزلہ نہیں آیا اور کوئی ایسی علامات بھی نہیں دیکھی گئیں جن کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا کہ یہاں اتنا شدید زلزلہ آ سکتا ہے۔ اسی لیے دوسرے علاقوں کی نسبت یہاں زلزلے سے بچاؤ کا نظام بھی قدرے کم دکھائی دیتا ہے۔
زلزلے کا سبب کیا تھا ؟
ہماری زمین کی بیرونی سطح یا پرت مختلف سطحوں کے ملاپ سے بنتی ہے جنھیں پلیٹس یا تھالیاں کہا جاتا ہے۔ یہ تھالیاں پرندوں کے گھونسلوں کی مانند ایک دوسرے سے جڑی ہوتی ہیں۔
اکثر یہ پلیٹس حرکت کرنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن مختلف پلیٹس کے درمیان رگڑ کی وجہ سے ان میں حرکت نہیں ہو پاتی لیکن کبھی کبھار تھالیوں کے درمیان دباؤ اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ ایک تھالی اچانک اپنی جگہ سے کھسک جاتی ہے جس سے زمین کی سطح ہِل جاتی ہے۔
پیر کو آنے والے زلزلے میں شمالی کی جانب حرکت کرتی ہوئی ’عریبین پلیٹ‘ اور ’اناطولین پلیٹ‘ میں رگڑ پیدا ہو گئی تھی۔ ماضی میں آنے والے بڑے بڑے زلزلوں میں بھی مختلف تھالیوں کے درمیان رگڑ سے تباہی ہوئی۔
13 اگست 1821 کو بھی اس علاقے میں سات اعشاریہ چار کی شدت کا زلزلہ آیا تھا تاہم اس کی شدت پیر کے زلزلے سے خاصی کم تھی۔ اس کے باوجود اس زلزلے کے نتیجے میں یہ علاقہ بری طرح متاثر ہوا تھا اور صرف حلب کے شہر میں سات ہزار اموات ریکارڈ کی گئی تھیں۔
19ویں صدی کے اس بڑے زلزلے کے ایک برس بعد تک اس علاقے میں آفٹر شاکس آتے رہے۔ پیر کی صبح کے زلزلے کے بعد بھی جھٹکوں کا سلسلہ بہت دیر تک جاری رہا اور سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ماضی کے شدید زلزلے کی طرح اب بھی یہ رجحان جاری رہے گا۔
زلزلوں کو ماپا کیسے جاتا ہے؟
زلزلوں کی پیمائش کے لیے آج کل جو پیمانہ استعمال کیا جاتا ہے اسے ’مومنٹ میگنیچیوئڈ سکیل‘ کہا جاتا ہے۔
اس پیمانے پر دو اعشاریہ پانچ سے کم کی شدت کے جھٹکے کو محسوس نہیں کیا جا سکتا اور یہ آلہ اس کی پیمائش نہیں کر سکتا۔ تاہم پانچ تک کی شدت کا زلزلہ ریکارڈ کیا جا سکتا ہے اور اتنی شدت کے زلزلے سے زیادہ نقصان نہیں ہوتا۔
سات اعشاریہ آٹھ کی شدت کے جھٹکے کو ایک ’بڑا‘ زلزلہ کہا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں عموماً خاصی تباہی ہوتی ہے۔آٹھ سے زیادہ کی شدت کا جھٹکا انتہائی تباہ کن ہوتا ہے جس سے زلزلے کے مرکز کے ارد گرد کی آبادیاں مکمل ملیا میٹ ہو سکتی ہیں۔
سنہ 2011 میں جاپان کے ساحل کے قریب سمندر میں آنے والے زلزلے کی شدت نو تھی جس سے نہ صرف ساحلی علاقے میں بہت زیادہ تباہی دیکھنے میں آئی تھی بلکہ اس نے انتہائی بلند سمندی لہروں کے طویل سلسلے کو جنم دیا تھا۔
ان بلند لہروں میں سے ایک ساحل کے قریب واقع ایک جوہری پلانٹ سے ٹکرا گئی تھی جس سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی تھی۔ دنیا کی تاریخ میں سب سے بڑا زلزلہ سنہ 1960 میں چلی میں آیا تھا جس کی شدت نو اعشاریہ پانچ ریکارڈ کی گئی تھی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔