پاکستانی بس ڈرائیور کا بیٹا اپنی محنت کے بل بوتے پر برطانیہ کا وزیر بن گیا

ویب ڈیسک  جمعرات 10 اپريل 2014
ساجدجاوید2010 کے عام انتکابات مین برومزگروو سے رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے تھے۔ فوٹو: فائل

ساجدجاوید2010 کے عام انتکابات مین برومزگروو سے رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے تھے۔ فوٹو: فائل

لندن: وطن عزیز میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ پاکستان میں ایک عام آدمی صرف اپنی محنت اور صلاحیتوں کے بل بوتے پر کسی بھی شعبے میں کامیاب نہیں ہوسکتا لیکن یورپی ممالک میں معاشی لحاظ سے پسماندہ طبقے کے افراد کے حکومتی سطح پر بڑے عہدوں تک پہنچنے کی مثالیں عام ملتی ہیں ایسی ہیی ایک مثال برطانیہ میں سامنے آئی ہے جہاں ایک پاکستانی بس ڈرائیورکا بیٹا ترقی کرتے کرتے آج ملک کا وزیر ثقافت بن گیا ہے۔

عرب ویب سائٹ کے مطابق کنزرویٹیو پارٹی کے ساجد جاوید کے والد آج سے کم و بیش 54 برس قبل جب برطانیہ آئے تو ان کے پاس صرف ایک پاؤنڈ تھا، یہاں آکر انہوں نے بس ڈرائیونگ کی اور قصب حلال سے ناصرف اپنا گھر چلایا بلکہ اپنے 5 بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ بھی کیا۔ 1969 میں برطانیہ ہی میں پیدا ہونے والے ساجد جاوید نے تمام تر معاشی مسائل کے باوجود سیاسیات اورمعاشیات میں اعلیٰ ڈگریاں حاصل کیں۔ اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر وہ صرف 24 برس کی عمر میں برطانیہ کے  چیز مینہیٹم بینک کے نائب صدر بنے۔ وہ اس عہدے پر کام کرنے والے کم عمر ترین شخص تھے۔

ساجد جاوید دوران تعلیم بھی کنزرویٹیو پارٹی کے پلیٹ فارم سے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے تھے تاہم 2009 میں انہوں نے بینکاری کا شعبہ چھوڑ دیا اور کنزرویٹیو پارٹی میں باضابطہ طور پر شامل ہوکر عملی سیاست میں قدم رکھا۔  2010 میں وہ برومزگروو سے رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے اور اب برطانوی وزیر اعظم نے انہیں ملک کا وزیرِثقافت مقرر کردیا ہے۔ وہ نشریات، کھیل، سیاحت، ٹیلی کام، نسلی، جنسی اور مذہبی مساوات اور ادب کے شعبے بھی دیکھیں گے، وزیر ثقافت بننے کے ساتھ ہی ساجد جاوید کو برطانیہ کے پہلے ایشیائی نژاد مرد کنزرویٹو وزیر بننے کا بھی اعزاز حاصل ہوگیا ہے۔

بحیثیت وزیر تقرری کے بعد ساجد جاوید کا کہنا تھا کہ انہوں نے اب تک جو بھی حاصل کیا اپنی محنت اور برطانوی نظام کی بدولت ہے، وہ اپنی اس کامیابی کو زندگی کا سب سے بڑا اعزاز سمجھتے ہیں۔ بحیثیت وزیر اپنی تمام ذمہ داریوں کو احسن طریقے سےنبھانے کی کوشش کریں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔