انتباہ

انیس باقر  جمعرات 10 اپريل 2014
anisbaqar@hotmail.com

[email protected]

گزشتہ جمعے کو اپنے آرٹیکل میں مجھے جو کچھ لکھنا تھا وہ پوری جرأت سے تحریر کیا کہ جنرل پرویز مشرف کو ہر صورت میں آزاد کیا جائے گا کیونکہ موجودہ جمہوریت حقیقت میں یہ کسی حقیقی جمہوریت کی نمایندہ نہیں اور نہ ہی گزشتہ پانچ برسوں کی جمہوریت عوام کی ترجمان تھی یہ تو کہیے کہ محترمہ شہید بے نظیر بھٹو سیاسی افق پر موجود ہوتیں تو پھر لاٹری ان کے نام نہ نکلتی۔ اگر آپ زرداری صاحب کے بیان کا موازنہ اور پھر وزیر اعظم نواز شریف کے بیانات کا موازنہ کریں تو معلوم ہو گا کہ یہ فرینڈلی مخالفت ہے، یعنی پانچ سال میں حکومت کر چکا ہوں اور اب یہ پانچ سال تمہارے ہیں، جب کہ محترمہ بینظیر بھٹو کے سیاسی ستون کچھ اور تھے۔ محترمہ کے بعض عوامی اقدامات میں وہ زیرکی تھی جو بھٹو شہید میں بھی اس درجہ موجود نہ تھی۔

محترمہ کا عمل اپنے ہمدردوں اور ساتھیوں سے نہایت درد مندانہ اور باہم احترام پر ہوتا تھا اور آنے والے دنوں کو وہ جلد بھانپ لیتی تھیں، اس کی ایک مثال میں آپ کو یہ دیتا ہوں کہ جب وہ دوسری بار وزیر اعظم بنیں تو ایک روز وزرا کی میٹنگ میں وفاقی وزیر امیر حیدر کاظمی سے انھوں نے کسی مسئلہ پر، جو صحت سے متعلق تھا، چند سخت جملے ادا کیے۔ کاظمی مرحوم رنجیدہ گھر پہنچے، ابھی وہ کمرے میں داخل ہی ہوئے تھے کہ لینڈ لائن فون کی گھنٹی مسلسل بج رہی تھی۔ کاظمی نے فون اٹھایا تو وہ بی بی شہید کا فون تھا، وہ اپنے انداز گفتگو پر سوری (Sorry) کر رہی تھیں۔ کاظمی صاحب نے یہ بات اپنی موت سے قبل جب وہ کراچی آئے تھے تو مجھے بتائی اور بتاتے وقت وہ بڑے دلگیر ہوئے اور بار بار وہ یہ کہہ رہے تھے کہ کہاں میں اور کہاں بی بی شہید اور اس قدر عاجزی ان کے مزاج میں خدا ترسی کا نمونہ اور پھر ان کے لیے فاتحہ خوانی کی۔

یہ طریقے ہوتے ہیں رہبری کے جو اپنے سے کم مراتب والوں سے بھی آداب زندگی رکھتے ہیں، نہ یہ کہ اپنے کارکنوں کو بے توقیر سمجھنا اور ہر محاذ پر مصلحت کو اصولوں پر قربان کر دینا، لہٰذا یہ کہنا کہ یہ جمہوریت کسی بڑی جدوجہد کا نتیجہ ہے، اگر جدوجہد کسی نے کی تو وہ بے نظیر شہید نے اور ثمرات کسی اور کو ملے۔ البتہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وکلا تحریک ایک بڑی جمہوری تحریک تھی مگر اس کے فوائد بھی عوام کو نہ ملے۔ کیا انصاف سستا ہو گیا؟ کیا فیصلے جلد ہو رہے ہیں؟ کیا انصاف کا بول بالا ہو گیا ہے؟ درحقیقت کچھ نہ بدلا سب کچھ وہی بلکہ مشرف دور کی نیم جمہوری حکومت سے جعلی ڈگریوں اور نیم خواندہ لیڈروں کی جمہوریت کس طرح بہتر ہے۔ کیا پٹرول 60 روپے لیٹر ہے، کیا عام کھانے پینے کی چیزیں سستی ہیں، کیا غیر ملکی سرمایہ کاری شروع ہو چکی ہے؟ چند ماہ کے لیے مصنوعی طور پر ڈالر 100 کے اردگرد کھڑا ہے، جمہوری دور میں ایسی کون سی حیران کن پیش قدمی ہوئی ہے جس سے عوام کو سکون میسر آیا ہو۔

افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ ماضی کی جمہوری حکومتوں نے نہ بلدیاتی انتخابات کرائے اور نہ حال کی حکومتوں نے جنھیں سپریم کورٹ نے نومبر تک کی مہلت دی ہے، کیونکہ ان کی نظر ترقیاتی کاموں کے مالیاتی سرمایہ پر ہے لہٰذا حکومت کو ہر گز اس خیال میں نہیں رہنا چاہیے کہ وہ بہت مقبول ہے۔ کیا یہ موجودہ حکمران ذوالفقار علی بھٹو سے زیادہ مقبول جمہوریت چلا رہے ہیں یا ان کے ذہن میں یہ خیال ہے کہ واقعی یہ قائداعظم کی بنائی ہوئی زریں اصولوں کی پاسدار جماعت ہے؟ آخر شاخ نازک پہ آشیاں بنانے والے غلطی پر ہیں جو فوج کی کردار کشی میں مصروف ہیں۔ تنقید کا حق صرف ان کو ہے جو خود ان سے بہتر کارکردگی میں مصروف ہوں یا جن کا ماضی بے داغ ہو، جنرل پرویز مشرف کا ایک ٹرائل تو عدالت کر رہی ہے وہ اپنی جگہ مگر میڈیا ٹرائل؟ کیا وہ جو پرویز مشرف کی تذلیل میں مصروف ہیں گزشتہ فوجی آمروں کے خلاف کبھی کھڑے ہوئے۔

ہم نے بارہا طالب علمی کے زمانے میں مارشل لا کے خلاف مظاہرے کیے، جمہوریت اور آمریت کا فرق ہمیں معلوم ہے، کیا موجودہ حکمرانوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ پرویز مشرف کو سزا دینے کی کوشش حکومت کو ڈی ریل کر سکتی ہے یا نہیں، پرویز مشرف نے 10 برس کا بانڈ بھر کے غیر ملک جانے کی اجازت دے دی تھی، جب کہ ایک خبر یہ بھی ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے اپنے لیے ایسے معاہدے کو مسترد کر دیا۔ جنرل ضیا الحق کی تائید کرنے والے حکمران آج بھی موجود ہیں، کیا ان کے خلاف کوئی کارروائی ہو سکتی ہے؟ یا کسی اور جنرل کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی ہے؟ تو پھر پرویز مشرف کے خلاف یہ تادیبی کارروائی کیوں؟ کیا موجودہ حکومت مصر کی مرسی حکومت سے زیادہ مقبول ہے جہاں جنرل السیسی نے 500 افراد کو سزائے موت سنائی ہے اور کیا مغربی ممالک یا عرب ممالک نے کوئی بیان جاری کیا؟

آخر پاکستان میں ایسی کیفیت پیدا کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ابھی تو یہ ایک ابتدا ہے اس پر اگر مزید بدنظمی جاری رہی تو پھر اس خودساختہ جمہوریت کو بڑی کٹھن منزل سے گزرنا ہو گا۔ جنرل راحیل شریف کی ذات کا تجزیہ کرنا بھی ضروری ہے، یہ کوئی وہ جنرل نہیں جو کسی سیاسی حکومت کی نظر کرم کا نتیجہ ہیں، یہ آبائی اور خاندانی اعتبار سے اس خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں جو پرعزم اور حوصلہ مند اور بہادر جرنیل ہیں۔ 1965ء کی جنگ کے نامور بہادر اسی خاندان کے سپوت ہیں، عزیز بھٹی شہید نشان حیدر اور سرور شہید جیسے نامور ان ہی کے اقارب ہیں، لہٰذا فوج کے جرنیلوں کی ہجو سے سیاسی لیڈروں کو گریز کرنا چاہیے جب کہ پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کے پاس 5 آدمی مشکل سے ملیں گے جو اپنی جماعت کے لیے تختہ دار پر جانے کو تیار ہوں۔

مصر کی جمہوریت برس ہا برس کی جدوجہد کے بعد آئی تھی، اخوان المسلمون کا سفر طویل اور قربانیوں سے بھرا ہے، کوئی ضروری نہیں کہ میں ان کے افکار کو پسند کرتا ہوں مگر جدوجہد کا احترام تو کرنا ہوتا ہے۔ حکومت کا تختہ الٹا گیا تو آج اس جماعت کو کس کرب سے گزرنا پڑ رہا ہے، لہٰذا مصر جیسے حالات پیدا کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ ٹی وی پر بولتے جو چند لوگ ہیں ان میں سے اکثر اشاروں پر چلتے ہیں، کسی امتحان کے قابل نہیں۔ ابھی جمہوریت کی کونپل بھی نہیں نکلی محض زبانی طور پر بیج پڑا ہے، لہٰذا ملک کسی طالع آزمائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ جمہوریت بچانا محض فوج کا فرض نہیں سیاسی پارٹیوں کا بھی فرض ہے۔ ایس ایس جی ہیڈ کوارٹرز میں جنرل راحیل کے خطاب کو معمولی نہ سمجھنا چاہیے اور نہ ان کی گفتگو کی الٹی تشریح کی ضرورت ہے۔

ان کی گفتگو کے بعد تنخواہ دار مبصرین کا لہجہ جو بہت تند تھا اس میں کمی تو آئی ہے مگر ابھی ان کے خطاب کا مفہوم سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مینڈیٹ کا یہ مطلب ہے کہ جو چاہے کرے تو یہ غلط فہمی ہے کیونکہ انتخابات کے بعد حکمرانوں کی کارکردگی خود مینڈیٹ کا خاتمہ کر دیتی ہے۔ جو وعدے عوام سے کیے جاتے ہیں وہ وفا نہیں ہوتے اور پاکستان میں کتنی بار ایسا ہوا ہے کہ سیاسی لیڈران خود فوج کو اقتدار میں لانے گئے۔ اور اب جو تحفظ پاکستان بل کی منظوری جن حالات میں ہوئی ہے اس میں پاکستان کی جمہوری قوت لخت لخت ہو چکی ہے۔ ابھی تو موجودہ حکومت کو کئی محاذوں پر کام کرنا ہے۔ یہ ڈیڑھ ارب ڈالر اور آئی ایم ایف کا قرض چھ ماہ کے لیے بھی ناکافی ہے، نہ کہ داخلی انتشار کی فضا کا قیام اور لاحاصل محاذ پر گامزن ہونا۔ تمام اداروں کا احترام اور اپنی حدود میں کام کرنا ہی بہتر ہے۔

ہمارے سیاسی تعلقات پڑوسی ملکوں سے نہایت کشیدہ ہیں، بھارت سے دائمی کشیدگی، جو خلا پر ہوتے ہوتے یکدم دوری ہو جاتی ہے اور اب یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بھارتی حکومت کون بناتا ہے؟ افغان صدر کس پارٹی کا ہوتا ہے؟ بھارت نواز یا آزاد خارجہ پالیسی ؟ پاک ایران گیس پائپ لائن کا معاہدہ امریکا کے دباؤ پر تقریباً ختم ہو چکا ہے جس پر ایران اور پاکستان کے تعلقات میں کشیدگی نہ سہی سرد مہری ضرور ہے، لہٰذا سیاست دانوں کو ڈرنا چاہیے کہ کہیں سیاسی پارٹیاں فوج کے استقبال کی تیاری کرنے میں نہ مصروف ہو جائیں۔ عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں ہمارا بجٹ آئی ایم ایف کے زریں اصولوں کے تحت تیار ہوتا ہے کیونکہ وہ ہمارا ڈونر ہے، ایسے موقع پر انا کو ختم کر کے عقل اور تدبر کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ نہ بھولنا چاہیے کہ جنرل مشرف نے فوج کی وردی خود اتاری تھی اور یہ کبھی نہ بھولنا چاہیے کہ یہ جمہوریت پرویز مشرف کی سیاسی غلطیوں کا تحفہ ہے، اور جنرل راحیل کی گفتگو ایک انتباہ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔