علم کی پہچان لٹریچر…

کوثر علی صدیقی  جمعرات 10 اپريل 2014

دنیا علم کے بغیر جہنم بن جاتی ہے، یہ علم ہی ہے جس کی بدولت دنیا میںقوانین بنائے گئے ہیں اور ان قوانین کی پہچان کے لیے اور انسانیت کی معراج کے لیے اﷲ تعالیٰ نے چار مقدس آسمانی کتابیں بھی نازل فرمائیں، جن کے تحت انسان کو خبردار کیا گیا ہے کہ اس کے لیے کیا اچھا ہے اور کیا برا ہے۔ طلب علم کے لیے اگر انسان کی جان چلی جائے تو اسے شہادت کا درجہ دیا گیا ہے، اس سے علم کی اہمیت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ علم کے بغیر انسان بنجر زمین کی مانند ہے۔ دنیا کی ترقی علم کی بدولت ممکن ہوئی ہے۔ علم انسان کو اعلیٰ مرتبہ پر فائز کرتا ہے۔ لٹریچر الفاظ کے ترتیب دینے اور انھیں محفوظ کرنے کا نام ہی نہیں بلکہ کسی بھی اہم واقعات کو تاریخ کے اوراق میں محفوظ کرنے کا نام ہے۔

قوموں کے شعور کو بیدار کرنے کا ذریعہ لٹریچر ہی ہے جو کسی بھی قوم کو اقدار کی ان بلندیوں پر پہنچا دیتا ہے جو ساری دنیا میں ان کی پہچان بن جاتے ہیں جو رہتی دنیا تک لافانی رہتا ہے لہٰذا وقت و حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ دنیا بھر میں ہونے والے انسانیت سوز تشدد، دہشت گردی کسی بھی اونچ نیچ، مذہبی شدت پسندی، فرقہ واریت و رنگ و نسل کی بنیاد پر جو قتل و غارت گری و ظلم و جبر کا بازار گرم کیا جارہا ہے اس کے سدباب کے لیے علم کا ہونا ضروری ہے اور اس علم کی بنیاد پر لٹریچر کی صورت میں ہم اقوام عالم کے شعور کو بیدار کرنے کا ذریعہ بن کر ان کی قوت ارادی کو مستحکم کرکے ان پر ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف منظم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، کیونکہ منظم ہونا ہی ان تمام برائیوں کے سدباب کا سبب بنتا ہے۔

قدیم یونانی دور اپنے فنون کی مہارت کی وجہ سے دنیا بھر میں آج بھی مشہور ہے، یونانیوں نے لٹریچر کو بام عروج پر پہنچایا اور انھیں یہ شرف حاصل ہے کہ وہ لٹریچر کے بانی ہیں، یعنی تہذیب، مقاصد حیات، تصورات ان سب کو ایک جامع شکل دے کر لٹریچر کی صورت میں پیش کیا گیا، لٹریچر کی جو اہمیت ہے اسے رد نہیں کیا جا سکتا۔ شہر کے شہر اجڑ جاتے ہیں، ملک ختم ہوجاتے ہیں، ایک نسل دوسری نسل کی جگہ لے لیتی ہے لیکن نسل در نسل علم کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے جو تہذیب ہمارے شعور کو اجاگر کرتی ہے۔ فرض کریں کہ کوئی مقدس کتاب کے اوراق زمین پر پڑے ہوں تو اسے اٹھا کر ہم اپنے اپنے عقیدوں کے مطابق چوم کر کسی محفوظ مقام پر رکھ دیتے ہیں۔ انسانی تجربے اور تجزیے کو اگر محفوظ کرلیا جائے تو لٹریچر کی بنیاد بن کر نہ صرف انسان کی صلاحیتوں میں اضافے کا سبب بنتا ہے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک سبق کی حیثیت رکھتا ہے۔

اگر کوئی بھی فرد کسی بھی کام کے لیے کوئی معلومات فراہم کرے وہ معلومات زبانی ہوتی ہے اور کچھ دنوں میں وہ ذہن سے محو ہوجاتی ہے لیکن جب اسے لٹریچر کی شکل دی جائے تو وہ ہمیشہ زندہ رہتی ہے اور اپنی حقیقت کی وہ نہ صرف عکاسی کرتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی معلومات فراہم کرنے کا ذریعہ بنتا ہے کہ فلاں آدمی نے کسی کام پر ریسرچ کی تھی اور وہ کامیابی سے ہمکنار بھی ہوا تھا تو لازمی ہم اس کے تجربے سے فائدہ اٹھانا پسند کرتے ہیں تاکہ کسی شک کی گنجائش نہ رہے۔ الیکٹرانک میڈیا پر نشر ہونے والی خبریں جب ہم دیکھتے ہیں تو اس کا 2 فیصد حصہ آپ کے ذہن میں نقش ہوجاتا ہے اگر آپ پرنٹ میڈیا پر کسی چیز کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس کا 2 سے 3 فیصد اپنے ذہن میں محفوظ کرسکتے ہیں۔

اگر آپ کتابیں یا چند صفحات پر مشتمل کتابچہ جو لٹریچر کی صورت میں ہوتا ہے اس کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس کا 7 فیصد حصہ انسانی ذہن میں محفوظ ہوجانے کی صلاحیت ہوتی ہے، اس سے آپ الیکٹرانک میڈیا اور لٹریچر کی اہمیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا پر نشر ہونے والی بیشتر خبریں 24 گھنٹے میں اپنی اہمیت کھو دیتی ہیں اور اس کی جگہ نئی خبریں اور واقعات نشر ہوتے ہیں۔ پرنٹ میڈیا پر شایع ہونے والی خبریں اور بیانات بھی عام طور پر بہت زیادہ دنوں تک ذہن میں محفوظ نہیں رہتیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ نت نئی خبریں اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں لیکن لٹریچر میں لکھے ہوئے ا لفاظ تاریخ کا حصہ بن کر صدیوں محفوظ رہتے ہیں۔

لٹریچر ہی وہ اہم ذریعہ ہے جو برسوں پہلے ہونے والے واقعات کو قلم بند کرکے آیندہ آنے والی نسلوں کو آگاہی فراہم کر تے ہیں کیونکہ انسان تو مرجاتا ہے، صدیاں بیت جاتی ہیں لیکن معلومات عامہ یعنی لٹریچر نسل در نسل علم کا باعث بنتا ہے۔ علم کا انحصار کچھ اس طرح سے ہے کہ اگر ہم ساری زندگی بھی علم حاصل کرنے میں گزار دیں تو علم کا ایک فیصد حصہ بھی حاصل کرنے کا دعویٰ نہیں کرسکتے۔ علم ایک سمندر ہے اور اس سمندر کی گہرائی کا اندازہ انسان کے بس سے باہر ہے، لہٰذا ماں کی گود سے قبر کی آغوش تک سیکھنے کا عمل جاری رہتا ہے مثال کے طور پر کائنات کو وجود میں آئے ہوئے کروڑوں سال بیت چکے ہیں اور بابا آدم (علیہ السلام) کے وجود سے انسانی وجود کا قیام عمل میں آیا ہے اس وقت سے آج تک جدید سائنسی ترقی کے باوجود علم کی حد پار کرنے سے انسان قاصر ہے اور آج تک سیکھنے اور سکھانے کا عمل علم کا پتہ دیتا ہے اور اس علم کو انسانیت کی بھلائی کے لیے لٹریچر کی شکل میں محفوظ کیا جاتا ہے لہٰذا علم اور لٹریچر ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔

کسی بھی تحریک کی آبیاری میں لٹریچر ایندھن کا کام کرتا ہے اور لٹریچر ہی کے ذریعے عوام کو بھرپور آگاہی فراہم کی جاتی ہے تاکہ عوام الناس کے حق میں ہونے والے فیصلے ان کے علم میں رہیں، یہ لٹریچر ہی عوام اور تحریک کے قائد کے درمیان پل کا کردار ادا کرتا ہے جس کی بدولت عوام اپنے قائد کے فیصلے پر متفق ہو کر نامساعد حالات کی پرواہ کیے بغیر اس کے ساتھ جدوجہد میں شامل ہوجاتے ہیں۔ لٹریچر تحریک کے قائد کے فکر انگیز خطابات کو جو مختلف اوقات وحالات کے پیش نظرکیے جاتے ہیں ان کو ہرخاص و عام میں پہنچانے کا ذریعہ ہے تاکہ آنے والے وقتوں میں ان تمام حقائق کو عوا م الناس جان سکیں کہ یہ جہد مسلسل کا ایک طویل باب ہے جو ملک و ملت کے لیے جاری ہے یہاں تک کہ یہ آنے والی نسلوں کی بقا اور ان کے بہترین مستقبل کے لیے جاری ہے۔

تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے اوریہ حقیقت دنیا پر آشکار ہوچکی ہے کہ حق پرست قیادت کی جدوجہد ہی اس ملک میں انقلاب لا کر عوام کے دیرینہ مسائل حل کرسکتی ہے یہی وہ سب حقائق ہیں جس کے تحت ایم کیو ایم وجود میں آئی۔ ایم کیو ایم کا وجود ہی تاریخ کا وہ اہم جزو ہے جو لازوال ہے۔ جدید دور کا تقاضا ہے کہ برسوں پرانے گلے سڑے قوانین جو مظلوم عوام کے سروں پر دو دھاری تلوار کی مانند مسلط کیے گئے ہیں، ان کاسد باب کرنا ناگزیر ہے جس کے خاتمے کے لیے ایم کیو ایم کی جدو جہد لازوال ہے، لہٰذا وقت آگیا ہے کہ عوام ہر رنگ ونسل سے بالاتر ہوکر اس جہد مسلسل میں شامل ہوجائیں جو یقیناً قومی یکجہتی کی مثال ثابت ہوگی جس کے لیے مظلوم عوام تمام مسائل کے حل کے لیے بانی و قائد متحدہ قومی موومنٹ الطاف حسین کی آواز بن کر اپنی مثالی یکجہتی کی قوت کا مظاہرہ کریں، تاکہ کسی بھی فرسودہ نظام کے حامل عناصر میں یہ جرأت پیدا نہ ہو کہ وہ عوام کے حقوق پر ڈاکا ڈال سکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔