سمیع الحق کا طالبان شوریٰ سے رابطہ، جنگ بندی میں توسیع پر تبادلہ خیال

 فریقین میں اعتماد کا فقدان ہے، فوج مذاکرات نہیں چاہتی توحکومتی فیصلے قبول کرنا ہونگے، پروفیسرابراہیم،مذاکرات جاری رہنے تک سیزفائر رہے گا،رستم شاہ

فریقین میں اعتماد کا فقدان ہے، فوج مذاکرات نہیں چاہتی توحکومتی فیصلے قبول کرنا ہونگے، پروفیسرابراہیم،مذاکرات جاری رہنے تک سیزفائر رہے گا،رستم شاہ

اسلام آ باد: طالبان رابطہ کار کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے طالبان شوریٰ سے رابطہ کیا ہے اور جنگ بندی میں توسیع پر بات کی ہے جبکہ رکن طالبان کمیٹی پروفیسر ابراہیم نے کہا ہے کہ امن مذاکرات کے لیے فریقین میں اعتماد کا فقدان ہے۔

ایک نجی ٹی وی نے مولانا سمیع الحق کے قریبی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ جنگ بندی کے معاملے پر طالبان شوریٰ اختلافات کا شکار ہے۔ شوریٰ کے بعض ارکان کا کہنا تھا کہ حکومت کو قیدیوں کی جو فہرست دی گئی تھی اس پر کوئی پیشرفت نہیں ہوئی، جنگ بندی میں مزید توسیع ان کی رہائی پر ہی ممکن ہو سکتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بعض ارکان کا کہنا تھا کہ جنگ بندی میں توسیع کر دی جائے۔ طالبان نے مولانا سمیع الحق سے کہا کہ جب تک ان کے13 قیدیوں کو رہا نہیں کیا جاتا جنگ بندی میں توسیع نہیں کی جائے گی۔ مولانا حکومت سے قیدیوں کی رہائی کے لیے بات کریں اور ان پر دباؤ ڈالیں کہ قیدیوں کی جو فہرست فراہم کی گئی اس پر جلد از جلد عمل کیا جائے تاکہ جنگ بندی کی جا سکے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مولانا سمیع الحق نے طالبان کو اختلافات ختم کر کے مذاکراتی عمل آگے بڑھانے کا مشورہ دیا ہے۔

دریں اثناء مولانا سمیع الحق نے کہا ہے کہ جامعہ دارالخیرگلستان جوہرکراچی کے معصوم طلباء پر حملہ کھلی جارحیت ہے۔ ہماری پارٹی اورعلما نے ملک میںقیام امن کے لیے ہمیشہ بہت بڑا کردار ادا کیا اور اب بھی حکومت اورطالبان کومذاکرات کی میزپر بٹھانے میں ہمارے کردارکوکوئی فراموش نہیں کر سکتا۔ آئی این پی کے مطابق طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امن مذاکرات کے لیے فریقین میں اعتماد کا فقدان ہے ، طالبان کے پیس زون اور غیر عسکری قیدیوں کی رہائی کے مطالبات پورے نہیں ہوئے ، اعتماد بحالی کی صورت میں مذاکرات پشاور یا اسلام آباد میں بھی ہو سکتے ہیں، فوج مذاکرات سے باہر رہنا چاہتی ہے تو حکومت جو بھی فیصلے کرے قبول کرنا ہو گا۔

ملا عمر پاکستان میں کسی بھی قسم کی کارروائی نہیں بلکہ امن چاہتے ہیں۔پرویز مشرف اور قیدیوں کی رہائی کے معاملے پر حکومت کو مشکلات کا سامنا ہے۔ طالبان نے بتایا کہ جنگ بندی کے بعد سے اب تک ایک گولی بھی نہیں چلائی لیکن حکومت نے پیس زون اور غیر عسکری قیدیوں کے مطالبات پورے نہیں کئے۔ اگر مذاکرات پشاور یا اسلام آباد میں ہوئے تو ممکن ہے کہ ملا فضل اللہ کا خاندان سوات واپس آ جائے۔ این این آئی کے مطابق حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے رکن رستم شاہ مہمند نے کہا ہے کہ طالبان کے ساتھ جب تک مذاکرات جاری ہیں سیز فائر پر عمل ہوتا رہے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔