عامرکو بابر سے کیا مسئلہ ہے؟

سلیم خالق  ہفتہ 18 فروری 2023
آج میں سوشل میڈیا پر جب عامر کیخلاف تبصروں کی بھرمار دیکھتا ہوں تو افسوس بھی ہوتا ہے کہ کتنا زبردست ٹیلنٹ ضائع ہو گیا۔ فوٹو: فائل

آج میں سوشل میڈیا پر جب عامر کیخلاف تبصروں کی بھرمار دیکھتا ہوں تو افسوس بھی ہوتا ہے کہ کتنا زبردست ٹیلنٹ ضائع ہو گیا۔ فوٹو: فائل

اگر آپ کسی بڑی پوزیشن پر پہنچ کر کوئی سنگین غلطی کریں تو اسے سدھارنے کا موقع بہت کم ملتا ہے، بیشتر مشہور شخصیات گمنامی کے اندھیروں میں کھو کر بھولی بسری داستان بن جاتی ہیں،پھر انھیں پچھتاوا ہوتا ہے کہ کاش ایسا نہ کیا ہوتا،البتہ بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنھیں زندگی سیکنڈ چانس دیتی ہے، وہ کھویا ہوا مقام دوبارہ پا لیتے ہیں لیکن پھر ہر وقت  تنقیدی نگاہوں کے سامنے ہوتے ہیں، ایسے میں پھونک پھونک کر باقی زندگی گذارنا پڑتی ہے۔

محمد عامر ان چند گنے چنے خوش نصیبوں میں شامل ہیں جنھیں دوسرا موقع ملا، اسپاٹ فکسنگ کیس میں ملوث محمد آصف اب امریکا میں کوچنگ کر رہے ہیں، اگر وہ غلطی نہ کرتے تو شاید عظیم پاکستانی بولرز میں ان کا شمار ہوتا، اسی طرح سلمان بٹ سوشل میڈیا اور ٹی وی پر بطور مبصر نظر آتے رہتے ہیں، شاید وہ بھی اگر فکسنگ نہ کرتے تو پاکستان کے بہترین کپتانوں میں ان کا شمار ہوتا، ان دونوں کو شائقین نے اب بھی معاف نہیں کیا اور ہر بات پر ماضی یاد دلایا جاتا ہے،البتہ عامر کا معاملہ الگ رہا، انھیں شروع سے ہی ’’معصوم‘‘ بنا کر پیش کیا گیا۔

بچے کو سلمان نے ورغلا دیا، اس کا کوئی قصور نہ تھا،اس قسم کی باتیں سامنے آتی رہیں،حالانکہ اس ’’معصوم بچے‘‘ کے کارناموں سے تمام ساتھی کرکٹرز اچھی طرح واقف تھے،انھیں اس عوامی ہمدردی کا فائدہ ہوا اور قومی ٹیم میں واپس آ گئے، گوکہ بہت سارے لوگوں نے مخالفت کی لیکن ارباب اختیار کس کی سنتے ہیں،عامر نے پھر کھویا ہوا مقام دوبارہ پا لیا۔

اب ہونا یہ چاہیے تھا کہ وہ غلطیوں سے بچتے ہوئے باقی کیریئر اچھے انداز میں مکمل کرتے مگر انھوں نے ایسا نہ کیا، وہ اونچی ہوائوں میں اڑنے لگے، اگر کوئی کھیل سے خود کو بڑا سمجھے تو بہت زوردار ٹھوکر کھاتا ہے، ہر دور میں بڑے بڑے کرکٹرز سامنے آتے رہتے ہیں، سب کا اپنا ٹائم ہوتا ہے، کرکٹ سمیت ہر شعبے میں آپ کا کام بولتا ہے،کوئی کچھ اچھا کر رہا ہو تو اسے ڈھنڈورا پیٹنے کی ضرورت نہیں ہوتی، کام نظر آ جاتا ہے، تب ہی عزت بھی ملتی ہے۔

عامر نے بدقسمتی سے اپنے دوسرے چانس سے فائدہ نہیں اٹھایا، اس بار انھوں نے مختلف قسم کی غلطیاں کیں، انھیں لگا وہ پاکستان ٹیم کیلیے ناگزیر ہیں،حالانکہ کوئی ناگزیر نہیں ہوتا، چہرے بدلتے اور کام چلتا رہتا ہے یہی نظام زندگی ہے،مجھے یاد ہے چند برس قبل جب میں اپنے ویب شو میں کہا کہ عامر  برطانوی شہریت حاصل کرنے والے ہیں اور پاکستان کرکٹ میں ان کی دلچسپی کم ہو گئی ہے،شاید جلد ہی اسے چھوڑ دیں تو اس کے بعد عامر کے چاہنے والوں نے سوشل میڈیا پر مجھے بہت بْرابھلا کہا۔

وہ وقت یاد آ گیا جب عامر کی واپسی پر مخالفت کے سبب مجھے تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا، پھر وقت نے میری بات درست ثابت کر دی، عامر نے ٹیسٹ کھیلنے میں عدم دلچسپی ظاہر کی ، پھر بہانہ بناکر ریٹائرمنٹ کا ہی اعلان کر دیا، پاکستانی سرزمین کرکٹنگ ٹیلنٹ کے حوالے سے بہت زرخیز ہے، ایک ڈھونڈو تو کئی اچھے کھلاڑی بن جاتے ہیں، بس تراشنے کی ضرورت ہوتی ہے، ہمیں شاہین شاہ آفریدی، حارث رئوف، محمد حسنین، نسیم شاہ سمیت کئی ایسے پیسرز مل گئے کہ اب عامر کی یاد نہیں آتی، ایسے میں وہ فرسٹریشن کا شکار ہو گئے اور میڈیا پر منفی باتیں شروع کر دیں۔

کسی کرکٹر کے پاس تنقید کا جواب دینے کا ہتھیار گیند یا بیٹ ہوتا ہے، اگر آپ بیٹسمین ہیں تو اتنے رنز بنائیں کہ لوگ خود کہیں کہ اسے ٹیم میں ہونا چاہیے، اسی طرح بولر ہیں تو خوب وکٹیں لیں، اگر ماضی کے کارناموں پر ہی کسی کو کھلانا ہے تو مصباح الحق اور شاہد آفریدی کو بھی واپس لے آئیں،ہر کسی کا اپنا وقت ہوتا ہے، عامر نے خود کو کھیل سے بڑا سمجھا تو گیند بھی ان سے خفا ہو گئی، بولنگ میں پہلے جیسی کاٹ نہ رہی اور وہ آہستہ آہستہ بہت پیچھے چلے گئے۔

رمیز راجہ سے ان کے اختلافات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں تھے ،ان کی جگہ جب نجم سیٹھی واپس پی سی بی میں آئے تو عامر کو آس ملی کہ شاید کم بیک کا موقع مل جائے کیونکہ پہلے بھی انھیں ٹیم میں دوبارہ لانے میں نجم سیٹھی کا اہم کردار تھا، البتہ اگر کارکردگی اچھی نہ ہو تو آپ صدر مملکت سے بھی سفارش کرا لیں نہیں کھیل سکتے، بدقسمتی سے عامر نے اپنی کارکردگی پر توجہ نہ دی، وہ پنجابی فلم کے کسی اداکار کی طرح بھڑکیں مارنے لگے، بابر اعظم کو پوری دنیا مانتی ہے۔

عامر کو یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ ’’ میرے لیے بابر بھی ویسے ہے جیسے کوئی ٹیل اینڈر کھیل رہا ہو‘‘ کپتان نے اس پر کوئی ردعمل نہیں دیا ان کی یہی خاصیت ہے لیکن پھر میچ میں جو کور ڈرائیو لگائے اس نے عامر کو خاموش کرا دیا پھر وہ اتنے غصے میں آ گئے کہ ایک موقع پر گیند اٹھا کر بابر کی طرف تھرو کر دی۔

اب وہ وقت آ گیا ہے جب شائقین بھی عامر سے روٹھ گئے، ان کے حق میں آوازیں نہیں اٹھتیں، عامر عامر کے نعرے نہیں سنائی دیتے، اس میں قصور بھی ان کا ہے، کاش وہ دوسرے موقع سے فائدہ اٹھاتے، اپنے قدم زمین پر رکھتے ،خود کو کھیل سے بڑا نہیں سمجھتے ،صرف بولنگ پر توجہ دیتے باتیں کم کرتے ،شاید پھر سلیکٹرز انھیں ٹیم کی نمائندگی کا موقع دینے کا سوچتے۔

آج میں سوشل میڈیا پر جب عامر کیخلاف تبصروں کی بھرمار دیکھتا ہوں تو افسوس بھی ہوتا ہے کہ کتنا زبردست ٹیلنٹ ضائع ہو گیا، اب بھی وقت ہے وہ منفی سوچ ترک کر کے کھیل پر توجہ دیں بولنگ میں پرانی والی کاٹ اور سوئنگ واپس لائیں، اتنی وکٹیں لیں کہ پی ایس ایل کے بہترین بولر کا ایوارڈ مل جائے، پھر دیکھتے ہیں کون ان کا راستہ روک پاتا ہے، فی الحال ان کیلیے ایک ہی مشورہ ہے ’’محنت کر حسد نہ کر‘‘۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔