چھ بیٹیاں

رانا محمد ذیشان  جمعـء 11 اپريل 2014
ہمیں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کی پیروی کرتے ہوئے بیٹی کوہمیشہ اللہ تعالی کی رحمت سمجھنا چاہئے۔ فوٹو: فائل

ہمیں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کی پیروی کرتے ہوئے بیٹی کوہمیشہ اللہ تعالی کی رحمت سمجھنا چاہئے۔ فوٹو: فائل

ہارون کے گھر بیٹیوں کی قطار تھی۔ ہر مرتبہ اس کو امید ہوتی کہ اب تو بیٹا پیدا ہوگا مگر ہر بار ایک نئی بیٹی اس کی امیدوں پر پانی پھیر دیتی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے ہاں یکے بعد دیگرے چھ بیٹیاں ہوگئیں۔

ایک بار پھر ہارون کی بیوی کے ہاں ولادت متوقع تھی۔ وہ ڈر رہا تھا کہ کہیں پھر لڑکی پیدا نہ ہو جائے۔ اسی شش و پنج میں  شیطان نے اس کو بہکا دیا۔ ہارون نے ارداہ کرلیا کہ اب بھی اگر لڑکی پیدا ہوئی تو وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے گا۔ بھلا اس میں ہارون کی بیوی کا کیا قصور یہ تو قدرت کا نظام ہے اور اس کے فیصلے بھی قدرت کے ہی ہاتھ میں ہیں۔

رات کو جب ہارون سویا تو اس نے عجیب وغریب خواب دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ قیامت برپا ہو چکی ہے اور اس کے گناہ بہت زیادہ ہیں جن کے سبب اس پر جہنم واجب ہوچکی ہے۔ لہٰذا فرشتوں نے اس کو پکڑا اور جہنم کی طرف لےگئے فرشتے جیسے ہی جہنم کے پہلے دروازے پر پہنچے تو دیکھا کہ اس کی پہلی بیٹی دروازے  پر کھڑی تھی جس نے اسے جہنم میں جانے سے روک دیا۔ فرشتے اسے لے کر دوسرے دروازے کی طرف چلے گئے وہاں اس کی دوسری بیٹی کھڑی تھی جو اس کے لئے آڑ بن گئی۔ اب وہ تیسرے دروازے پر اسے لے گئے وہاں تیسری لڑکی کھڑی تھی جو رکاو ٹ بن گئی۔ اس طرح فرشتے جس دروازے پر اس کو لے کر جاتے وہاں اس کی ایک بیٹی کھڑی ہوتی جو اس کا دفاع کرتی اور جہنم میں جانے سے روک دیتی۔ غرض یہ کہ فرشتے اسے جہنم کے چھ دروازوں پر لے کر گئے مگر ہر دروازے پر اس کی کوئی نہ کوئی بیٹی رکاوٹ بنتی چلی گئی۔

اب صرف ساتواں دروازہ باقی تھا فرشتے ہارون کو لے کر اس دروازے کی طرف چل دیئے۔ ہارون پر گھبراہٹ طاری ہوگئی اس نے سوچا کہ اس دروازے پر میرے لئے رکاوٹ کون بنے گا، میری تو صرف 6 بیٹیاں ہیں۔ جوں جوں ساتھواں دروازہ قریب آتا جارہا تھا ہارون کی حالت غیر  ہوتی جارہی تھی۔ اچانک ہی اسے احساس ہوا کہ اس کی اپنی بیوی کو ساتویں بیٹی کی پیدائش پر طلاق کی جو دھمکی دی وہ غلط ہے کاش شیطان اسے نہ بہکاتا اور وہ اپنی بیوی سے ایسی کوئی بات نہ کرتا۔ اسی  پریشانی اور خوف ودہشت کے عالم میں اس کی آنکھ کھل گئی اور اس نے رب العزت کے حضور اپنے ہاتھوں کو بلند کیا اور فورا اپنی غلطی کی معافی مانگی اور سچے دل سے ایک بار پھر بیٹی پیدا ہونے کی دعا کی۔

اے کاش! ہارون کی طرح تمام مسلمان یہ سمجھ لیتے کہ بیٹیاں بھی اللہ کی رحمت ہے اور اس کی پرورش پر اللہ تعالی کی جانب سے  جتنے انعامات کا وعدہ ہے اگر اسے معلوم ہو جائے تو دنیا کی تمام مشقتوں اور تمام عیبوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انسان ہمیشہ بیٹی کی پیدائش کی دعائیں مانگیں۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مر وی ہے سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا:۔ ”جس شخص کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں یا وہ دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں اور وہ ان کیساتھ احسان اورہمدردی کرے توان کی بدولت وہ جنت میں داخل ہوگا” (ترمذی)

ذرا غور کریں!

بیٹی کی تربیت پر کس قدر اچھے انعامات کا وعدہ کیا گیا ہے، یہ بھی حقیقت ہے کہ بیٹی بیٹے سے زیادہ فرمانبردار ہوتی ہے اور والدین کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرتی ہے۔ تو پھر اس نعمت عظمیٰ سے کیونکر کترانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ایک اور حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا “جس شخص کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں یا دو بیٹے یا دو بہنیں ہوں اور وہ انکے ساتھ حسن سلوک کرےاور ان کے حقوق کی ادائیگی میں اللہ سےڈرتا رہےتواس کی بدولت وہ اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل فرمائیںگے” (ترمذی)

ایک دفعہ ایک سائل نے سوال کیا اے پیغمبر! اگر کسی کی دو بیٹیاں ہوں تب بھی یہی فضیلت ہے؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  ہاں دو کا بھی یہی حکم ہے پھر کسی نے سوال کیا اگر ایک بیٹی ہو تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو ایک کی بھی اسی طرح پرورش کرے گا اس کیلئے بھی جنت ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اپنی بیٹیوں سے غایت درجہ محبت والفت تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی سفر پر جاتے یا آتے سب سے پہلے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ملتے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما  سے مروی ہے کہ “جس شخص کے کندھوں پر لڑکی کی پرورش کی ذمہ داری ڈال دی گئ تو وہ اس کو صبر وتحمل سے سرانجام دے۔ یہ لڑکی اس کے لئے عذاب جہنم سے آڑ بن جائے گی” (ترمذی

ہمیں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کی پیروی کرتے ہوئے بیٹی کوہمیشہ اللہ تعالی کی رحمت سمجھنا چاہئے۔ اور شیطان کے بہکاوے میں آئے بغیر ان کے ساتھ محبت اور شفقت کے ساتھ پیش آنا چاہئے تاکہ قیامت کے دن خدا کے سامنے شرمندگی سے بچ سکیں اور دنیا میں بھی لوگوں کے لائے ایک نئی مثال قائم کرسکیں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔