توہین عدالت ترمیمی بل 2012ء کی منظوری

ایکسپریس اردو  بدھ 11 جولائی 2012

قومی اسمبلی نے اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود توہین عدالت ترمیمی بل 2012کثرت رائے سے منظور کر لیا۔ وفاقی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے توہین عدالت ترمیمی بل اور 26 اپریل سے 19 جون تک کے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے اقدامات کو تحفظ دینے کا آرڈیننس پیش کیا۔ توہین عدالت ترمیمی بل 2012 پیش اور بعد ازاں منظور کیے جانے پر مسلم لیگ ن کے ارکان نے نو نو اور شیم شیم کے نعرے لگائے، اخباری اطلاعات کے مطابق ن لیگ نے اس موقعے پر ہنگامہ آرائی بھی کی۔

اس بل کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی یا چیئرمین سینیٹ اگر کسی رکن کے عدالت کے بارے میں ریمارکس کو حذف قرار دیتا ہے تو ان ریمارکس کو شہادت کے طور پر عدالت میں پیش نہیں کیا جا سکے گا۔ صدر، وزیر اعظم، وزراء اور گورنر توہین عدالت سے مستثنیٰ ہوں گے، ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہو گی، سپریم کورٹ کے توہین عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کی مدت 30 روز سے بڑھا کر 60 روز کر دی گئی۔ بل کے مسودے میں کہا گیا ہے کہ توہین عدالت کا نوٹس لینے والا جج اس کی سماعت کرنے والے بینچ کا حصہ نہیں ہو گا، کوئی شخص کسی جج کے بارے میں سچا بیان دیتا ہے‘ جو اس کی عدالتی سرگرمیوں کے بارے میں نہیں‘ تو وہ بیان توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آئے گا، عدالتی فیصلوں کے بارے میں مناسب الفاظ میں تبصرہ کرنا بھی توہین عدالت نہیں ہو گا۔

ایک اہم شق یہ بھی ہے کہ توہین عدالت کا کوئی فیصلہ یا عبوری حکم اس وقت تک حتمی تصور نہیں ہو گا جب تک اس کے خلاف اپیل اور نظرثانی کی درخواستوں پر حتمی فیصلہ نہیں آتا، توہین عدالت کے بل کے متن کے مطابق کسی جج کی عدالتی کارروائی سے ہٹ کر ان کے خلاف کوئی معاملہ آتا ہے تو وہ پوری عدالت کی ساکھ متاثر کرنا تصور نہیں ہو گا، انٹرا کورٹ حکم یا عبوری حکم کے خلاف اپیل سپریم کورٹ کے ملک میں موجود تمام ججوں پر مشتمل بڑا بنچ سنے گا، کسی فریق کی اپیل نصف ججوں نے سنی تو اس کے خلاف اپیل یا نظرثانی کی درخواست فل کورٹ کرے گا۔

اگرچہ کسی بل کی منظوری اور قانون سازی پارلیمنٹ کا حق بلکہ ذمے داری ہے اور یہ کہ اگر عوامی نمایندگان کی اکثریت کسی بل کے حق میں ووٹ دے دے تو وہ قانون کی شکل اختیار کر لیتا ہے لیکن اس ٹھوس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ پارلیمنٹ میں وضع کیے گئے قوانین کی تشریح کا حق سپریم کورٹ کا ہے۔ جو بل پیر کو منظور کیا گیا ہے اگر کوئی اسے عدالت میں چیلنج کر دیتا ہے تو اس کی تشریح بھی بالآخر عدالت نے ہی کرنا ہے اور اس کا کیا ردعمل ہو گا اس کے لیے زیادہ دن انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ اگرچہ بل کی منظوری کے بعد ایوان میں خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ یہ پارلیمنٹ کی بڑی کامیابی ہے،

ان کی جانب سے کوئی بدنیتی نہیں، وہ صرف جمہوریت کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں، ایوان کو مقتدر کرنا چاہتے ہیں، وہ عدلیہ کی عزت کرتے ہیں، ٹکرائو نہیں چاہتے تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جن حالات میں یہ ترمیمی بل پاس ہوا اس سے بعض حلقے یہ تاثر لے سکتے ہیں کہ اس ترمیم کا مقصد عدلیہ کے اختیارات کسی حد تک محدود کرنا ہے اور یہ بھی ممکن ہے اس کا مقصد کچھ افراد یا عہدوں کو تحفظ فراہم کرنا ہو‘ اس بل کے پس منظر میں حال ہی میں عدلیہ کی جانب سے سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دینے اور پھر اسی فرد جُرم کے تحت انھیں سزا سنائے اور نااہل قرار دیے جانے کا عمل بھی کارفرما ہو سکتا ہے۔ یاد رہے کہ سابق وزیر اعظم کو این آر او کیس کے فیصلے پر پوری طرح عمل درآمد نہ کرنے پر پہلے توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا گیا اور پھر سزا بھی دی گئی جو اگرچہ علامتی تھی لیکن اسی کے تحت انھیں بعد ازاں نااہل قرار دے دیا گیا۔

وہ معاملات جن کی وجہ سے سابق وزیر اعظم کو نااہل قرار دیا گیا انھیں کا سامنا موجودہ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو بھی ہے کیونکہ ان سے بھی سوئس حکام کو خط لکھنے کے حوالے سے باز پُرس کی جا رہی ہے۔ بعض حلقے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اس بل کی منظوری کا مقصد موجودہ وزیر اعظم کو نااہل ہونے سے بچانا بھی ہو سکتا ہے۔ کچھ بھی ہو بہرحال پارلیمنٹ کی اکثریت نے جو بل منظور کیا ہے وہ قانون بن چکا ہے۔ اس بل میں کئی باتیں مناسب بھی لگتی ہیں مثلاً قومی اسمبلی یا سینیٹ میں ارکان اسمبلی اگر کسی عدالتی فیصلے پر بات کرتے ہیں اور اسپیکر یا چیئرمین سینیٹ انھیں کارروائی سے حذف کرا دیتے ہیں تو ان حذف شدہ الفاظ کو توہین عدالت کے زمرے میں نہیں لایا جانا چاہیے۔

اسی طرح عدالتی فیصلوں پر مناسب رائے کو بھی توہین نہیں سمجھا جانا چاہیے البتہ صدر، وزیر اعظم، وزراء اور گورنرز کو توہین عدالت سے مستثنیٰ قرار دینے کا معاملہ ایسا ہے جس پر بحث ہو سکتی ہے۔ بہرحال توہین عدالت کے حوالے سے بل منظور ہو چکا ہے، آگے کیا ہو گا اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ یہ امر خوش آیند ہے کہ ادارے اپنے اپنے آئینی استحقاق کو استعمال کر رہے ہیں اور ایک دوسرے کے فیصلوں اور اقدامات پر ردعمل بھی آئینی دائرے میں رہ کر ہی دیا جا رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔