اب شادی ’’شاذ ہی‘‘ ہوگی

محمد عثمان جامعی  اتوار 26 فروری 2023
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

 اسحٰق ڈار عوام کے ساتھ وہ سلوک کر رہے ہیں کہ ہر شخص دھاڑیں مارمار کر رورہا ہے، سو ان کا نام اب اسحٰق دھاڑ مشہور ہورہا ہے، وہ جس طرح متوسط اور غریب طبقے کے پاکستانیوں کو دار پر چڑھانے کی ٹھان چکے ہیں۔

اس دیکھتے ہوئے مستقبل کا مؤرخ (اگر اس کے والدین بھوک اور منہگائی سے بچ کر اسے دنیا میں لانے کے قابل ہوسکے تو) انھیں ’’اسحٰق دار‘‘ بھی کہہ سکتا ہے۔ چند ماہ پہلے تک ایسا نہیں تھا، تب وہ اسحٰق ڈارلنگ تھے۔

خوابوں کا وہ شہزادہ تھے جو آکر سنڈریلا کی کایا کلپ کردیتا ہے، قوم کو انتظار تھا کہ ’’کوئی آئے گا لائے گا دل کا چین‘‘، ڈالر کے بارے میں خیال تھا کہ وہ ڈار صاحب کا پالتو لقا کبوتر ہے، جسے وہ ’’آآآ‘‘ کرکے بلائیں گے اور وہ غٹرغوں کرتا ان کے پیروں پر آگرے گا۔

کسی حد تک ایسا ہوا بھی، ڈالر کچھ نیچے آیا، شاید یہ دیکھنے کے لیے کہ اسحٰق ڈار بھائی آگئے ہیں یا نہیں، اور پھر اس نے دیکھا اور ’’تھا جس کا انتظار وہ شاہ کار آگیا‘‘ کہہ کر خوشی میں وہ اُڑان بھری کہ ساتھ ڈار صاحب کے ہاتھوں کے طوطے بھی اُڑ گئے اور عوام کی آس کا پنچھی بھی پُھر سے اُڑا اور اُڑتے اُڑتے دور اُفق میں ڈوب گیا۔ پھر تو ’’چیل اُڑی، کَوّا اُڑا‘‘ کا کھیل شروع ہوگیا ار ہر چیز کے پَر لگ گئے، پیٹرول، بجلی، گیس، اجناس، سبزی، گوشت دودھ۔۔۔ہر شئے پرواز کرکے عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوگئی۔

اور اب ڈار صاحب نے پیش کیا ہے مِنی بجٹ۔ درحقیقت ’’مِنی(mini) کہہ کر اس دیوہیکل اور بھاری بھرکم بجٹ کی توہین کی گئی ہے، اور لفظ mini کی روسیاہی ہوئی ہے، جس پر سنا ہے اس لفظ نے احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے،’’مِنی بدنام ہوا، ڈار۔۔۔لِنگ تیرے لیے۔‘‘

یوں تو اس منی بجٹ نے ہر شعبے پر بجلی گرائی ہے لیکن ستم یہ ہوا ہے کہ شادی بھی اس کی زد میں آئی ہے اور ہالز میں ہونے والی شادی کی تقریبات پر دس فی صد ٹیکس عاید کردینے کی ٹھان لی گئی ہے۔ ڈار صاحب کا یہ اقدام ہماری توقع کے عین مطابق ہے۔

ان سے بہتر کون جانتا ہوگا کہ شادی زندگی ہی نہیں سیاست اور کاروبار کے لیے کس قدر اہم ہے۔ یہ شادی ہی تو ہے جس کے طفیل کوئی دلہا بنتا ہے تو کوئی سالا، بہنوئی اور۔۔۔۔سمدھی۔۔۔بن جاتا ہے۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ شادی اتنی عظیم اور اہمیت کی حامل رسم ہے جو انسان کو سمدھی کے منصب پر فائز کرنے کا سبب بنتی ہے، اور پھر سمدھی بننے والا دھن سمیت جو چاہے بنائے چلا جاتا ہے، بس شرط یہ ہے کہ کوئی ’’سمدھی نواز‘‘ میسر آجائے، جو ’’شریف‘‘ بھی ہو۔

کاش علامہ اقبال مسلمانوں کو مردمومن بننے کے بجائے ’’مردِسمدھی‘‘ بننے کا مشورہ دیتے اور ’’وطن تمام ہے میراث مردِسمدھی کی‘‘ یا ’’سمدھی کی یہ پہچان کہ گُم اس میں ہیں املاک‘‘ جیسے شعر کہتے تو قوم میں یہ پیغام تیزی سے عام ہوتا اور نہ جانے کتنے مردِسمدھی پیدا ہوچکے ہوتے، لیکن اس پیغام تک رسائی کے لیے قوم کو علامہ اقبال کی ضرورت نہیں پڑی، ان کے بغیر ہی یہ قوم تک پہنچ گیا، اور اب یہ پیغام قوم پر اتنا کُھل چکا ہے کہ وہ سمدھی کو پیار سے ’’Ransomدھی‘‘ کہنے لگی ہے۔ جن کی اردو بہت کم زور ہے وہ بھی اب سمدھی کے معنی سمجھ چکے ہیں، چناں چہ وضاحت کی ضرورت نہیں، اگر سمدھی کا مطلب آپ اب بھی نہ سمجھیں تو یہ آپ کی ناقابل معافی ناسمجھی ہے۔

سمدھی کا ذکر تو یوں آگیا کہ ان دنوں ہر زبان پر یہی ذکر ہے، ورنہ بات ہورہی تھی شادی کی تقریبات پر ٹیکسوں کی۔

بات وہی ہے، کہ وزیرخزانہ کے خیال میں آدمی شادی کرتا ہے تو بچے ہوتے ہیں، بچے ہوتے ہیں تو ان کی شادی ہوتی ہے، اس طرح ہر شادی کا لازمی نتیجہ سمدھی ہونے کی صورت میں نکلتا ہے، تو ایسے ’’منافع بخش‘‘ رشتے پر ٹیس کیوں نہ لگایا جائے۔

ڈارصاحب کے ذاتی تجربے پر استوار اس منطق کی رو سے شادی ہی پر ٹیکس لگادینا چاہیے تھا، لیکن ان کی مہربانی کہ انھوں نے صرف شادی کی تقریب وہ بھی جو ہال میں منعقد ہو، پر ہی محصول لگانے کی تجویز پیش کی ہے۔

اس ٹیکس کی خبر کنواروں کے لیے قیامت سے کم نہیں، جو ہاتھ پیلے کرنے کا سوچ رہے تھے لیکن اب ان کے چہرے غصے سے لال ہیں۔ لیکن ہمارے جی دار اسحٰق ڈار کو کسی کی برہمی کی کیا پروا، وہ تو اتنے بہادر اور بے پروا ہیں کہ بہ قول خود آئی ایم ایک کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا اعلان کرچکے تھے۔

سینہ گزٹ کے ذریعے ہم تک خبر پہنچی ہے کہ وہ آئی ایم ایف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال بھی چکے تھے۔ انھیں یوں دیکھتے دیکھ کر آئی ایم ایف شرما گئی اور لجا کر ایک پُرانا گانا گانے لگی ’’آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا نہ کیجیے، سب دیکھتے ہیں آپ کو ایسا نہ کیجیے‘‘، لیکن ڈار صاحب باز نہ آئے۔

ان کا خیال تھا کہ جس طرح چائے میں چینی، سالن میں نمک اور قوم کا پیسہ جیب میں ڈل جائے تو پھر نکالا نہیں جاسکتا، اسی طرح اگر آنکھیں آنکھوں میں ڈال دی جائیں تو نکالی نہیں جاسکتیں، وہ یہ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ اگر نکالا تو آنکھیں احتجاج نہ کرنے لگیں کہ ’’کیوں نکالا۔‘‘ ان کی آنکھیں اب تک آئی ایم ایف کی آنکھوں میں ڈلی ہوتیں۔

وہ تو کہیں سے حکم، ہدایت یا مشورہ آیا کہ ’’میاں! کب تک آئی ایم ایف سے معاہدے کی نوید کی منتظر قوم سے آنکھیں چُراتے رہیں۔

ایسے ہی آنکھیں نکال لو جیسے خود ملک سے نکل گئے تھے، ورنہ ہم قوم سے آنکھیں ملانے کے بالکل بھی قابل نہ رہیں گے۔‘‘ تب کہیں جاکر ڈار صاحب نے آنکھیں نکالیں اور جھکالیں، پھر انھوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ آنکھیں اور پھر ہتھیار ڈال دینے کے سبب وزیرخزانہ ’’اسحٰق ڈال‘‘ بھی کہے جانے لگے ہیں۔

ڈار صاحب کی منصفانہ اور ’’حساب کتاب‘‘ کی فطرت نے گوارا نہ کیا کہ غیر کی آنکھوں میں آنکھیں اور اس کے سامنے ہتھیار ڈالے جائیں اور اپنوں کو بھلا ڈالا جائے، سو انھوں نے قوم پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا، غریبوں کو روند ڈالا اور عوام کے سامنے منی بجٹ کو ہضم کرانے کے لیے ’’اس سے عام آدمی متاثر نہیں ہوگا‘‘ کا چارا ڈالا۔ یہاں عام آدمی سے ان کی مُراد گھانا، موزمبیق، بھوٹان، زمبابوے، کیوبا وغیرہ کا عام آدمی ہے، جو یقیناً ان کے منی بجٹ سے ذرا بھی متاثر نہیں ہوگا۔

وزیرخزانہ نے منی بجٹ، دلاسے اور آسرے ہی نہیں دیے، انھوں نے عوام کو یہ مشورہ بھی دیا کہ وہ سادگی اپنائے۔۔۔ یہ دراصل ان کی اپنی سادگی ہے، جس کے بارے میں کہا گیا ہے’’اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا۔‘‘ پیارے بھائی! آپ نے عوام کے پاس عیش وعشرت کے لیے چھوڑا کیا ہے! حضور! ہمارے عوام تو اتنے ’’سادہ‘‘ ہیں کہ باربار ان سیاسی جماعتوں کو منتخب کرلیتے ہیں جو اس سادہ عوام کی جیب میں رکھے نوٹ کو بھی ’’ساڈا‘‘ سمجھتی ہیں، جیسے آپ اور آپ کی جماعت ’’ساڈا حق ایتھے رکھ‘‘ کی غیراعلانیہ پالیسی کے تحت کر رہی ہے۔

ہمیں یقین ہے کہ ہمارے زیرک وزیرخزانہ کی عوام نچوڑ مہم شادی کی تقریبات پر ٹیکس تک محدود نہیں رہے گی، بہت جلد آپ سُنیں گے کہ نکاح خواں کی فیس، نیوتے، سلامی، جوتا چھپائی، گاڑی رکوائی بھی ٹیکسوں کی زد میں آچکی ہیں۔ پھر اس ملک میں شادی شاذ ہی ہوا کرے گی، اور خدشہ ہے کہ ٹیکسوں کا مارا ہر کنوارہ اسحٰق ڈار کی جماعت کے لیے ’’قومی کنوارے‘‘ شیخ رشید کا روپ دھار لے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔