ابتدائی نصاب میں تبدیلی ناگزیر ہے

نسیم انجم  اتوار 13 اپريل 2014
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

لیجیے جناب پھر نصاب میں تبدیلی ہوگئی، محکمہ تعلیم نے پہلی سے چوتھی جماعت کا نصاب تبدیل کردیا۔ مذہبی و قومی شخصیات کی قلیل شمولیت نے بہت سے لوگوں کو مایوس کیا اور اس عمل کو بے انصافی قرار دیا۔ چونکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ مذہبی و قومی شخصیات میں کچھ صحابہ، علما، صوفی شعرا کو نصاب میں شامل کیا ہے جب کہ کچھ بے حد اہم اور معتبر ہستیاں شامل ہونے سے رہ گئیں جن کے بارے میں ہمارے طلبا کو معلومات ہونی چاہئیں، وہ ہی تعلیم و تربیت اس کی شخصیت کے عکس اور مزاج میں شامل ہوجاتی ہیں۔ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا مکی و مدنی دور، عدل، عفو و درگزر اور خلفائے راشدین میں سے پہلے اور دوسرے خلیفہ کو سرے سے نظرانداز کردیا گیا۔

آج کے دور میں سیاست و ریاست اور قوانین کے حوالے سے حضرت عمر فاروقؓ کا نظام حکومت ہم سب کے لیے مشعل راہ ہے، آپؓ کا انصاف بے مثال اور قابل تقلید ہے، اسی طرح حضرت ابوبکر صدیقؓ کی دینی خدمات، حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے محبت و الفت، ایثار و قربانی کی مثالیں کہیں نہیں ملتیں، ازواج مطہرات میں سے کسی بھی طاہرہ و عابدہ کو شامل نہیں کیا گیا، ان مطہرات کی پاکیزگی، پاک دامنی، شجاعت و جرأت معصوم بچیوں کے لیے نمونہ ہے، آج وہ جو پڑھیں گی اسی کے اثرات ان کے دل و دماغ میں محفوظ ہوجائیں گے اور وہ بھی حیا جیسی بیش بہا دولت کو اپنانے کی سعی کرنا اپنا فرض سمجھیں گی۔ تاریخ اسلام صحابیاتؓ کے کارناموں اور شجاعت جیسے جوہر سے مالا مال ہے۔ یہ صحابیات جنگوں میں حصہ لیتیں، زخمیوں کی تیمار داری کرتیں، کھانا بناتیں، صحابہ کرام کے واقعات اور قرآن کریم کے واقعات اور چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے صوفیائے کرام کے حالات زندگی، ان کی تخلیقات کا مختصراً ذکر چھوٹے چھوٹے اسباق کی شکل میں ضروری تھا۔

شاہ عبداللطیف بھٹائی اور سچل سرمست، شیخ سعدیؒ کی شاعری کے بجائے ان کی تبلیغ دین کے حوالے سے خدمات کو سراہا جانا چاہیے۔ ویسے بھی جب ہم کالج میں پڑھاتے ہیں تو طلبا عشقیہ شاعری پر کوئی نہ کوئی سوال ضرور کرتے ہیں اور ان کا ایک سوال یہ بھی ہوتا ہے کہ اس قسم کی شاعری کو نصاب میں شامل کرنے سے کیا فائدہ؟ یہی کہ ہم بھی عشق کی لذت کا مزہ چکھیں، لیکن اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو آپ لوگ ہمیں سزا دیتے ہیں کہ فلاں لڑکی کو کیوں دیکھا، اشارہ کیوں کیا؟ وغیرہ وغیرہ۔ اس وقت تو ہم انھیں عشق حقیقی و عشق مجازی اور اس کے فوائد و نقصانات بتا کر مطمئن کردیتے ہیں۔ لیکن سوال معقول ہے، میر تقی میر، میر درد، غالب، آتش، سب ہی عشق کے سمندر میں غرق اور ہجر و وصال کے گیت الاپتے ہیں۔ اس قسم کے اسباق کی جگہ ان کے کارنامے اور ان کی زندگی کے اہم واقعات زیادہ اہمیت رکھتے ہیں اور طلبا شوق سے ان کے حالات زیست کو پڑھتے ہیں۔

میرا خیال ہے کہ شاعری کے حصے میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ شعرا قدیم کی یوں تو منقبت، سلام، نعت اور معاشرتی موضوعات پر بھی نظمیں مل جاتی ہیں لیکن محدود مقدار میں، گوکہ ملی و مذہبی شاعری طلبا کے اذہان میں تبدیلی پیدا کرتی ہے، اسی طرح 1965 اور 1971 کی جنگوں اور ان جنگوں میں شہدا کا احوال بھی جوش و جذبے کو بڑھاتا ہے۔ چھوٹی کلاسوں میں بھی اس قسم کے اسباق کو ضرور شامل کرنا ناگزیر ہے، تاکہ طلبا کا کردار پختہ اور قول و فعل میں تضاد پیدا نہ ہو۔ محض شہرت کی بنا پر شخصیات کو شامل نصاب کرنا درست نہیں ہے، ارفع کریم بے شک اس قابل تھیں کہ ان کے بارے میں طلبا معلومات حاصل کرسکیں۔ اﷲ نے انھیں چھوٹی سی عمر میں بڑا مرتبہ اور عزت عطا فرمائی تھی، وہ بلا کی ذہین تھیں، صرف 9 سال کی عمر میں وہ مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ ایپلی کیشن کی سند حاصل کرچکی تھیں۔

دوسرے اعلیٰ و معتبر حضرات کو بھی نصاب میں شامل کیا گیا لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ ان حضرات اور ان کے اداروں کو بھی نصاب کا حصہ بنایا جاتا جن کی پوری زندگیاں خدمت خلق کرتے ہوئے بسر ہوگئیں، جنھیں کبھی صلے کی تمنا نہ رہی، ان کا ہر کام اﷲ کی خوشنودی کے لیے کیا گیا اور کیا جا رہا ہے۔ ان ہی اچھے اور بڑے لوگوں میں ڈاکٹر ادیب رضوی، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، چھیپا، سیلانی ویلفیئر وغیرہ جو بھوکوں کے لیے کھانا اور بے روزگار لوگوں کے لیے روزگار مہیا کرتے ہیں۔ ادیب رضوی لالچ و طمع سے آزاد ہوکر مفت علاج کرتے ہیں۔ عبدالستار ایدھی کا نصاب میں شامل ہونا بے حد خوشی کی بات ہے۔ ان کی پوری حیات مخلوق خدا کے دکھ درد بانٹنے، علاج و معالجہ کرانے اور دوسرے بے شمار کام جن سے پوری دنیا واقف ہے، کرتے ہوئے گزر گئی۔

ابتدائی نصاب میں جن موضوعات کی ضرورت ہے ان سے ہمارا محکمہ ہمیشہ ہی غافل رہا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون سے موضوعات ہیں جن کی فی زمانہ زیادہ ضرورت ہے۔ تو جواب اس کا یہ ہے کہ عربی و فارسی وہ زبانیں ہیں جن میں مختلف علوم کا خزانہ موجود ہے، قرآن پاک کی زبان عربی ہے اور عربی میں ہی نازل ہوا۔ قرآن پاک پڑھانے کا اہتمام ہر گھرانے میں کیا جاتا ہے اور بچے نہ کہ قرآن کریم پڑھتے ہیں بلکہ پورا کلام پاک حفظ کرلیتے ہیں، اسی طرح سینہ بہ سینہ قرآن پاک کی حفاظت کا انتظام تا قیامت اﷲ تعالیٰ نے خود کیا ہے، تلاوت کرنے والے قاری کو قرآن پاک کی آیات کا ترجمہ نہیں معلوم؟ جب عربی الفاظ کے معنی و مفاہیم کا پتہ نہیں تو پھر اس بات کا پتہ نہیں چلتا کہ ہم کیا پڑھ رہے ہیں؟ اﷲ کے احکامات کن کن کاموں کے لیے ہیں؟ گناہ ثواب کن اعمال کے تحت ملتا ہے۔

مندرجہ بالا دلائل سے اس بات کا اندازہ اچھی طرح ہوجاتا ہے کہ عربی تعلیم کی اشد ضرورت ہے۔ آج ہمارے ملک میں اس قدر غارت گری ہے، احترام والدین، رشتے داروں کے حقوق سے غفلت، دینی تعلیم سے بے توجہی کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح فارسی زبان بھی بڑی شیریں اور میٹھی زبان ہے، علامہ اقبال اور مرزا اسد اﷲ خان غالب اور دوسرے قدیم شعرا فارسی زبان میں ہی اشعار کہا کرتے تھے، پھر وقت کی ضرورت کے تحت اردو لب و لہجہ اپنایا گیا۔

پاکستان میں بے شمار عقائد کے لوگ موجود ہیں، مسلمانوں میں بھی بہت سے فرقے ہیں، لہٰذا نصاب معاشرتی ضرورتوں اور مذہبی عقیدوں کے تحت بنانا چاہیے تاکہ طلبا کی معلومات میں اضافے کا باعث ہو، لسانی و مذہبی تعصب اور غیر ملکیوں کے احکامات و مرضی کا دخل نہ ہونا سماجی نفرت کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔