عوام کی موت…

شیریں حیدر  اتوار 13 اپريل 2014
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

سب یہ سوچ سوچ کر پریشان تھے کہ کیا سابق صدر پرویز مشر ف کی عدالت میں حاضری ہو گی… ممکن ہے کہ انھیں عدالت میں پیش ہونے سے قبل ہی!!!  زیادہ توقع یہی تھی کہ انھیں عدالت میں پیش ہی نہیں کیا جائے گا، اگر عدالت نے اصرار کیا تو کسی دوسری قوت کو انھیں بچانے کے لیے میدان میں کودنا ہو گا؟ ہماری پریشانی یہ تھی کہ متوقع تاریخ کو کام پر جانے کے کیا حالات ہوں گے… مگر کام پر جا کر یہ خوف تھا کہ واپس جانے تک جانے شہر کے کیا حالات ہو چکے ہوں گے۔ سارے خدشات بے بنیاد ثابت ہوئے… واپسی پر ریڈیو آن کیا تو خبروں سے علم ہوا کہ سابق صدر نہ صرف عدالت میں پیش ہوئے بلکہ اسی روز وہ چک شہزاد میں واقع اپنے فارم ہاؤس میں منتقل بھی ہوئے اور دوستوں کے لیے ایک بہت بڑے عشائیے کا اہتمام بھی کیا گیا۔ گویا ملک سے ان کے باہر جانے کے سارے جواز ان کی عدالت میں پیشی کے ساتھ ہی دم توڑ گئے… نہ ان کی اپنی حالت نازک رہی نہ ان کی والدہء محترمہ کی… اس سارے سلسلے کے بعد کی hot gossip کا اس کالم سے کوئی تعلق نہیں۔

سوچا تھا کہ اب فقط چین کی بنسی بجے گی، کوئی مسئلہ اس ملک میں نہ رہا تھا کہ جس ایک مسئلے نے سارے چینلز کو ’’سر گرم‘‘ رکھا ہوا تھا، اس کی جھاگ بیٹھ گئی تھی۔ راوی چین لکھ رہا تھا، چینل مایوس سے ہو گئے تھے اور ’’بریکنگ نیوز‘‘ ختم ہو گئی تھیں… سکون کے چار دن بھی نہ گزرے اور دھماکوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا، چینل جاگ گئے اور ہمارے دلوں کا سکون سو گیا۔ پے در پے ہونے والوں دھماکوں نے کتنے ہی گھروں کے چراغ بجھا دیے ہیں، کتنے گھروں میں صف ماتم بچھ گئی ہے… طالبان سے ہونے والے مذاکرات بے نتیجہ ہیں تو اس کے نتیجے میں دھماکے شروع ہو گئے ہیںکیا یا پھر کوئی دوسری قوتیں سر گرم ہو گئی ہیں؟ ہر دھماکے کے نتیجے میں ذمے داری قبول کرنے کو نئی نئی تنظیمیں میدان میں کود پڑتی ہیں… وہ کہ جن کا کبھی نام بھی کسی نے نہ سنا ہو۔

ہم میں اپنے اصل دشمن کو جاننے اور پہچاننے کی صلاحیت ہونی چاہیے…  ان دھماکوں کے بعد نہ صرف وفاقی دارالحکومت کی حفاظت کا حصار بڑھا دیا گیا ہے بلکہ بالخصوص عبادت گاہوں، گیسٹ ہاؤسز، بازاروں اور تعلیمی اداروں پر حملوں کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے… آپ ہی بتائیں کہ ماسوا گھر میں محصور ہو جانے کے اورکیا چارہ ہے؟ ہم گھروں سے اور نکلتے ہی کس لیے ہیں!!! نہ کوئی سبزی منڈی محفوظ ہے، نہ ٹرین، نہ بس… ہم سب بظاہر صحت مند،  خوش اور ہٹے کٹے نظر آنے والے لوگ… اندر سے کس طرح کھوکھلے ہو چکے ہیں، ہم خوف کو ہر سانس میں اپنے اندر اتارتے ہیں،  انہونی کا دھڑکا ہر وقت لگا رہتا ہے… مارکیٹ میں غلطی سے بھی کسی کا کندھا چھو جائے تو لگتا ہے کہ اگلے لمحے وہ ہم سے بیگ چھین کر بھاگ جانے والا ہے… کسی سگنل پر گاڑی پارک کی ہوئی ہو یا گاڑی حرکت میں ہو،  کوئی موٹر سائیکل سوارانتہائی قریب آ کر کھڑا ہو جائے تو لگتا ہے کہ اب وہ گن نکال کر ہم پر تان لے گا… کوئی غور سے دیکھے تو سوچتے ہیں کہ جانے کس بد نیتی سے گھور رہا ہے۔ یہ سب خالی خولی گمان ہیں نہ وہم، یہ سب وہ ہے جو ہمارے ارد گرد ہو رہا ہے اور ہم اس کے بارے میں سنتے اور پڑھتے ہیں، ہم پر یہ سب گزرا نہیں ہوتا مگر ہم اس سوچ کو ذہن سے نہیں نکال سکتے ہیں کہ اگلا ٹارگٹ ہم بھی ہو سکتے ہیں۔

چند برس قبل تک گھر میں تنہا رہنا ایسا مشکل نہ لگتا تھا… صاحب کی ملازمت کی نوعیت ایسی تھی کہ چھوٹے بچوں کا ساتھ اور کئی کئی ماہ گھر پر تنہا رہنا پڑتا تھا، مگر اب… پتا بھی کھڑکتا ہے تو دل سیکڑوں میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دھڑکنے لگتا ہے… کیونکہ اب خوف سے آشنائی ہو گئی ہے، سن سن کر اور دیکھ دیکھ کر معلوم ہو گیا ہے کہ اس ملک میں اب انسانیت ناپید ہوتی جا رہی ہے، مجرم اور قاتل دندناتے پھر رہے ہیں، کسی کو پکڑے جانے کا خوف ہے نہ سزا کا کوئی ڈر، اعلی ترین عدالتوں کے جج بھی سوائے ’’سوؤ موٹو ایکشن‘‘ لینے کے اور کچھ نہیں کر پاتے۔ عام آدمی تو بے بس، بے اختیار اور مجبور ہے، عدالتوں سے انصاف پانے کے لیے عمر بھر دوڑتا رہتا ہے اور اسی امید میں مر جاتا ہے، مگر یہاں آج تک کسی بڑے سے بڑے مجرم کو سزا نہیں دی جا سکی، خواہ اس نے تیزاب میں ڈال کر سیکڑوں بچے مار دیے ہوں، کوئی درجنوں عورتوں کا قاتل ہو، کسی نے بھرے مجمع میں کسی بے گناہ لڑکی پر کتے اسے بھنبوڑنے کے لیے چھوڑ دیے ہوں، کسی نے سیکڑوں کے مجمعے اور پولیس کی موجودگی میں دو سگے بھائیوں کو سڑک پر تشدد کر کے موت کی آغوش میں پہنچا دیا ہو…

عام آدمی تو یوں بھی ہمارے حکمرانوں کی نظر میں کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے… جیسے کہ ایک لطیفہ ہے کہ کہیں ایک مجمع دائرے کی شکل میں جمع تھا، ایک بوڑھی خاتون کو بھی تجسس ہوا یہ جاننے کے لیے کہ لوگ کیا دیکھ رہے تھے، اس نے ایک طرف سے دائرے میں گھسنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی، کسی سے پوچھا کہ لوگ کیوں جمع تھے، جواب ملا حادثہ ہوا ہے… ویگن اور تانگے کی ٹکر ہوئی ہے۔ ’’اوہو…‘‘ اس نے تاسف سے کہا، ’’کوئی نقصان تو نہیں ہوا‘‘ ’’جی ایک موت ہو گئی ہے…‘‘ بتانے والے نے بتایا۔ ’’کون مرا ہے؟‘‘ خاتون نے پوچھا۔ ’’تانگے والا مر گیا ہے جی!‘‘ بتانے والے نے بتایا۔ ’’شکر ہے…‘‘ خاتون نے سکھ کی سانس لی، ’’میں سمجھی کہ کوئی بندہ مر گیا ہے…‘‘

سو ہم عام لوگ تو بندے بھی نہیں ہیں… ہم خود کو over estimate  بھی نہیں کرتے مگر یہاں تو حکمرانوں اور سابق حکمرانوں کے قاتل بھی آج تک نہیں مل سکے۔ ایک سابق صدر حال ہی میں پانچ سالہ اقتدار کے مزے لوٹ کر فارغ ہوئے ہیں… اقتدار کی کرسی کے حصول کے لیے انھوں نے جس شہید کے قاتلوں کو گرفتار کرنے کے لیے نعرہ لگا کر ووٹ حاصل کیے، اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں وہ کچھ بھی نہ کر سکے… یا کچھ کرنا ہی نہ چاہتے تھے۔ اپنا وقت خاموشی سے چین کی بنسری بجاتے گزار گئے، انھوں نے کبھی یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ ان کے عوام کس طرح جیتے ہیں، کیا کھاتے ہیں اور کیا پیتے ہیں… ان کے جانے کے لیے لوگ جھولیاں پھیلا پھیلا کر دعائیں کر رہے تھے… ان کی ساری امیدیں شریف برادران سے وابستہ تھیں، اب ان امیدوں کی جھاگ بھی بیٹھ گئی ہے۔

کچھ ووٹوں اور کچھ نوٹوں کی طاقت سے ہمارے ہاں الیکشن جیتے جاتے ہیں،  حکمران اپنے مفادات کی جنگ لڑتے، اپنے اکاؤنٹ بھرتے اور اپنے ہمنواؤں کو بھی موقع دیتے ہیں کہ وہ انتخابی مہم میں ہونے والے نقصانات کا ازالہ کر سکیں۔ ملک میں دھماکے ہو رہے ہوتے ہیں تو ہمارے حکمران غیر ممالک میں عشائیے اڑا رہے ہوتے ہیں، آج تک کسی محکمے کے انچارج تک نے اپنی نااہلی یا بری کارکردگی کی بنا پر استعفی نہیں دیا۔ دنیا بھر میں سیریں سپاٹے کرتے ہیں مگر ہمارے کسی وزیر، مشیر یا سفیر کا دل نہیں چاہتا کہ اس ملک کی فلاح کے لیے کوئی منصوبہ ان ملکوں سے سیکھ کر ہی شروع کروا دیں۔

حکومت بے بس نظر آتی ہے اور دھماکے رکوانے میں نا کام… اب حالیہ دھماکوں کے بعد جن خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے اس کے مطابق تو کوئی جگہ محفوظ نہیں۔ حکومت یہ حکم تو جاری کر سکتی ہے کہ کوئی کاروبار چلے نہ کوئی تعلیم ادارہ کھلے نہ کوئی بازار جائے، نہ کوئی عبادت کی خاطر گھر سے نکلے۔ ایک سوال دل میں ان کے لیے اٹھتا ہے جو کہ دھماکے کرتے ہیں یا کسی بنا پر دھماکے کی ذمے داری قبول کر تے ہیں… اختلاف تو آپ کو حکومت سے ہے، عام آدمی کو نشانہ بنا کر آپ ان گھروں پر قیامت توڑتے ہیں جو پہلے ہی بے موت مرے ہوئے ہیں، غم غربت اور فاقہ کشی نے انھیں نڈھال کر رکھا ہے… ان گھروں کے چراغ بجھا دیتے ہو جہاں غربت کے باعث کئی کئی دن تک چولہے ٹھنڈے پڑے رہتے ہیں… ایک دھماکا ایسی جگہ ہو جہاں سے کسی سرکردہ کو ذرا سی گزند بھی پہنچے تو… شاید آپ لوگوں کے وہ مسائل حل ہو جائیں جنھیں عوام کی موت سے حاصل نہیں کیا جا سکتا!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔