شیخ چلی کے خواب

عبدالقادر حسن  اتوار 13 اپريل 2014
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ادھر چند دنوں سے کسی حد تک ہماری تاریخ ایک دفعہ پھر دہرائی جا رہی ہے۔ فوج اور سیاسی حکومت کے درمیان بلاوجہ یکایک زبانی کلامی تنازع شروع ہو گیا ہے اور قوم کو مارشل لاء کا خطرہ دکھائی دینے لگا ہے۔ چار مارشل لاء ہم دیکھ چکے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ہماری قومی زندگی کا زیادہ عرصہ مارشل لاؤں میں گزرا ہے اس لیے ایک آدھ مارشل لاء مزید بھی آ گیا تو کیا فرق پڑتا ہے۔ مارشل لاء بالعموم سیاستدانوں کی حکومت ختم کر کے آیا کرتا ہے کیونکہ ہمارے سیاستدان آج تک کبھی ایسی عوامی حکومت قائم نہیں کر سکے جو مارشل لاء کی مزاحمت کر سکے بلکہ یوں لگتا ہے کہ سیاستدان کسی فوجی حکومت کے لیے الٹے بیتاب رہتے ہیں اور جب فوجی حکمراں آتا ہے تو اس کے گرد ہجوم کر لیتے ہیں اور اپنی سپردگی سے اسے تنہائی محسوس نہیں ہونے دیتے۔

میں کئی ایسے سینئر سیاستدانوں کو جانتا ہوں جنھوں نے مارشل لاء کے نفاذ پر خود مجھ سے پوچھا کہ کیا یہ ہمیں بھی پوچھیں گے۔ میرا فوری جواب تھا کہ آپ کو نہیں پوچھیں گے تو کس کو پوچھیں گے۔ ان کی پلٹن تو آپ پر ہی مشتمل ہو گی۔ حالیہ بحث و تمحیص میں ہمارے جنرل صاحب نے اگرچہ کوئی خطرناک عندیہ نہیں دیا صرف فوج کی عزت کرنے کی نصیحت کی ہے لیکن انھوں نے خلاف توقع جو کچھ کہا، کیا اس کی کوئی ضرورت تھی۔ دوسری طرف سے ہمارے نوخیز یا برخود غلط وزراء نے فوج پر نہ جانے کس بات کا غصہ اتارا لیکن یہ مسئلہ بنیادی طور پر میاں صاحب کا ہے۔ جلد بازی میں انھوں نے سابقہ فوجی حکمران کے خلاف جو کارروائی کی تھی اس کی طویل سزا وہ بھگت چکے ہیں۔ ان سے گزارش ہے کہ وہ اب صبر و تحمل سے کام لیں۔

کسی مارشل لاء سے صرف کسی کی حکومت ہی نہیں جاتی قوم کا بھی بہت کچھ جاتا ہے جس کا ازالہ کرنے کے لیے ہمارے پاس دانش اور حکمت والی قیادت موجود نہیں ہے۔ جہانبانی مشکل ترین فن ہے۔ اپنے جیسے انسانوں کو قابو کرنا اور ان کی رہنمائی کے اسرار و رموز کوئی ابن خلدون سے پوچھے جو اس انسانی شعبے کے پہلے مسلّم عالم اور فلاسفر تھے۔ انھوں نے اپنی شہرہ آفاق کتاب مقدمہ ابن خلدون میں انسانی مزاج، نفسیات اور تاریخ کی روشنی میں جہانبانی کا جائزہ لیا ہے لیکن ہمارے عہد کے حکمرانوں کے لیے یہ سب بے کار ہے۔ اتنی مشقت وہ نہیں کر سکتے لیکن انھیں ایک لمحہ کے لیے بھی یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ان کے علاقے میں شیر موجود ہے اور آخری فیصلہ اسے ہی کرنا ہے۔ بادشاہ یہی ہے۔

فوجی حکومت ہماری زندگی کا ایک معمول ہے اور اس حکومت کو کامیاب کرنے میں ہمارے سیاست دانوں کا ہاتھ رہا ہے۔ پہلا مارشل لاء ایوب خان نے لگایا تھا۔ شروع میں تو انھوں نے اپنے لشکر کے ساتھ کامیاب حکومت چلانے کا فیصلہ کیا لیکن وہ وقت جلد ہی آ گیا جب انھوں نے مسلم لیگ بنا لی جسے کنونشن لیگ کہا گیا۔ دل ماننے کو نہیں چاہتا مگر ایوب خان کی پہلی کابینہ میں قائداعظم کی مرکزی مجلس عاملہ کے زندہ ارکان کی بھاری تعداد شامل تھی۔ بڑے بڑے نامور تاریخی مسلم لیگی فوجی ایوب خان کے وزیر تھے اس کے بعد کے مارشل لاؤٓں میں معیار مزید گر گیا اور ہما شما قسم کے سیاست دان بھی فوجیوں کی حکومتوں کا سہارا بنتے رہے۔

ایوب خان کی کنونشن لیگ کے مقابلے میں بنی کونسل مسلم لیگ جس کی سرپرستی مادر ملت کے پاس تھی اور عملاً ممتاز محمد خان دولتانہ اس کے سربراہ تھے اس میں بہت بہتر قسم کے مسلم لیگی شامل تھے۔ ان پرانی باتوں کے ذکر کی وجہ یہ ہے کہ آپ کو فوجی حکومتوں کی ساخت کا اندازہ ہو سکے کہ وہ کتنی فوجی اور کتنی سویلین تھیں۔ موجودہ سیاسی منتخب حکومت سے گزارش ہے کہ وہ اپنی حکومت کو سنجیدگی سے لیں۔ وزیر اعظم قومی اسمبلی کے اجلاس میں شاذ و نادر ہی جاتے ہیں اور سینیٹ کے اجلاس میں تو وہ سرے سے کبھی گئے ہی نہیں۔ قوم ایسے لاپروا حکمرانوں کو کیسے سنجیدگی سے لے سکتی ہے اور ان کی حکومت بچانے کے لیے وہ کیا قربانی دے سکتی ہے جس حکومت کے وزیر اعظم اپنے منتخب اداروں میں نہیں جاتے یعنی انھیں کوئی اہمیت نہیں دیتے ان کے اقتدار کے لیے ان کے ووٹر کیا کر سکتے ہیں سوائے دعائے خیر کے اور بعد میں مغفرت کے۔

ہم ایک جمہوری دنیا میں رہتے ہیں۔ ہمارے پڑوس میں الیکشن ہو رہے ہیں اور کروڑوں لوگ ووٹر ہیں۔ خود افغانستان جیسے بے چین ملک میں بھی الیکشن کا سلسلہ جاری ہے۔ ہمارے ہاں جب جمہوریت ختم ہوتی ہے تو ہم دنیا بھر میں نکو بن جاتے ہیں۔ بے شمار قدرتی وسائل کے باوجود ہم دنیا بھر میں کشکول لیے پھرتے ہیں اور جب کہیں سے قرض ملتا ہے تو ہماری بے حیائی کا یہ حال ہے کہ ہم اس کا جشن مناتے ہیں جیسے کوئی بڑا معرکہ مار لیا ہے۔ ہماری معاشی زندگی تباہی کا منظر پیش کرتی ہے۔ دنیا کا بڑا نہری نظام رکھنے کے باوجود غلہ سستا نہیں ہوتا۔ پاکستانیوں کا دست محنت دنیا بھر میں مشہور ہے۔ ہمارے محنت کشوں نے عرب دنیا کے ریگزاروں کو سبزہ زار بنا دیا ہے اور ہمارے بچے دنیا کے تعلیمی ریکارڈ قائم کرتے ہیں۔ ہماری فوج بہترین فوج ہے اور ہم ایٹمی طاقت بھی ہیں اور یہ ایٹمی صلاحیت ہم نے اپنی ہنرمندی اور ذہانت سے حاصل کی ہے کہیں سے مانگی نہیں۔

ہم دفاعی لحاظ سے اپنے خطے میں ڈٹ کر رہتے ہیں اور بھارت سے خوفزدہ اس کے پڑوسی ممالک پاکستان پر بھروسہ کرتے ہیں اور اس میں اپنا تحفظ سمجھتے ہیں۔ حالات کو بغور دیکھیں تو کچھ سمجھ نہیں آتا کہ ہماری ایسی حالت کیوں ہے جس پر ہم خود نالاں ہیں اور پریشان ہیں۔ اس کے جتنے اسباب بھی ہیں ان میں سب سے بڑا سبب ہمارے حکمران ہیں۔ اشرافیہ کا رونا ہم سب روتے ہیں بلکہ میں تو طبقہ اشرافیہ کو بدمعاشیہ کہتا ہوں۔ یہ لٹیروں کا طبقہ ہے جو اپنی روز افزوں دولت کی وجہ سے حکومت حاصل کرتا ہے اور ہم پر حکمرانی کرتا ہے۔ حکمرانی نہیں کرتا ہمیں لوٹتا ہے۔ اب تو اس کی لوٹ کھسوٹ کوئی راز نہیں رہی۔ دنیا کے بینک ہماری لوٹی گئی قومی دولت سے بھرے ہوئے ہیں۔ کبھی کبھی تو جی چاہتا ہے کہ کوئی ایسا مارشل لاء لگے جس کا حکمران اس لوٹ کھسوٹ کو ضبط کر لے۔ لیکن یہ سب شیخ چلی کے خواب ہیں۔ زندگی حسب سابق ان ہی خوابوں اور آرزووٓں میں گزر جائے گی۔

لیکن حکمرانوں سے عرض ہے کہ وہ فوج کو بلاوجہ برہم نہ کریں۔ اس میں قوم کا یا اس کے حکمرانوں کا کوئی فائدہ نہیں۔ صبر اور حکمت عملی ہی مناسب ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔