اپنے گریبان میں جھانکیے

رئیس فاطمہ  اتوار 13 اپريل 2014

سچائی کے لیے ہمیشہ دو گروہوں کی ضرورت ہوتی ہے، ایک وہ جو سچ کہے، اور دوسرا وہ جو سچ سنے۔ اگر سچ سننے والے نہ ہونگے تو سچ بولنے کا کیا فائدہ؟ لیکن سچ سننا اور ہضم کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ سچی بات آدھی لڑائی ہوتی ہے حتیٰ کہ اندھے کو بھی اگر اندھا کہہ دو تو وہ برا مان جاتا ہے۔ وہ جو ایک کہاوت ہے کہ ’’نوکرانی کو نوکرانی کہا تو برا مان گئی، رانی کہا تو خوش ہو گئی‘‘۔

تو مجھے بصد ادب کہنے دیجیے کہ گزشتہ کئی سال سے پاکستان کا سیاسی، سماجی، ادبی اور مذہبی منظرنامہ یہی ہے کہ جھوٹ بولو، خوشامد کرو، جب تک اقتدار میں رہو پارٹی لیڈر کو فرشتہ ثابت کرو تا کہ مہنگی وزارتیں مل سکیں۔ جب جی چاہے عسکری قوتوں کو سلامی دو، جنرلوں کی لگائی ہوئی پنیریوں میں اپنا مستقبل محفوظ بناؤ، جب چاہو بِلّوں کو دودھ جلیبی اور ملائی پیش کرو، ان کا جھوٹن کھانا باعث اعزاز سمجھو اور جب چاہو ملی بھگت سے دودھ ملائی کا کونڈا گھسیٹ کر باری باری خود کھانا شروع کر دو۔ٹھیک ہے، سچ سننا بہت کٹھن ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ سچ لکھنا اور اس کا شایع ہونا مشکل ہے کہ سچ کہنے والا اکیلا رہ جاتا ہے۔

اسے لوگ بیوقوف کہتے ہیں کیونکہ وہ ذاتی فائدے سے بلند ہو کر دیکھتا ہے۔ آج کل ہمارے ہاں جمہوریت، جمہوریت کی ڈگڈگی بہت بجائی جا رہی ہے۔ اس ڈگڈگی کی تھاپ پر محو رقص عجیب لگ رہے ہیں۔ ساتھ ساتھ خوں خاں فوں فاں بھی کرتے جاتے تھے، منہ سے جھاگ بھی نکالتے نظر آتے ہیں۔ جس کے ہاتھ میں بدنصیبی سے کچھ عرصے کے لیے ڈگڈگی تھما دی گئی ہے وہ خود کو اس کا اصل مالک سمجھ بیٹھا ہے۔

لگے منہ چڑانے بھی دیتے دیتے گالیاں صاحب

زباں بگڑی تو بگڑی تھی، خبر لیجے دہن بگڑا

مسلمانوں کی تاریخ ملوکیت کے گرد گھومتی ہے، ترکی، اسپین، ہندوستان، عرب، مشرق وسطیٰ، مشرق بعید، خلیجی ریاستیں، عراق، ایران، مصر، شام ہر جگہ بادشاہت تھی۔ یہ بادشاہ آج بھی عوام کے سینوں پہ مونگ دَل کے تاج شاہی کی حفاظت کر رہے ہیں ۔ دنیا کی سپر پاور (جسے ہم نے اکلوتی سپر پاور بنایا ہے) ایک شاہی خاندان کے قدموں تلے بچھے ریڈ کارپٹ کی حفاظت کر رہا ہے۔ مزید یہ کہ کہیں یہ ریڈکارپٹ گھسیٹ نہ لیا جائے۔ اس کی نگہبانی کے لیے پاکستانی بادشاہوں سے چوکیدار مانگے جا رہے ہیں۔

پانی کو جس شکل میں ڈھالنا چاہیں، رہے گا وہ پانی ہی۔ خواہ اس کو مختلف سانچوں میں ڈال کر برف بنالیں، آئس کینڈی بنالیں یا خوش ذائقہ بنانے کے لیے مختلف پھلوں کے عرق شامل کر لیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ بادشاہوں نے ہمیشہ اپنی رعایا کا زیادہ خیال رکھا ہے۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اچھی حکمرانی ہی ان کے اقتدار کو طول دے سکتی ہے۔ شہنشاہ اکبر کو اکبر اعظم یا مغل اعظم کہنے کے لیے اس وقت کی کسی سپر پاور نے حکم نہیں دیا تھا۔ جہاں تک اسلام کے ابتدائی ایام کا ذکر ہے، وہ خلافت پہ مشتمل تھی۔ تمام اختیارات خلیفہ وقت کے پاس ہوتے تھے لیکن یہ وہ خلیفہ تھے جن کا دامن پکڑ کر ایک عام آدمی بھی سوال کر سکتا تھا کہ لباس کے لیے اضافی کپڑا کہاں سے آیا؟

دریائے فرات کے کنارے اگر ایک کتا بھی پیاسا ہے تو یہ خلیفہ وقت کی کوتاہی ہے ۔ چاروں خلفائے راشدین کے علاوہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کو بھی پانچواں خلیفہ راشد کہا جاتا ہے۔ کیونکہ انھوں نے بھی وہ ذمے داریاں پوری کیں جو ایک حکمران کی ہوتی ہیں۔ بعد میں جو بادشاہتیں آئیں اسلامی دنیا میں ان میں عیش و عشرت بھی شامل ہو گیا۔ شہزادے اور شہزادیوں کی داستانیں لکھی جانے لگیں۔ ہماری کلاسیکی داستانیں ان قصوں سے بھری ہیں۔ الف لیلہٰ کے قصے ہوں یا طلسم ہوش ربا، فسانہ عجائب ہو یا باغ و بہار۔ سب کے مرکزی کردار سلطان، ولی عہد، شہزادے، شہزادیاں اور جلاد۔ کیا آج کا منظرنامہ مختلف ہے؟

آج بھی شہزادیوں کے ناک، کان اور ٹانگوں کے درد کا علاج دنیا کے مہنگے ترین اور جدید اسپتالوں میں ہوتا ہے۔ شہزادے ملک سے باہر دولت جمع کر رہے ہیں۔ کچھ شہزادے اور شہزادیوں کے لیے 2018ء کے پھل دار درختوں کی کٹائی کے لیے ابھی سے بیج ڈالے جا رہے ہیں۔ کہ سب کچھ ویسا ہی ہے۔ باپ، بیٹا، بیٹی، نواسہ، پوتا، علیٰ ہٰذالقیاس اور پھر دعویٰ جمہوریت؟ آخر یہ جمہوریت ہے کیا؟ الزام ہے کہ آپ کا تو مزاج اور تاریخ ہی جمہوریت کی نفی کرتی ہے۔ ہم تو اس کے اہل ہیں ہی نہیں۔ یہ تو انگریزوں کی دی ہوئی وہ چھچھوندر ہے کہ اُگلے تو کوڑھی، نِگلے تو اندھا۔ سو فیصد تعلیم یافتہ، باشعور اور مہذب قومیں اس ورثے کی وارث بھی ہیں اور حقدار بھی۔ ناموں میں کیا رکھا ہے۔ فوجی حکومت ہو یا سویلین۔ عوام کو اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے ایک اچھا حاکم چاہیے ہوتا ہے۔ خواہ اس کا تعلق کہیں سے بھی ہو؟

وہ وردی میں ہو؟ شاہانہ لباس میں ہو؟ یا لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے تھری پیس سوٹ یا عوامی چولا بدن پہ چڑھا لیا ہو۔ سچ پوچھیے تو قیام پاکستان کے بعد اب تک پاکستانی فوج کا کردار سویلین حکمرانوں سے زیادہ بہتر رہا ہے۔ ہزار اختلافات اور غلطیوں کو فروغ دینے کے باوجود ایوب خان کا دور زرعی اور صنعتی ترقی کے لحاظ سے بہترین تھا۔ خوش قسمتی سے بہروپیوں کی ہزار کوششوں کے باوجود عام آدمی کے دل میں اپنے فوجی جوانوں کی عزت بہت زیادہ ہے۔ ذرا کمانڈوز کی سخت تربیت اور ان کے ناقابل یقین انتہائی خطرناک اور اہم کاموں سے اگر آپ تھوڑا سا بھی واقف ہوں تو سوچ کر لرزہ آ جائے۔ جس وقت ہم گرم کمروں میں لحافوں میں دبکے ہوئے نیند کے مزے لے رہے ہوتے ہیں اس وقت سیاچن پہ ہمارے بچے اور بھائی کیا کر رہے ہوتے ہیں۔ اذیت ناک سردی ہاتھ پیروں کی انگلیاں گلا دیتی ہے۔

سخت ٹریننگ اکثر ریڑھ کی ہڈی کے مہروں میں ایسی تکالیف پیدا کر دیتی ہے کہ تا زندگی معذوری میں گزر جاتی ہے۔ اگر وطن کی حفاظت کرنے والوں کو اضافی مراعات ملتی ہیں تو وہ اس کے حقدار بھی ہیں۔ آپ نے کیا کارنامہ انجام دیا، جو ہمیشہ کے لیے باری باری ملی بھگت سے بددیانتی، کرپشن اور بے ایمانی سے اپنے بچوں کے لیے اس سرزمین کو اپنی والدہ محترمہ کے جہیز میں ملی ہوئی زمین سمجھ کر ہڑپ کر لیا، کسی نے ابا جان کے ولیمے کا وہ شامیانہ سمجھ لیا جسے لپیٹ کر آنے والی نسلوں کو تحفظ عطا ہو، وہ سہرے، وہ صافے، وہ پگڑیاں، وہ شیروانیاں سب کچھ حفاظت سے سمیٹ لیا گیا تا کہ باری باری ٹھیکے پہ دیا جا سکے۔

بند کیجیے یہ ناٹک۔ اور تسلیم کیجیے کہ فوج وہ واحد ادارہ ہے جو قومی وحدت کا امین ہے۔ اگر موازنہ اور مقابلہ کیا جائے تو تعمیری کاموں اور معیشت کی بہتری میں فوجی حکومتوں کی کارکردگی زیادہ واضح اور بہتر نظر آتی ہے۔ صرف ڈالر ہی کو لے لیجیے۔ سابقہ فوجی حکومت میں ڈالر 60 روپے کا تھا۔ عوامی لباس والوں نے بیک جنبش ابرو اسے کہاں سے کہاں پہنچا دیا؟ یہ کوئی سربستہ راز نہیں رہا۔ غلطیاں سب سے ہوتی ہیں، کسی نے مذہبی منافرت اور انتہا پسندی کا بیج بویا، جو آج گھنا درخت بن چکا ہے۔ بے گناہ معصوم لوگ روزانہ کی بنیاد پر محض طاقت کے اظہار کے لیے مارے جا رہے ہیں۔ لیکن کیا اس کی ذمے دار صرف عسکری قیادت ہے۔ اگر سچ کہنے اور سچ لکھنے پہ زبانیں نہ کاٹ دی جائیں، تو موازنہ کر لیجیے۔

کس دور میں کرپشن زیادہ ہوئی؟ پاکستان کی دولت کن کن خفیہ طریقوں سے اپنے اپنے خاندانوں میں منتقل کی جا رہی ہے۔کیا یہ بادشاہی دور نہیں ہے۔ جب عوام کا پیسہ بیرونی دوروں، مہنگے اسپتالوں، نوادرات کی خریداری، محلات، لگژری فلیٹس، ایک چھوٹی سی دکان کس طرح ملک کی سب سے بڑی فیکٹری بن جاتی ہے۔ نیب، جج، مالی، اسکینڈل کے لیے چور دروازے فراہم کرنیوالوں کو کس طرح ان اداروں کا سربراہ بنا دیا جاتا ہے کہ وہ تمام تر کوشش صرف خود کو بنانے اور اپنے گاڈفادر کی درازی عمر کی دعائیں مانگتا گزار دیتا ہے۔ اداروں کے چیئرمین صرف خود کو بناتے ہیں اور پوری تندہی سے ان اداروں کو سفارش اور اقربا پروری سے تباہ بھی کرتے ہیں۔ پاکستانی فوج پر انگلیاں اٹھانے والے ذرا اپنے دامن کی طرف دیکھ لیں۔ اگر ایک انگلی عسکری قیادت پہ اٹھی ہے تو اسی ہاتھ کی باقی تین انگلیاں خود آپ کے گریبان کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔