ایئرپورٹ پر ایک شب

حمید احمد سیٹھی  اتوار 13 اپريل 2014
h.sethi@hotmail.com

[email protected]

رات ڈھل چکی تھی۔ رنگ برنگے بدرنگے سلوٹوں بھرے ڈھیلے ڈھالے کپڑے اور ہوائی چپلیں پہنے پندرہ بیس بدوضع مرد جن میں سے کئی ایک کی شیو بے ترتیبی سے بڑھی ہوئی تھی اور سر کے بال الجھے ہوئے تھے آپس میں ٹھٹھہ ہنسی مذاق اور بے ہنگم حرکات کرتے ہوئے ایک گروہ کی شکل میں صاف ستھری اور روشن عمارت کے برآمدے میں نصف دائرہ باندھے اس طرح داخل ہو رہے تھے جیسے کسی پنجابی فلم کا ڈکیت گینگ گھیرا ڈالتا ہے۔

وہ پرانے ہم پیشہ تھے اس لیے ان کا آپس میں بے تکلفی کا انداز بڑا لوفرانہ تھا۔ اگر انھیں ایک قطار میں کھڑا کر دیا جاتا تو وہ شناخت پریڈ کے ملزم معلوم ہوتے۔ ایک دو بار سیکیورٹی کے عملے نے انھیں گالیاں دے کر وہاں سے بھگا بھی دیا لیکن وہ پھر سے اکٹھے ہو گئے اور ٹرالیوں پر سامان کھینچتے مسافروں پر لپکنے لگے۔

مسافروں کو ایئرپورٹ سے لے جانے کے لیے عموماً ان کے رشتہ دار دوست اور کاروباری میزبان آئے ہوتے ہیں لیکن کئی مسافروں کو ٹیکسی درکار ہوتی ہے۔ کراچی کے بعد پاکستان کے دوسرے بڑے اور جدید علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ٹیکسی ڈرائیوروں کے ہاتھوں ملکی اور غیر ملکی مسافروں کا استقبال دیکھنے کی چیز ہے۔ ٹیکسی ڈرائیوروں کے اوپر بیان کردہ حلیے اور طریقہ ہائے واردات کے مناظر غیر ملکی پروازوں کی رات کو آمد و رفت کے دوران انتہائی شرمناک ہوتے ہیں۔

گزشتہ ماہ امریکا واپس جانے والے ایک دوست نے قومی ایئرلائن سے اپنا اضافی سامان ایک روز قبل بک کرانے کے لیے پانچ گھنٹے کی ریاضت اسی ایئرپورٹ کے کارگو آفس کے شیڈ تلے کھڑے ہو کر یوں کاٹی جیسے وہ لاری اڈہ پر کھڑا ہو۔ جانے کے تیسرے دن اس نے ٹیلیفون پر لاہور سے سامان بک کرانے اور وہاں وصول کرنے کی ایکسرسائز کا موازنہ پیش کیا تو میرا دل چاہا ٹیلیفون کا ریسور اپنے سر پر دے ماروں۔

کسی بھی غیر ملکی سیاح یا تاجر کا اپنے میزبان ملک سے تعارف ہوائی اڈے سے شروع ہوتا ہے۔ ہمارے جو افسر وزیر مشیر اور جرنیل یورپ امریکا مشرق وسطیٰ بلکہ افریقہ بھی جاتے رہتے ہیں واپسی پر سواری کا پیشگی بندوبست کیے بغیر ایک بار رات کی فلائیٹ سے تشریف لائیں اور پروٹوکول لیے بغیر عام مسافر کی حیثیت سے ٹیکسی کے ذریعے اپنے گھر پہنچنے کی ٹرائی لیں۔ وہ اگر رستے میں لٹے بغیر گھر پہنچ بھی گئے تو ٹیکسی ڈرائیوروں کی کھینچا تانی میں پھنس کر ان کے کپڑے پھٹ اور حلیے بگڑ چکے ہوں گے اور ان کے چہروں پر خوف اور وحشت کے سائے ہوں گے۔ آزمائش شرط ہے وہ گھر پہنچ کر شکرانے کے نفل ضرور پڑھیں گے۔

معمار پاکستان محمد علی جناح نے قوم کو اتحاد ایمان اور نظم و ضبط کا سبق پڑھانے کی کوشش کی تھی۔ اتحاد ابھی تک ذات برادری اور قومیت کی حراست میں ہے۔ ایمان کے حوالے سے اپنے اپنے ایمان کی حفاظت بذریعہ کلاشنکوف کرنے والوں کو ذہن میں رکھ کر شعر پڑھیئے۔

دیکھا ہے بت کدے میں جو اے شیخ کچھ نہ پوچھ

ایمان کی تو یہ ہے کہ ایمان تو گیا

باقی رہ گیا نظم و ضبط تو دیگ میں سے چاول کا دانہ چکھنے کے مترادف سڑک سے بہتر کہاں مشاہدہ ہو سکتا ہے جس پر لوگوں کی اکثریت دن کے دو تین گھنٹے گزارتی ہے۔ ہماری سڑکوں پر آپ کو جہاز کے علاوہ دنیا کی ہر سواری بیک وقت شانہ بشانہ چلتی ملے گی بلکہ اکثر اوقات فٹ پاتھ پر ریڑھیاں اور سڑک کے درمیان مشرق کی طرف منہ کیے قدموں سے مغرب کی جانب چہل قدمی کرتے ملیں گے۔ آپ ڈسپلن کے ذاتی مشاہدے کے لیے شہر کے معروف چوک سے قریب کسی بلند عمارت کی چھت پر کھڑے ہو کر سواروں اور سواریوں کی نقل و حرکت کا جائزہ لیجیے۔ لفظ ڈسپلن کو اپنے ذہن میں رکھ کر نظریں ریڈار کی طرح سڑک کے ایک سرے سے دوسرے کنارے کی طرف گھمائیے۔ کبھی ایک سوار اور کبھی دوسری سواری کو کچھ وقت کے لیے فوکس میں لا کر مووی کیمرے کی طرف دیکھیے۔

چند منٹ گزرنے کے بعد آپ کو اپنے سر سمیت ہر چیز گھومتی ہوئی محسوس ہو گی اور آپ کو شک گزرے گا کہ سڑک پر بلوہ ہو گیا ہے۔ یقین کیجیے موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلانے والا دس منٹ تک اس چھت پر سے نیچے جھانکتا رہے تو غش کھا کر گر پڑے گا۔

بانیٔ پاکستان کے دیے ہوئے تین اصول UNITY, FAITH, DISCIPLINE کتنے جامع ہیں۔ اگر کسی حکمران کا مینی فیسٹو، صرف یہی تین اقوال ہوں اور وہ ان پر اخلاص اور سختی کے ساتھ عمل درآمد کر گزرے تو اسے کوئی اور کارنامہ سرانجام دینے کی ضرورت ہی نہیں۔ لوگ اسے تاحیات صدارت کے منصب پر بٹھا دیں گے۔ یعنی وہی صدارت جس کی خاطر ہمارے بیشتر صدور نے ان اصولوں کا خون کیا ہے۔

جیسا کہ ابتدائی حصے میں ایئرپورٹ کی نصف شب کی منظر کشی کی گئی یہ قومی مزاج کی ایک تصویر تھی کہ ہم لوگوں کو پریشانی یا مشکل میں دیکھ کر ان کی مشکل کشائی کی بجائے انھیں نچوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انھیں بھٹکا ہوا پا کر رہنمائی کرنے کی بجائے انھیں بھول بھلیوں میں دھکیلنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہماری اکثر انٹرنیشنل فلائٹس نصف شب آتی یا جاتی ہیں۔ اگر کوئی مسافر ہوائی اڈے پر پریشان حال پایا جائے تو وہ ٹیکسی یا رکشہ ڈرائیوروں اور ان کے گرگوں کا قیمتی شکار ہوتا ہے۔ ہم بانی پاکستان کے فرمودات پس پشت ڈال کر ہر وقت شکار کی تلاش میں حقوق العباد کو تہس نہس کر کے درندگی کی راہ پر چل نکلے ہیں جو انسانیت کی نفی ہے اور یہ اس لیے کہ

فرشتے سے بہتر ہے انسان ہونا

مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔