فوج پر تنقید اور جدید حقائق

طلعت حسین  اتوار 13 اپريل 2014
www.facebook.com/syedtalathussain.official
twitter.com/talathussain12

www.facebook.com/syedtalathussain.official twitter.com/talathussain12

پاکستان میں حکومتوں اور ریاستی اداروں نے تنقید سے نپٹنے کے لیے تاریخی طور پر چند ایک روائتی اور اکا دکا جدید طریقوں پر انحصار کیا ہے۔ نقادوں کے منہ بند کرنے کی غرض سے رشوت اور لفافوں کا استعمال عام رہا ہے۔ نوکریاں، عہدے، ٹھیکے اور زمیں و مکان کو بروئے کار لاتے ہوئے بڑوں بڑوں کی بولتی بند کی جاتی رہی ہے۔ اس لائحہ عمل کا ایک پہلو معلومات کو بطور رشوت استعمال کرنے کا طریقہ کار ہے جسکے تحت خاص گروپوں کو اندر خانے نت نئی اطلاعات فراہم کر کے اُن کی خو شنودی حاصل کی جاتی ہے۔ کھانا اور پینا پلانا اس تمام عمل میں ہمیشہ اضافی لطف کے طور پر موجود رہتا ہے۔ اور اس کے لیے اکثر خاص اہتمام کیے جاتے ہیں۔ ریاستی ادارے اس طریقے کے ذریعے اپنے مقاصد کا حصول کرتے رہتے ہیں۔

اگرچہ اس کا صحیح، اصل اور مکمل استعمال سیاسی حکومتوں نے ہی کیا ہے۔ فوج، سویلین حکمرانوں کے برعکس، خود کو تنقید سے بچانے اور اپنی تعریفیں کروانے کے اس تمام نظام کو دھڑلے سے اپنانے میں اکثر احتیاط برتتی ہے۔ جمہوری ادوار میں تو ’تعلقات براستہ نوازشات‘ کا سلسلہ عملاً رک جاتا ہے کیونکہ وسائل کا استعمال منتخب نمایندوں کے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے۔ بہرحال انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ہاتھوں تیار شدہ یا اُن سے مستفید ہونے والے نقادوں کی ایک بڑی تعداد ہمارے درمیان موجود ہے۔ آپ اس کو ستم ظریفی کہہ لیں یا بدقسمتی ریاستی اداروں کی طرف سے اپنایا گیا یہ طریقہ کار ہمیشہ اُس کے گلے میں بھاری طوق ہی ثابت ہوا ہے۔ جس کسی نے بھی ریاستی اداروں کا نمک کھایا اُس نے کبھی نہ کبھی دشمنانہ رویہ ضرور اپنایا۔ لہذا آج کل بے جا تنقید اور میڈیا مہم جوئی میں پیش پیش نظر آنے والے بیش تر ماضی میں ان ہی اداروں کے ’’دوست‘‘ رہ چکے ہیں۔ یہ طریقہ کار اپنانے سے تنقید کی مقدار کم نہیں ہوتی بلکہ مزید بڑھی ہے۔

دوسرا طریقہ دھونس، دھمکی، مار پیٹ اور ’غائب‘ کر نے کا رہا ہے۔ پاکستان میں اس حکمت عملی کی زد میں آنے والے نقاد دو قسم کے ہیں۔ ایک تو وہ جو اپنے منصب کو استعمال کرتے ہوئے خود کو یا بیرونی قوتوں کے لیے فائدہ دینا چاہتے تھے۔ اور دوسرے وہ جنہوں نے اپنے کام کے توسط یا حادثاتی طور پر کچھ ایسے راز پا لیے کہ اُن کے افشا ہو جانے سے طوفان کھڑا ہو جانے کا خد شہ تھا۔ ایک تیسرا گروپ ذاتی عناد اور انفرادی نفرت کا شکار رہا اگرچہ اس کے متاثرین کی تعداد نسبتا ً کم رہی ہے۔ حصول مقصد کی یہ تدبیر بھی موثر نہیں رہی۔ یہ غیر انسانی، غیر اخلاقی اور غیر قانونی تو ہے ہی اس کو استعمال کر کے مختلف ادوار میں ریاستی اداروں نے اپنے لیے بدنامی اور ملک کے لیے شرمندگی ہی کمائی ہے۔ اور آج کل کے دور میں جب احتجاج کے درجنوں میدان موجود ہیں اور معلومات و بحث کا طوفان کسی طور روکا نہیں جا سکتا اس طرز عمل کو اپنانا اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنا ہے۔

ایک تیسرا طریقہ  ’بالواسطہ دبائو‘ کا ہے جو نسبتاً جدید اور اپنے نتائج کے اعتبار سے کافی موثر ہے۔ اس کے تحت حکومتیں اور ریاستی ادارے نظام میں موجود طاقتور داداگیروں کے ذریعے ناقدین کو ’سنبھالنے کا بندوبست‘ کرتے ہیں۔ دھمکی ہو یا لالچ اس کے لیے منتخب گروہوں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں تا کہ اصل کام کرنے والے کا نام اور چہرہ سامنے نہ آئے۔ اسی وجہ سے مالدار شخصیات اور بندوق بردار گروپ اس ملک میں ’زہر مہرہ ‘ بن گئے ہیں۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ ان گروپوں کو کوئی بھی استعمال کر سکتا ہے۔ اگر ریاستی ادارے ان سے اپنا کام نکلوا سکتے ہیں تو مخالف قوتیں زیادہ دام لگا کر ان سے (یا ان جیسے دوسروں سے) اپنا مطلب نکلوا سکتی ہیں۔

ہمارے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ ملک میں فوج پر ہونے والے تنقیدی جملے درج بالا تمام تدابیر اختیار کرنے کے باوجود جاری و ساری ہیں اور بظاہر ان کا تدارک کر نے کا کوئی فارمولہ موجود نہیں ہے۔ مگر شاید ایک راستہ ابھی بھی موجود ہے جس پر چل کر فوج اور انٹیلی جنس کے ادارے اپنی وہ منزل پا لیں گے جو ان کو ابھی تک نصیب نہیں ہوئی۔ یہ راستہ ہے مکمل شفافیت کا۔ اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ فوج یا خفیہ ادارے شیشے کی ایسی کھڑکی بن جائیں جسکے آر پار سب کچھ نظر آ رہا ہو۔ ان اداروں کی نوعیت ایسی ہے کہ دنیا میں کہیں بھی ہوں چھپانے کو بتانے پر ترجیح دیتے ہیں۔ اصل مطلب اور مقصد یہ ہے کہ وہ تمام سوالات جن پر بنیاد کرتے ہوئے تنقید کی جاتی ہے ان کے بے دھڑک جواب فراہم کیے جائیں۔ اگر بدعنوان عناصر کو تحفط فراہم کر نے کی افواہیں گردش کر رہی ہیں تو اس پر حقائق نامہ جار ی کر یں۔ اور اگر حقائق نامہ نہیں ہے تو غلطی تسلیم کر کے اس کا تدارک کر یں۔ خاموشی اختیار کرنا، ادھر اُدھر کی ہا نکنا یا واویلا مچانا وقتی حل تو فراہم کر دے گا مگر مسئلہ جوں کا توں موجود رہے گا۔

اسی طرح فوج کو اندرونی یا بیرونی احتساب کے عمل سے خود کو گزارنا ہوگا۔ پچھلے چند سالوں میں اس ملک میں قومی سلامتی کو محفوظ کرنے میں بڑی کوتاہیاں ہوئی ہیں۔ مہران بیس حملہ ہو یا جی ایچ کیو دہشت گردی کا معاملہ کسی واقعے پر ہونے والی کوئی تحقیق سامنے نہیں آئی نہ کسی کو کوئی سزا ہوئی اور نہ کسی قسم کی کوئی تطہیر ہوئی۔ ان جیسے درجنوں معاملات ایسے ہیں جن پر فوج کی طرف سے کبھی کوئی وضاحت سامنے نہیں آئی۔ اس کے ساتھ ساتھ فوج اور خفیہ اداروں کو نئے ماحول کے تقاضوں کو بھی سمجھنا ہو گا۔ یہ جاننا ہو گا کہ تمام تنقید کسی سازش کا حصہ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے وہ تاریخی تبدیلیاں ہیں جس کے سامنے ماضی کے طور طریقے خس و خاشاک کی طر ح بہتے چلے جا رہے ہیں۔ تنقید کے نام پر سازش نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی ہر تنقید کو سازش و بے حرمتی کہہ کر جان چھڑانا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔