ترقی پذیر ملکوں میں جمہوریت کی ناکامی

ظہیر اختر بیدری  اتوار 13 اپريل 2014
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

[email protected]

ترقی پذیر ملکوں میں جمہوری انتشار اور ناکامی کا جائزہ لینے سے قبل اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ارتقائی اصولوں کے مطابق معاشرے بدتر سے بہتر اور بہتر سے بہترین کی طرف مسلسل سفر کرتے ہیں اگر کسی نظام کو حتمی اور مکمل سمجھ لیا جائے تو یہ سوچ ارتقا کے قوانین کی نفی ہوتی ہے۔ سماجی ارتقا کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتھر کے دور کے انسان سے آج کے جمہوری دور کے انسان تک ارتقا کا سفر جاری رہا درمیان میں قبائلی نظام غلام داری نظام جاگیرداری نظام بادشاہی نظام کے مرحلے آتے رہے اور ہزاروں سال پر مشتمل رہے لیکن ان میں سے کوئی نظام نہ حتمی تھا نہ مکمل ارتقا کے اس قانون کو سمجھنے کے بعد یہ ماننا اور تسلیم کرنا کہ جمہوری نظام حتمی مکمل اور حرف آخر ہے نہ صرف غیر عاقلانہ ہے بلکہ غیر منطقی بھی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ آج کی دنیا اس نظام کو حتمی اور مکمل سمجھ کر اسے ہر جگہ بچانے اور مستحکم کرنے کی کوششوں میں لگی نظر آتی ہے اس ذہنیت کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ سیاسی مفکرین دانشور اور فلسفی بھی ذہنی جمود کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں۔

جمہوریت سے پہلے بادشاہتوں کا نظام ہزاروں سال تک جاری رہا اس نظام کی دو بڑی خرابیاں یہ تھیں کہ اس نظام میں انسانی حقوق کا سرے سے کوئی تصور نہ تھا ساری ریاستی طاقت اور تمام فیصلوں کا اختیار شخص واحد کے ہاتھوں میں ہوتا تھا امرا اور مصاحبین کا کام یس سر کہہ کر سر جھکانا ہوتا تھا۔ اس نظم حکمرانی کو خطرات سے بچانے اور مستحکم رکھنے کے لیے کئی فلسفے گھڑے گئے جن میں ایک موثر فلسفہ یہ تھا کہ ’’بادشاہ زمین پر خدا کا نائب ہوتا ہے اور اس کا حکم ماننا ضروری ہے‘‘ اختیارات کے ایک ہاتھ میں ارتکاز اور انسانی حقوق کی نفی کی وجہ اہل دانش اور اہل علم نے جمہوریت کا فلسفہ پیش کیا جس کا بنیادی مقصد اختیارات کے غیر منطقی ارتکاز کو توڑنا اور فیصلہ سازی میں عوام کو شریک کرنا تھا۔ ترقی یافتہ ملکوں میں اس حوالے سے جمہوریت کسی حد تک قابل قبول ہے لیکن پسماندہ ممالک میں جو اشرافیائی جمہوریت پروان چڑھ رہی ہے اسے ہم بادشاہت کا ایک ماڈرن برانڈ تو کہہ سکتے ہیں لیکن یہ جمہوریت ان معیارات پر ہر گز پوری نہیں اترتی جو جمہوریت کے مفکرین نے متعین کیے تھے۔

ترقی پذیر ملکوں پر نظر ڈالیں تو ہر جگہ حکومتیں نہ صرف عدم استحکام کا شکار ہیں بلکہ جگہ جگہ اس نظام کے خلاف عوامی بغاوتیں بھی ہو رہی ہیں پاکستان میں اس کا مشاہدہ 1968-1977ء  تحریکوں سے کیا جا سکتا ہے اور مشرق وسطیٰ میں یہ تحریکیں عوامی بغاوت میں بدل گئیں اور تیونس، لیبیا اور مصر کے حکمرانوں کو عوام نے نہ صرف نکال باہر کیا بلکہ انھیں کہیں سڑکوں پر گھسیٹ کر انتہائی بے رحمی سے قتل کیا تو کہیں لوہے کے پنجروں میں بٹھا کر انھیں ان کے مظالم کی سزا دی کہیں انھیں ملک سے فرار ہوکر اپنی جانیں بچانی پڑیں۔ تیونس، لیبیا اور مصر میں جمہوری حکومتیں نہ تھیں جمہوری بادشاہتیں تھیں نہ صرف شخص واحد کے ہاتھوں میں اختیارات کا ارتکاز تھا بلکہ فیصلہ سازی میں بھی ان کا کوئی دخل نہ تھا۔ ترکی، بنگلہ دیش، تھائی لینڈ، یوکرین، انڈونیشیا، ملائشیا سمیت کئی ترقی پذیر ملکوں میں سخت انتشار کی کیفیت موجود ہے۔

ترقی پذیر ملکوں میں عوام اگرچہ جمہوری بادشاہتوں کے خلاف سڑکوں پر آ رہے ہیں جنھوں نے بادشاہوں کی طرح سارے اختیارات اپنے ہاتھوں میں جمع کر لیے ہیں اور فیصلوں میں عوام کا کوئی دخل نہیں لیکن اگر اس صورت حال کا ذرا گہرائی سے جائزہ لیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ عوام کی نفرت کا اصل ہدف چند ہاتھوں میں ارتکاز زر ہے۔ اس نام نہاد جمہوریت میں لٹیرے طبقات لوٹ مار کے لیے یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ عوام نے انھیں اقتدار کا مینڈیٹ دیا ہے لہٰذا ہم کو کوئی اقتدار سے نہیں ہٹا سکتا۔ یہ لٹیرے طبقات عوام کو یہ بتانے سے گریزاں رہتے ہیں کہ اس نام نہاد جمہوریت میں بھی عوام کا مینڈیٹ عوام کے مسائل کے حل سے مشروط ہوتا ہے اور اگر کوئی حکمران طبقہ عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہتا ہے تو اسے حکمرانی کا نہ کوئی حق ہوتا ہے نہ جواز۔ اس حوالے سے اگر ہم پاکستان کی جمہوری تاریخ پر نظر ڈالیں تو کوئی ایک بھی ایسی منتخب حکومت ہمیں نظر نہیں آتی جو عوامی مسائل کے حل کا دعویٰ کر سکے۔ اس پس منظر میں اگر ہم اس اشرافیائی جمہوریت کا جائزہ لیں تو یہ ایک ناقص اور نامکمل جمہوریت کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتی۔

ہمارے سیاست کار اپنی بداعمالیوں اور بددیانتیوں کو چھپانے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اختلافات کو ’’جمہوریت کا حسن‘‘ قرار دے کر عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ یہ اختلافات اصل میں اختیارات اور دولت کی لوٹ مار میں حصہ داری کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ اس کلچر کی وجہ سے عوام معاشی ناانصافیوں کا شکار ہو کر حکمرانوں سے نفرت کرنے لگتے ہیں اور انتقام پر اتر آتے ہیں لیکن اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ اگر وہ کسی بددیانت حکومت کو اپنی اجتماعی طاقت سے اکھاڑ پھینکتے ہیں تو ان کے سامنے کوئی بہتر متبادل نہیں ہوتا پھر وہ ’’باریوں‘‘ کے جال میں پھنس جاتے ہیں جس کا نتیجہ چہروں کی تبدیلی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ کوئی ایسا ایماندار سیاستدان موجود ہی نہیں جو چہروں کی تبدیلی کے بجائے خلوص نیت سے نظام کی تبدیلی کے لیے عوام کو تیار کرے۔

پاکستان کا حکمران طبقہ تو  اس حد پر کھڑا ہے جہاں کھلے عام ولی عہدوں کی فوج تیار کی جا رہی ہے اور عوام کی محنت کی کمائی کے اربوں روپوں کو ان کی تشہیر اور انھیں عوام میں مقبول بنانے کی کوششوں میں خرچ کیا جا رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان خاندانی اور موروثی حکمرانیوں اور ماضی کی بادشاہتوں میں کوئی معنوی فرق ہے؟ اور جمہوریت سے اس کا کوئی تعلق بنتا ہے؟ جمہوری ملکوں میں سیاسی قیادت اشرافیہ کی میراث نہیں ہوتی۔ سیاسی قیادت کو نچلی سطح سے اوپر لانے کے لیے ہر جگہ بلدیاتی نظام مختلف شکلوں میں نافذ ہے اس حوالے سے اس مسئلے پر نظر ڈالی جائے تو شرم سے ہمارے سر جھک جاتے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات صرف ’’فوجی ڈکٹیٹروں‘‘ نے کرائے کسی جمہوری حکومت نے 66 سال میں ایک بھی بلدیاتی انتخابات کرانے کا کارنامہ انجام نہیں دیا بلکہ مختلف حیلے بہانوں سے بلدیاتی انتخابات کو رکوانے کی آج بھی کوشش کی جا رہی ہے حتیٰ کہ انتہائی ڈھٹائی سے کمشنری نظام کی وکالت کی جا رہی ہے جس کا واحد مقصد سارے اختیارات اپنے ہاتھوں میں رکھنا اور ولی عہدوں کو نچلی سطح سے ابھرنے والی قیادت کے خطرے سے بچانا ہے۔ مشرف کے بہترین ناظمین کے نظام کی محض اس بہانے مخالفت کی جا رہی ہے کہ یہ نظام ایک ڈکٹیٹر کا دیا ہوا ہے۔

ہم نے بات شروع کی تھی ارتقا کے قانون کے تحت کوئی نظام حتمی اور مکمل نہیں اس حقیقت کے پس منظر میں ہماری جمہوریت تو جمہوریت کے نام پر کلنک کے علاوہ کچھ نہیں اور بدقسمتی یہ ہے کہ دنیا کے اہل دانش اہل فکر اس مجرمانہ جمہوریت کو حتمی اور حرف آخر سمجھ کر فکری طور پر اپنے بانجھ پن کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اس مایوس کن صورت حال میں ہم کم از کم اس شاہانہ جمہوریت میں کچھ بامعنی اصلاحات اور تبدیلیوں کے لیے تو آواز اٹھا سکتے ہیں۔ اس  جمہوریت میں یہ فوری تبدیلی کی ضرورت ہے کہ موجودہ انتخابی قوانین میں ایسی تبدیلیاں کی جائیں کہ عام لیکن ایماندار مخلص اور باصلاحیت لوگ انتخابات میں حصہ لے سکیں۔ کیونکہ موجودہ نظام میں انتخابات کو اس قدر مہنگا بنا دیا گیا ہے کہ جب تک کسی کی جیب میں دس پندرہ کروڑ روپے نہ ہوں وہ انتخابات میں حصہ لینے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

دوسری ضرورت یہ ہے کہ جن سیاستدانوں پر بھاری کرپشن کے الزامات ہیں اور برسوں بلکہ عشروں سے عدالتوں میں زیر سماعت ہیں ان کا فیصلہ ڈیڑھ دو ماہ میں لازمی اور غیر جانبدارانہ طور پر کر دیا جائے اور کرپشن ثابت ہونے پر نہ صرف ان پر انتخابات میں حصہ لینے کی پابندی لگا دی جائے بلکہ قانون کے مطابق انھیں سزائیں دی جائیں۔ اس ضمن میں دور رس اصلاحات کے حوالے سے بلدیاتی انتخابات بلا تاخیر کرائے جائیں اور بلدیاتی انتخابات میں روڑے اٹکانے والوں کو سیاست بدر کیا جائے۔ یہ وہ ابتدائی کام ہیں جن کے کرنے سے جمہوریت کا  چہرہ کسی حد تک روشن ہو سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔