افغانستان میں صدارتی الیکشن

زمرد نقوی  اتوار 13 اپريل 2014

حال ہی میں افغانستان میں صدارتی الیکشن ہوا۔ پوری دنیا بڑی شدت سے اس موقع کی منتظر تھی۔ ایک خاص قسم کے مسلسل پروپیگنڈے کی زد میں آ کر دنیا یہ سمجھ رہی تھی یا تو یہ الیکشن منعقد ہی نہیں ہوں گے‘ اگر ہوئے بھی توبہت کم لوگ اس انتخاب میں حصہ لیں گے۔ لیکن سارے اندازے غلط ثابت ہوئے اور افغان عوام نے صدارتی انتخاب میں بھرپور طور پر حصہ لے کر دنیا کو بتا دیا کہ وہ جمہوری عمل شروع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔یہی وجہ تھی کہ افغان عوام نے دھمکیوں کو مسترد کرتے ہوئے شدید بارش کے باوجود صدارتی انتخاب میں بھرپور حصہ لیا۔ ذرایع ابلاغ کے مطابق ووٹوںکا ٹرن آؤٹ 60فیصد کے قریب رہا۔

اس الیکشن کے لیے سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے۔ افغان عوام اس الیکشن میں شامل ہونے کے لیے اتنی بڑی تعداد گھروں سے باہر نکلے کہ الیکشن کا وقت ایک گھنٹے آگے بڑھا دیا گیا۔ اس الیکشن میں  35فیصد خواتین اور 65 فیصد مرد ووٹررز نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ خواتین کا اتنی بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے کے لیے گھروں سے باہر نکلنا حیرت انگیز ہے۔کابل میں انتخابات کے موقع پر میلے کا سماں رہا۔ جب کہ طالبان کے مضبوط گڑھ قندھار میں بھی خواتین نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ سیکیورٹی خدشات کے باعث تقریباً ایک ہزار پولنگ مراکز پر پولنگ نہیں ہو سکی۔ اگر ان مراکز پر پولنگ ہو جاتی تو ووٹوں کا ٹرن آوٹ 70 فیصد تک پہنچ سکتا تھا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ الیکشن مجموعی طور پر پرامن رہااورملک کے کسی حصے سے بڑے حملے کی اطلاع نہیں ملی۔

دوسری طرف افغان طالبان نے کہا ہے کہ وہ جمہوری نظام کو تسلیم نہیں کرتے۔ افغانستان کو طاقت کے زور پر آزاد کروائیں گے۔ طالبان ترجمان ایک غیر ملکی نشیریاتی ادارے کو انٹرویو میں کہا کہ جن لوگوں نے انتخابی جلسوں میں شرکت وہ سیاسی امور کا ادراک نہیں۔ سوال یہ ہے کہ پاکستانی عوام کو خاص طور پر یہ سبق پڑھایا جاتا ہے کہ افغان طالبان کا سوائے چند علاقوں کو چھوڑ کر پورے ملک پر کنٹرول ہے۔ تو افغانستان کی سوا کروڑ آبادی میں سے 70 لاکھ ووٹروں نے انتخابی عمل میں کیوں حصہ لیا۔افغان انتخابات نے دودھ کا دودھ اور پانی علیحدہ کر دیا ہے اور سچ دنیا کے سامنے آ گیا ہے۔ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ افغان ہوں یا پاکستانی عوام دونوں جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔

افغان عوام کی اکثریت انتہا پسند ہوتی تو انتخابات کا بائیکاٹ کرتی لیکن ایسا نہیں ہوا تو اس کا مطلب کیا ہوا۔ اس کا مطلب بالکل واضح ہے کہ افغانستان اور پاکستان میں عوام جمہوریت پسند ہیں ۔اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ افغان فوج پولیس اور سیکیورٹی اداروں کے بارے میں جو پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ امریکی انخلا کے بعد یہ ادارے حالات نہیں سنبھال سکیں گے‘ اس پروپیگنڈے میں بھی کوئی حقیقت نہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ جوں جوں وقت گزرے گا افغانستان میں جمہوریت مضبوط ہوتی چلی جائے گی۔ ابھی تک افغانستان کے صدارتی انتخاب کا نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے۔

میڈیا کے ذریعے جو اطلاعات سامنے آ رہی ہیں اس سے یہ امکان پیدا ہوتا نظر آتا ہے کہ صدارتی الیکشن دوبارہ ہو سکتا ہے۔ نئی اطلاع یہ ہے کہ عبداللہ عبداللہ الیکشن میں آگے ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ تاجک ہیں۔ اگر وہ افغانستان کے صدر بنتے ہیں تو پھر روس دوبارہ اس خطے میں اپنا اثر بڑھا سکتا ہے۔ شمالی اتحاد اور روس کے درمیان عرصے سے تعلقات قائم ہیں۔ بہر حال افغانستان میں جمہوریت مضبوط ہو گی تو اس کا پورے خطے پر اثر پڑے گا اور افغانستان میں انتہا پسندی زوال پذیر ہو گی۔وہ دن دور نہیں جب افغانستان دوبارہ اسی دور میں چلا جائے گا جو کبھی 1960میں ہوا کرتا تھا۔

اب کچھ ذکر خیر سابق صدر پرویز مشرف کا بھی کر لیا جائے کہ جب وہ برسراقتدار تھے‘ تب ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے مختلف کوششیں کی گئیں جن میں لال مسجد آپریشن بھی شامل ہے لیکن کامیابی نہیں ملی تاہم وکلا تحریک نے انھیں زوال پذیر کر دیا ۔پرویز مشرف کے زوال کا آغاز اپریل 06ء میں ہو گیا تھا جس میں شدت مارچ 07ء میں وکلا تحریک سے آئی جس کے نتیجے میں فوج پس پردہ جانے پر مجبور ہو گئی۔ اب پھر اپریل 2014ء آ گیا ہے۔

اب حالات نیا رخ لے سکتے ہیں اور اس کا آغاز ہو گیا ہے۔ اس حوالے سے 015 2ء اہم سال ہے جس کا آغاز  2014 ء کے آخر سے ہو جائے گا۔ اس سے پہلے بھی کچھ اہم مہینے ہیں۔ مصر سے کہیں زیادہ امریکا کے مفادات پاکستان میں ہیں۔ اگر دائیں بازو کی سیاست کامیاب ہو جاتی ہے تو پاکستان اور افغانستان دونوں امریکا کے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔ اس کے ردعمل میں بھارتی ہندو بنیاد پرستی پورے بھارت پر قبضہ جما سکتی ہے اور اس ٹکڑاؤ سے مشرقی وسطی سے برصغیر تک پورا خطہ اسٹرٹیجک زلزلے کی لپیٹ میں آ جائے گا۔ اس پس منظر میں عرب بادشاہتوں کا رنگ فق ہے۔

سیل فون:۔ 0346-4527997

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔