نو ماہ کا مجرم

وجاہت علی عباسی  اتوار 13 اپريل 2014
wabbasi@yahoo.com

[email protected]

پچھلے کچھ ہفتوں سے محمد موسیٰ خان خبروں میں ہیں، موسیٰ لاہور میں رہتے ہیں اور ان پر اقدام قتل کی فرد جرم عاید کی گئی ہے۔ خبر بنانے والی بات یہ ہے کہ موسیٰ کی عمر صرف نو ماہ ہے۔موسیٰ ان تیس لوگوں میں سے ایک ہیں جن پر پولیس پر پتھراؤ کرنے کی وجہ سے اقدام قتل کا الزام لگایا گیا ہے جب کہ پاکستان میں ملزم کی عمر کم سے کم بارہ سال ہونی چاہیے تو فرد جرم عاید کی جاسکتی ہے اس کے باوجود موسیٰ کو نہ صرف ملزم گردانا گیا بلکہ کورٹ میں فنگر پرنٹنگ اور بیان کے لیے بھی بلوایا گیا۔

جج سمیت موسیٰ کو چارج کرنے والے آفیسر سے میڈیا شدید ناراض ہے، ہر خبر میں اتنے عجیب و غریب الزام اور ’’ملزم‘‘ پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں، کئی جگہ یہ بھی لکھا جا رہا ہے کہ ہمارے یہاں قانون کا بالکل برا حال ہے اور یہی وجہ ہمارے ترقی نہ کرنے کی ہے ورنہ اگر ایسا ہی سانحہ امریکا یا دوسرے کسی ترقی یافتہ ملک میں ہوتا تو ایسا تماشا نہ بنتا۔

چلیے آج ان لوگوں کو جواب دیتے ہیں جن کو لگتا ہے کہ عجیب و غریب الزامات صرف پاکستان میں ہی لگائے جاتے ہیں دیگر ترقی یافتہ ممالک میں ایسا نہیں ہوتا، آج ہم ان عجیب و غریب چارجز کے بارے میں بتائیں گے جو پچھلے کچھ سالوں میں امریکا میں لگائے بھی گئے اور جن کی وجہ سے ملزمان کو کورٹ اور جیل بھی جانا پڑا۔

2010 میں لینو والٹر نامی شخص کو امریکا کی ایک ریاست میں سزا ہوئی ان کا جرم تھا بغیر اجازت اپنی بیوی کی ای میل پڑھنا۔وہ جاننا چاہتے تھے کہ ان کی بیوی ان سے بے وفا تو نہیں؟ امریکا کے قانون کے مطابق کسی کا ای میل پڑھنا بھی اتنا بڑا جرم ہے جتنا کہ کسی کا خط کھولنا اور اسی لیے جج نے والٹر کو پانچ سال کی سزا سنائی۔

کلیئری ہرشا نامی ایک خاتون کو آسٹن ایئرپورٹ پر ہمیشہ کے لیے نہ صرف بین کردیا گیا بلکہ زمین پر لٹا کر ہتھکڑیاں لگا کر گرفتار کیا گیا۔ ان کا جرم تھا کہ ایک مرد سیکیورٹی آفیسر کو اپنی تلاشی لینے کے لیے منع کردیا تھا۔

سٹی آف کلیو لینڈ میں ہر اس شخص کو فائن کیا جاتا ہے جو وقت پر کچرا نہیں پھینکتا۔ وہاں کی سٹی گورنمنٹ نے کچرے کی بالٹیوں میں ریڈیو فریکوئنسی چپس لگائی ہیں جو انھیں یہ بتاتی ہیں کہ کون کتنے دنوں میں کچرا پھینک رہا ہے اور اگر کوئی شخص کچھ دنوں کچرا نہیں پھینکتا تو کچرا انسپکٹر آکر اس کی بالٹی چیک کرتے ہیں اور اگر بالٹی میں دس فیصد سے زیادہ کچرا بھرا ہے تو اس شخص کو سو ڈالر فائن کیا جاتا ہے۔

نیویارک سٹی میں امیکسا گنزالوز نامی طالبہ کو گرفتار کیا گیا کیوں کہ انھوں نے اپنی اسکول ٹیبل پر اپنا نام اور تاریخ کھود دی تھی جسے دیکھ کر ٹیچر نے پولیس کو بلایا اور پولیس نے انھیں ہتھکڑیاں پہنا کر گرفتار کیا اور ایک اسکول رپورٹ اور ساتھ ہی آٹھ گھنٹے کا کمیونٹی ورک کرنے کی سزا دے کر چھوڑا۔

2008 میں ایک تیرہ سالہ بچے کو اے۔سی بند کرکے گیس پاس کرنے کے جرم میں گرفتار کیاگیا ان پر چارج لگایا گیا کہ انھوں نے اسکول کی پراپرٹی یعنی A.C کے ساتھ چھیڑ خانی کی تھی لیکن ٹیچر کے مطابق انھوں نے پولیس کو اس لیے بلایا کہ وہ بار بار گیس پاس کر رہا تھا حالانکہ ہمارے خیال میں ایسے موقع پر پولیس کو نہیں ڈاکٹر کو بلانا چاہیے تھا۔

2007 میں ایک دس سالہ بچی کو اس لیے گرفتار کیا گیا کہ وہ اسکول میں اپنے لنچ میں کانٹے کے ساتھ گھر سے لائی چھری کا بھی استعمال کر رہی تھی جب کہ وہ کیفے ٹیریا میں چپ چاپ بیٹھی لنچ کر رہی تھی مگر چھری دیکھ کر اسکول سیکیورٹی نے اسے گرفتار کرلیا اور اسکول میں ہتھیار لانے کے جرم میں دس دن کے لیے معطل بھی کردیا۔

2009 میں ایک اسکول میں دس سے پندرہ سال کے پچیس بچوں کو گرفتار کیا گیا تھا کیوں کہ وہ اسکول کیفے ٹیریا میں ایک دوسرے پر کھانا پھینک رہے تھے۔

2008 میں ایڈنا جیٹر نامی 88 سالہ خاتون کو اس لیے گرفتار کیا گیا کہ انھوں نے گھر میں آئی پڑوس کے بچوں کی بال واپس کرنے سے انکار کردیا تھا۔ وہ روز روز گھر میں بال آنے سے تنگ تھیں لیکن پڑوسی نے پولیس کو فون کرکے ان پر نچلے درجے کی چوری کا الزام لگایا جس پر انھیں گرفتار کرلیا گیا۔2009 میں ہولی کرافورڈ نامی شخص کو اس لیے گرفتار کیا گیا کیوں کہ انھوں نے کسی کو ایسی بلی بیچی تھی جس کے دونوں کان چھدے ہوئے تھے نہ صرف پولیس بلکہ جانوروں کے تحفظ کی تنظیم نے بھی ان پر کیس دائر کیا تھا۔

ہولی کے مطابق وہ انسانوں اور جانوروں میں تفریق نہیں کرتیں اس لیے اپنے ساتھ ساتھ بلی کے کان بھی چھدوا لیے تھے۔2008 میں ہوزے کرز کو پولیس آفیسر کے منہ کے قریب گیس پاس کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا اسی طرح 2012 میں ایک تیرہ سالہ بچے کو جم میں بار بار ڈکار لینے پر نہ صرف گرفتار کیا گیا بلکہ پولیس اسٹیشن بھی لے جایا گیا۔

2006 میں بارہ سالہ برنڈینٹ جان کو اس لیے گرفتار کیا گیا کیوں کہ انھوں نے اپنے کرسمس گفٹ کرسمس سے پہلے کھول لیے تھے جس پر سبق سکھانے کے لیے لڑکے کی والدہ نے پولیس کو فون کیا اور پولیس کے سامنے لڑکے نے اقرار جرم بھی کیا۔اب جن چارجز کی بات ہم کر رہے ہیں وہ امریکا میں نہیں لگے لیکن ان کا ذکر کرنا اس لیے ضروری ہے کیوں کہ ان کے آگے موسیٰ کے چارجز پھیکے پڑ جائیں گے۔

2009 میں نائیجیریا میں لوگوں نے دو کار چوروں کو پکڑنے کے لیے ٹریپ لگایا جب کہ ایک چور بھاگنے میں کامیاب ہوگیا لیکن دوسرے نے اپنے آپ کو ’’بکرے‘‘ میں تبدیل کرلیا تاکہ اسے گرفتار نہ کیا جاسکے وہ بکرا جو واردات کے وقت گاڑی کے آس پاس ہی گھوم رہا تھا اسے تھانے لے جایا گیا حوالات میں بند کردیا گیا، تفتیش کے بعد جرم ثابت نہ ہونے پر بکرے کو باعزت طور پر رہا کردیا گیا ساتھ ہی سارے چارجز بھی ختم کردیے گئے کیوں کے بکرا بکرا ہی نکلا۔

ہمارے یہاں کچھ اچھا ہوتا ہے تو کوئی یاد نہیں رکھتا اور کچھ برا ہوتا ہے تو کوئی بھولتا نہیں، پاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہو رہا جو دوسرے ملکوں میں نہیں ہوتا بلکہ کئی جگہوں پر قانون کی نافرمانی کا اس سے بھی زیادہ برا حال ہے جتنا پاکستان میں ۔

دنیا بھر میں جیل میں جو خواتین حاملہ ہوتی ہیں ان کے بچوں کی پیدائش وہیں ہوتی ہے، پاکستان میں بھی ایسے ایک نہیں ہزاروں بچے ہیں لیکن ان کی بہتر پرورش کے لیے کوئی آواز نہیں اٹھاتا۔ ان بچوں کی بات کرو جنھوں نے موسیٰ کی طرح پتھر بھی نہیں مارا اور جو جیل میں بنیادی ضرورتوں کے لیے بھی ترس رہے ہیں جہاں تک موسیٰ کا سوال ہے تو انھوں نے پتھر بھی مارے اور انھیں Bail بھی مل گئی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔