شہر قاتل

عمر قاضی  پير 14 اپريل 2014
umerkazi555@yahoo.com

[email protected]

تین دن گزر چکے ہیں مگر میری آنکھوں میں اب تک بسی ہوئی ہے اس ننھے بچے کی تصویر جو روتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگ رہا ہے۔ یہ بچہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے والے ڈاکٹر قاسم کا ہے۔ مگر مجھے ایسا لگا جیسے اس ملک کا سب سے بڑا شہر دکھ میں سمٹ کر چھوٹا بچہ بن گیا ہو اور دعا مانگ رہا ہو کہ اس کے دامن پر معصوم اور مظلوم انسانوںخون کے دھبے نہ لگیں۔

یہ شہر جس سے ہم بہت محبت بھی کرتے ہیں اور جس سے ہمیں ہر وقت شکایت بھی رہتی ہے۔ اس شہر میں چند دن سکون سے گزرے تو ایسا محسوس ہوا کہ زندگی کے اجڑے چمن میں بہار لوٹ آئی ہو۔ آپریشن کے اپنے مسائل ہوتے ہیں مگر اس شہر کے لوگوں نے وہ تکلیف برداشت کی صرف امن کے لیے۔ اب محسوس ہو رہا ہے کہ وہ امن عارضی تھا۔ آج تو ایسا لگ رہا ہے کہ آپریشن شہر کی شرٹ کو دھونے کی کوشش ہے اور وہ شرٹ ٹھیک سے دھل کر خشک بھی نہیں ہوتی کہ اس پر خون کے نئے داغ لگنا شروع ہوجاتے ہیں۔ کہاں گئے وہ دعوے جو قانون نافذ کرنے والے ہر دن جاری ہونے والے پریس ریلیز میں کیا کرتے تھے۔ وہ جو الیکٹرانک میڈیا کے مائیک کے سامنے کہا کرتے تھے کہ انھوں نے کراچی کے اکثریتی مجرموں کو قانون کی گرفت میں قابو کرلیا ہے۔

وہ جو بتاتے تھے کہ انھوں نے ٹارگٹ کلرز کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ وہ میڈیا میں رپورٹ ہونے والے ان سنگین جرائم کو دیکھ کر اور ان کی تفصیلات پڑھ کر کیا یہ محسوس نہیں کرتے ہوں گے کہ ان کے وعدے بھی ان سیاستدانوں جیسے ہیں جو ووٹ مانگنے کے لیے آتے ہوئے مختلف ہوتے ہیں اور ووٹ حاصل کرنے کے بعد ان کے لب و لہجے تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اگر قانون نافذ کرنے والے کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے مجرموں کو یہ سوچ کر ڈھیل دے رہے ہیں کہ کراچی کے شہری ’’تحفظ پاکستان بل‘‘ کی حمایت کریں گے تو ان کی حمایت سے کیا ہوگا؟ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے اشارہ دے دیا ہے کہ سپریم کورٹ ایسے کسی قانون کو قبول نہیں کرے گی جو آئین کے روح سے مطابقت نہ رکھتا ہو۔ ریاستی تحفظ فرد کی آزادی کا مخالف کیسے ہوسکتا ہے؟

مگر یہ سیاسی باتیں ہیں۔ یہ ریاستی معاملات ہیں۔ ان معاملات کی سولی پر کراچی کا وہ عام شہری کیوں لٹکے جو بدترین بدامنی اور لہو ابالنے والی لوڈشیڈنگ کے باوجود محنت اور مشقت کرتا ہے۔ جو اپنے رشتے داروں اور بزرگوں سے دور رہتا ہے اور پیکیج کیے ہوئے نمبرز پر ان کی دعائیں سنتا رہتا ہے، صرف اپنے بچوں کے بہتر تعلیم اور مستقبل کے لیے۔ کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے کہ کراچی خود ساختہ جلاوطنوں کا ایک بہت بڑا شہر ہے۔ وہ شہر جس کو ہم سب ’’شہر قائد‘‘ کہتے ہیں۔ لیکن ایک عرصے سے یہ شہر ’’شہر قاتل‘‘ بن چکا ہے۔ مگر بدامنی کے باوجود لوگ اس شہر سے نکلنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس شہر کی آبادی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ دہشتگردوں کو یہ محسوس ہونا چاہیے کہ کراچی میں بڑھتی ہوئی آبادی ان کی شکست ہے۔

کراچی میں بدامنی نے انسانوں کی مسکراہٹوں اور لوڈشیڈنگ نے روشنیوں کو ابھی تک شکست سے دوچار نہیں کیا۔ میں جانتا ہوں بہت سارے گھروں کو جن کے کفیل ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن گئے لیکن ان کے بچوں نے پھر بھی اس شہر کو نہیں چھوڑا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنے آپ کو نپولین بونا پارٹ سمجھنے والے سیاسی اور سماجی دہشتگردوں کے لیے کراچی ’’واٹر لو‘‘ ثابت ہوگا۔ لیکن جب تک جنگ ختم ہو تب تک لگنے والے زخم تو آنکھوں کو آنسو بہانے پر مجبور کرتے رہیں گے۔ کیونکہ انسان کا دل پتھر کا بنا ہوا نہیں۔ مرزا غالب نے لکھا تھاکہ:

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں

روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں ستائے کیوں؟

اگر ڈاکٹر قاسم کا بچہ رو رہا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس نے شہر چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ وہ شہر میں رہے گا اور اپنے معصوم وجود کو مضبوط کرتا رہے گا۔ جو وکلا اور جو سماجی اور سیاسی کارکن دہشتگردوں کی گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ ان کے اہل خانہ کا بھی یہی اعلان ہے۔ مگر وہ اعلان خاموش ہے۔ لیکن ایک دن یہ خاموشی بہت بڑے آواز میں اپنا اظہار کرے گی اور اس شہر کے ہر قاتل کو بتائے گی کہ یہ شہر ’’شہرقاتل‘‘ نہیں بلکہ ’’شہر قائد‘‘ ہے۔

اگر ایسا ہوتا ہے کہ جب میں مزار قائد کے قریب سے گزرتا ہوں تو مجھے شرمندگی کا احساس گھیر لیتا ہے۔ اس وقت میں سوچنے لگتا ہوں کہ قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی نازک صحت کے باوجود دن رات محنت کرکے ہمیں ہمالیہ کی برفاب چوٹیوں سے لے کر سمندر کی گرم موجوں تک ایک عظیم اور خوبصورت ملک دیا۔ مگر ہم اس کے آخری آرام گاہ والے شہر کو پرامن بنانے میں کوئی کردار ادا نہیں کر رہے۔ ہم کب تک اپنے اس فرض سے آنکھیں چرا تے رہیں گے؟ یہ خیال ہمیشہ ہمارا پیچھا کرتا رہے گا۔ کیوں کہ ہم نے اس شہر کو ’’شہر قائد‘‘ ایسے تو نہیں قرار دیا۔ شہر اپنے بچوں کے لیے بہت کچھ کرتا ہے۔ مہربان موسموں سے لے کر دنوں کی دھوپ اور راتوں کی چاندنی بکھیرتا رہتا ہے۔ کبھی بارشیں لاتا ہے تو کبھی بھیگی ہوئی ہوائیں۔ شہر قائد نے تو ہمیں دنیا کی ہر وہ چیز عطا کی ہے جو ابھی تک انسانی سکھ کے لیے ایجاد ہوئی ہے۔

یہاں بہترین تعلیم اور بہترین علاج کے مواقعے ہیں۔ یہاں خوبصورت پارکس اور لذیذ کھانوں والے ریستوران موجود ہیں۔ یہاں فیشن کے نت نئے انداز آتے ہیں اور سب سے بڑھ کر اس شہر کی آزاد فضا میں ہم سکون سے سانس لے پاتے ہیں۔ یہ شہر ایک حوالے سے ایسا Melting Pot  ہے جس میں ہر علائقے اور ہر ثقافت کے لوگ آپس میں ایک نئی ثقافت کی صورت اختیار کرتے رہتے ہیں۔ یہ پاکستان کا ایک ایسا ماڈل ہے، جس میں صرف امن قائم ہو تو اس سے خوبصورت شہر اس خطے میں اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ مگر صرف بدامنی نے اس شہر کو بدنام کرکے رکھ دیا ہے۔ اس بدامنی کے خاتمے کے لیے حکومتیں جو اقدام اٹھا رہی ہیں وہ تو صحرا پر چند چھینٹوں سے زیادہ نہیں۔ لیکن اگر اس شہر کے سارے لوگ اپنے دلوں میں اس تمنا کو بسا دیں کے انھیں ’’شہر قائد‘‘ کی شناخت ’’شہر قاتل‘‘ نہیں بنانی تو دنیا کے سارے دہشتگرد بھی اس شہر کا امن اور سکون نہیں لوٹ سکتے۔

اس وقت پورے ملک کے ساتھ کراچی کا موسم بھی تبدیل ہورہا ہے۔ سردیوں کی جگہ گرمیاں لے رہی ہیں۔ بدلتے ہوئے موسموں کو دیکھ کر انسانوں کو آخر صرف بدلتے ہوئے رشتوں کی یاد کیوں آتی ہے؟ وہ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ بدامنی بھی ایک موسم ہوا کرتی ہے۔ جب کوئی بھی موسم ٹھہر جائے تو فطرت کا نظام متاثر ہوتا ہے۔ شہر قائد میں بدامنی کا موسم عرصہ دراز سے ٹھہر گیا ہے۔ اس موسم کے پھنسے ہوئے پہیے کو دھکا دے کر دہشت کی نشیب سے نکالنے کی ضرورت ہے۔

اگر کراچی کے دو کروڑ سے زائد انسان اپنے احساسات کے ہاتھ بڑھائیں اور بدامنی کے خزاں کو دھکا دیں تو امن کی بہار خود بہ خود آجائے گی اور ’’شہر قاتل‘‘ دیکھتے ہی دیکھتے ’’شہر قائد‘‘ بن جائے گا۔ ہمارے روتے ہوئے بچے پھر ہنسنے لگیں گے اور سسکیاں بھرتی ہوئی مائیں مسکرانے لگیں گی۔ ہم سیاسی اور انتظامی معالج نہیں۔ ہمارے ہاتھوں میں اختیارات کی طاقت موجود نہیں۔ ہمارے ہاتھوں میں خود کار ہتھیار بھی نہیں لیکن ہم اپنے خالی ہاتھ دعا کے لیے تو اٹھا سکتے ہیں۔ سب کچھ دینے والے اس شہر کو ہم یہ دعا تو دے سکتے ہیں کہ ’’اس شہر کے لوگوں کو امن ملے، انصاف ملے اور بچوں کو علم ملے اور دودھ سا پانی صاف ملے‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔