سچ تو سچ ہے

ایس نئیر  پير 14 اپريل 2014
s_nayyar55@yahoo.com

[email protected]

ایک ہوٹل کے باہر بڑے سے بورڈ پر لکھا ہوا تھا ’’کھانا آپ کھائیں کھانے کا بل آپ کا پوتا ادا کرے گا۔‘‘ یہ بورڈ تو پڑھ کر دو دوست تو سمجھو نہال ہی ہوگئے اور ہوٹل میں جاکر ان دونوں نے مہنگی مہنگی ڈشوں کے آرڈر دیے ۔پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور ڈکاریں لیتے ہوئے ، ہوٹل کے خارجی دروازے کی طرف بڑھے ، جب وہ کاونٹر کے قریب سے گزرے تو انھیں روک لیا گیا اور ایک اچھی خاصی رقم کا بل ان کے ہاتھ میں تھما کر اس کی ادائیگی کا مطالبہ کیا گیا۔

’’ مگر آپ نے تو باہر بورڈ پر لکھ کر لگایا ہوا ہے کہ آپ مفت کھانا کھائیں،کھانے کا بل آپ کے پوتے سے لیا جائے گا ۔‘‘ دونوں دوستوں نے احتجاج کرتے ہوئے کہا ۔ ہوٹل کے منیجر نے شائستگی سے جواب دیا ۔ ’’ اس بورڈ پر غلط نہیں لکھا ہوا ہے اور ہم اپنے اعلان کے پابند بھی ہیں ، لیکن جو بل آپکو ادائیگی کے لیے دیا گیا ہے وہ آپ کے کھانے کا ہرگز نہیں ہے ، بلکہ یہ آپ کے دادا جان کے کھانے کا بل ہے ، جو وہ برسوں پہلے اس ہوٹل میں کھا کر چلتے بنے تھے ۔‘‘

ایسا ہی کچھ پاکستان کی حکومتیں کرتی آئی ہیں بیرونی ممالک اور مالیاتی اداروں سے نئے قرضے بھاری شرح سود پر لیتی ہیں ( واضح رہے کہ جتنی بھاری شرح سود ہوگی قرض واپسی کی مدت اتنی ہی طویل ہوتی ہے ) اور اپنی پچھلی حکومتوں کے قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگیاں کرتی ہیں اوپر سے یہ ڈھول پیٹا جاتا ہے کہ یہ قرضے ہمیں ورثے میں ملے تھے ۔ یہ موقف کسی حد تک درست بھی ہوتا ہے لیکن وہ خود آنے والی حکومت کے لیے ورثے میں کیا چھوڑنے کا انتظام کر کے جارہی ہے ؟ اس سلسلے میں متعلقہ حکومت پر اسرار طور پر خاموش ہی رہتی ہے ۔ پچھلی حکومت نے تو اس معاملے میں کمال ہی کردیا یعنی پچھلے ساٹھ برسوں میں پاکستان پر بیرونی قرضوں کو جو حجم تھا۔

اتنا ہی حجم اس حکومت نے فقط 5 برس میں بڑھا دیا یعنی بیرونی قرضوں کے حجم میں پچھلی حکومت نے سو فیصد اضافہ کر دیا۔ آج تک یہی سنتے آئے تھے کہ ملک پر واجب الادا اندرونی اور بالخصوص بیرونی قرضوں کے حجم میں تیز رفتاری سے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور اس امداد اور قرضے کا سلسلہ اس وقت سے شروع ہوا تھا جب ایوب خان نے ’’ نا اہل ‘‘ سویلین کو برطرف کر کے خود اس ملک کا اقتدار سنبھال لیا تھا ۔ ایک زرعی ملک کے لیے امداد میں امریکا سے ملنے والی گندم کا تحفہ قبول کرکے کراچی کی بندرگاہ سے باہر نکلنے والی امریکی گندم کی بوریوں سے لدی ہوئی اونٹ گاڑیوں کے اونٹوں کی گردن میں کسی خوشامدی افسر یا امریکی ایجنٹ کے مشورے کے مطابق تھینک یو ، یو ایس اے کی تختیاں لٹکائیں گئیں تھیں ۔

وہ دن ہے اور آج کا دن ہم امریکا کا شکریہ ادا کرتے نہیں تھکتے ہیں ۔ اگر ہم تھکنے بھی لگیں تو امریکا ہمیں نہیں تھکنے دیتا ۔ فوراً ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ کی امداد پیش کر کے ہماری رال ٹپکا دیتا ہے اور جب چاہتا ہے اپنی پارلیمنٹ کے ذریعے کوئی بل پاس کرتا ہے اور اس امداد میں کٹوتی کر کے ہمارے آنسوں بھی نکال دیتا ہے ۔ بہرحال اس امداد اور قرضوں کی ابتداء اسی زمانے میں شروع ہوئی تھی جب کراچی کی سڑکوں پر اونٹ گاڑیاں چلتی پھرتی اور رینگتی نظر آتی تھیں اور باربرداری کے لیے استعمال ہونے والی ان گاڑیوں میں جتے ہوئے اونٹ پیروں میں گھنگھرو ڈالے اپنی مستانہ چال سے راہگیروں کے دل موہ لیا کرتے تھے ۔راہگیر تو راہگیر پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے اس وقت کے امریکی صدر لنڈن بی جانسن بھی بشیر ساربان یعنی بشیر اونٹ والے کے اونٹ کی مستانہ چال یا پھر خود بشیر کے سلام کرنے کے اسٹائل سے اس قدر متاثر ہوئے تھے کہ اسے نہ صرف امریکا کے دورے کی دعوت دے بیٹھے تھے بلکہ اسے انعام و اکرام کی ’’ ڈالرانہ ‘‘ بارش سے نہلا کر شرابور بھی کردیا تھا۔

ان کی اس مہربانی کے نتیجے میں بشیر ساربان راتوں رات سرکاری پابندیوں میں جکڑے ہوئے میڈیا کا اسٹار بن گیا تھا ۔ اور پھرکئی ٹرکوں کا مالک بھی بن گیا ، جو اس زمانے میں سڑکوں پر خال خال ہی دکھا کرتے تھے ۔ کراچی کی سڑکوں پر گدھا گاڑیوں ، اونٹ گاڑیوں ، تانگوں اور بگھیوں کی بھرمار ہوا کرتی تھی ۔ شہر دھویں اور آلودگی سے تو محفوظ تھا لیکن سڑکوں پر گھوڑوں ، گدھوں اور اونٹوں کے فضلے جابجا اپنی بہار دکھایا کرتے تھے اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں کراچی کی سڑکیں دھلا کرتی تھیں تو اس دھلائی کی ایک بڑی وجہ اونٹوں ، گدھوں اور گھوڑوں کی جانب سے عطا کردہ یہ ’’ سوغاتیں ‘‘ بھی ہوا کرتی تھیں ۔ ان کی صفائی ستھرائی کے لیے اگر سڑکیں نہ دھوئی جاتیں تو پھر کیا کیا جاتا ؟ بات چلی تھی بیرونی قرضوں سے اور پہنچ گئی اونٹوں اور گدھوں تک ، فی الحال ان کو ادھر ہی باندھیے اور ایک چونکا دینے والی خبر سنیے۔

خبر یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے اب تک بیرونی قرضوں کے حجم میں چار ارب ڈالر کی کمی واقع ہوئی ہے ۔ اگر واقعی ایسا ہے تو ویل ڈن اسحاق ڈار صاحب آپ کے لیے تو بس ہم یہی کہیں گے کہ ’’ ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں تھی ؟‘‘ میرے اکثر دوست اور پڑھنے والے مجھے یہ کہتے رہتے ہیں کہ تمہیں ہر حکومت کی صرف خامیاں ہی نظر آتی ہیں ، خوبیوں پر تمہاری کبھی نظر ہی نہیں جاتی ۔ میں ان سے کہا کرتا تھا ’’ بھائی کوئی خوبی نظر تو آئے ؟‘‘ ان دوستوں کی خدمت میں عرض ہے کہ موجودہ حکومت نے اگر بیرونی قرضے کے حجم میں چار ارب ڈالر کی کمی کردی ہے تو راقم موجودہ حکومت کو خراج تحسین پیش کرتا ہے۔

موجودہ حکومت نے ہر پاکستانی کے سر سے قرضے کا بوجھ کم ہی کیا ہے خواہ یہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو، یہی کیا کم ہے کہ قرض کا یہ بوجھ مزید بڑھا نہیں ، ورنہ اندیشہ یہی تھا کہ نہ جانے کونسا قرضہ اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوجائے۔ اگر مجموعی طور پر موجودہ حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو وہ پچھلی حکومت کے مقابلے میں کافی بہتر نظر آتی ہے ۔ طالبان سے مذاکرات کا عمل شروع کر کے حکومت نے اپنی بصیرت کا ثبوت فراہم کیا ہے ۔ ہر جنگ کا اختتام مذاکرات کی میز پر ہی ہوتا ہے ۔ دونوں ورلڈ وارز کو لے لیں یا پھر اپنی جنگوں کا اختتام دیکھ لیں 65 ء کی جنگ کا اختتام تاشقند میں مذاکرات کی میز پر ہوا تو 71 ء کی لڑائی کا انجام شملہ معاہدے کی صورت میں سامنے آیا۔ اس لیے قتل و غارت گری سے بچتے ہوئے، جو عمل سیکڑوں ، ہزاروں جانوں کے ضیاع کے بعد ہو ، طالبان سے مذاکرات کی صورت میں اگر پہلے ہی ہوجائے اور اگر کامیاب بھی ہوجائے تو اس سے اچھی اور کیا بات ہوگی؟

موجودہ حکومت کے دور میں اسٹاک مارکیٹ تیزی کی طرف گامزن ہے ۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں خواہ معمولی ہی سہی اضافہ تو ہوا ہے ، یعنی روپے کی قدرگرنے کا عمل کم سے کم رک تو گیا ہے ۔ تیل کی قیمتوں میں اضافے کو بھی بریک لگا ہے اور اب باربرداری کے کرایوں میں کمی کرنے کی ہدایت بھی جاری کردی گئی ہے ۔ خارجہ پالیسی میں بھی بہتری آئی ہے ۔ سرحدوں پر کشیدگی میں بھی کمی آئی ہے۔ جس کے نتیجے میں امن و امان کی صورتحال بہتری کی طرف گامزن ہوئی اور سرمایہ کاری میں اضافے کے باعث بے روزگاری اور مہنگائی میں کمی کی توقع کی جاسکتی ہے ۔ میں کبھی بھی میاں صاحب اور ن لیگ کا سیاسی حمایتی نہیں رہا اور نہ اب ہوں ، لیکن سچ تو سچ ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔