پاکستان کی خوب صورت تصویر دکھانے والے۔۔۔ چاچا ایف ای چوہدری

ایاز مورس  اتوار 12 مارچ 2023
پاکستان میں فوٹو جرنلزم کے بانی، تحریکِ اور تاریخِ پاکستان کے شاہد، فاسٹین ایلمر چوہدری کی کہانی ۔ فوٹو : فائل

پاکستان میں فوٹو جرنلزم کے بانی، تحریکِ اور تاریخِ پاکستان کے شاہد، فاسٹین ایلمر چوہدری کی کہانی ۔ فوٹو : فائل

تصویر اور تحریر کی نظر سے دُنیا کو دیکھنے کا فن کس قدر عظیم فن ہے۔ یہ انسان کے سوچنے کے عمل کو بہت متاثر کرتا ہے۔

ذرا تصویر کریں کہ اگر انسان کے پاس تصویر اور تحریر کی صلاحیت نہ ہوتی تو ہماری دُنیا کیسی ہو تی؟ بالکل اسی طرح اگر ہمارے پیارے وطن پاکستان کی جدوجہد، ترقی اور تاریخ کی تصویر اور تحریر نہ ہوتی تو ہم اپنے شان دار ماضی سے کیسے واقف ہوتے؟ ایسی ہستیوں کے لیے میرے دل میں ہمیشہ ایک خاص مقام ہوتا ہے جو اپنے وقت سے آگے اور اپنی ذات سے بڑھ کر سوچتے ہیں۔

اس لیے میں ایسی شخصیات کو نئی نسل سے متعارف کرواتا ہوں اور آج بھی ایسی ہی ایک شخصیت کے بارے میں جانیں گے۔ یہ شخصیت ہیں تحریک پاکستان کے عینی شاہد اور پاکستان ترقی کے سفر کے محافظ فوسٹین ایلمر چوہدری (Faustin Elmer Chaudhry) ۔

پاکستان میں فوٹو جرنلزم کے بانی، فوسٹین ایلمر چوہدری المعروف چاچا چوہدری ایک شان دار شخصیت کے مالک انسان تو تھے ہی لیکن پاکستانی تاریخ کے ایک دل چسپ، یادگار، عہدساز اور قابل تقلید کردار بھی تھے، جن کی زندگی، کام اور خدمات ہمارے لیے فخر کا باعث ہیں۔

چاچا چوہدری 15 مارچ 1909 کو ہندوستان کے شہر سہارن پور یوپی میں ایک راجپوت مسیحی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے دادا نے مسیحیت اختیار کی۔ ان کا تعلق مشرقی پنجاب ہوشیارپور کے قریب گاؤں سلیم پور سے تھا۔ ان کے دادا نارو راجپوت تھے جب کہ ان کی دادی جنجوعہ راجپوت تھیں۔ ان کے والد کا نام یوحنا خان تھے۔

ایف ای چوہدری نے اپنی ابتدائی تعلیم میونسپل اسکول شاہ عالم گیٹ اور سر فرانسس اسکول لاہور سے حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے ضلع جہلم کے مشن ہائی اسکول ڈھلوال سے میٹرک کیا جہاں سے انہوں نے فوٹوگرافی کو اپنے شوق کے طور پر شروع کیا۔

اس کے بعد انہوں نے فارمن کرسچن کالج لاہور میں تعلیم مکمل کی۔ ان کی شادی 25 مارچ 1932 کو متحرمہ ایم۔سی۔چوہدری سے ہوئی جو سیکرڈہارٹ کیتھڈرل اسکول کی بانی ممبر تھیں اور کئی سال تک اپنی تعلیمی خدمات سرانجام دیتی رہیں۔

وہ سینٹ انتھونی ہائی اسکول لاہور میں 1934 سے 1949 تک سائنس اور اردو کے استاد رہے۔ وہیں پر انہوں نے فوٹو جرنلزم کا آغاز کیا اور ان کی پہلی تصویر سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور میں 1935 میں شائع ہوئی۔

ایک فری لانس فوٹوگرافر کے طور پر انہوں نے السٹریٹڈ ویکلی آف انڈیا، دی اسٹیٹس مین دہلی اور دی ہندو مدراس میں بھی حصہ ڈالا۔ لاہور میں 1936 کی شہید گنج تحریک کے دوران قائداعظم محمد علی جناح کی تقریر کی تصاویر بھی کھینچیں اور ان تصویروں کو فخر سے اپنا شاہ کار تصور کیا۔

وہ قائداعظم کے پرجوش مداح تھے اور تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لیا۔ جب مسلم لیگ سالٹ رینج برانچ کا افتتاح ہوا تو چاچا چوہدری گھوڑے پر سوار ہو کر تقریب کی کوریج کے لیے پنڈال میں پہنچے۔ اُنہوں نے نہ صرف وہاں تصویریں کھنچیں بلکہ پاکستان کی حمایت کے لیے دیہات میں تقریریں بھی کیں۔ قائداعظم نے اُنہیں دیکھتے ہی سلام کیا اور کہا ’’ہیلو مسٹر فوٹوگرافر، کیسے ہیں؟‘‘

چاچا چوہدری کو اُن کی اعلیٰ اور قابل فخر خدمات کے اعتراف میں بے شمار ایوارڈز بالخصوص ستارۂ امتیاز، تمغۂ خدمت اور تحریکِ پاکستان گولڈ میڈل سے نواز ا گیا۔

چاچا چوہدری نہ صرف اس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ اُنہوں نے معاشرے میں بہترین نام اور مقام حاصل کیا بلکہ وہ صحت وتن درستی کی نعمت سے بھی محضوظ ہوتے رہے اور ایک بھرپور، پیشہ ورانہ، سماجی، مذہبی اور خاندانی زندگی بسر کرکے 15مارچ 2013 کو 104سال کی عمر میں اپنی سال گرہ کے دن ہی اس جہاں سے رحلت کرگئے۔

چاچا چوہدری کا خاندان پاکستان کی تاریخ میں ایک قابل ذکر مسیحی خاندان ہے جس نے سماجی، تعلیمی، فوجی، مذہبی اور معاشرتی ترقی میں اپنا نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔

عام طور پر کہا جاتا ہے کہ بڑے درخت کے زیرسایہ مزید بڑے درخت نہیں پنپتے لیکن اُن کے بیٹے گروپ کیپٹن سیسل چوہدری نے پاکستان ایئر فورس میں ستارۂ جرأت اور ستارۂ بسالت حا صل کر کے نئی مثال قائم کردی۔ اُن کا سارہ خاندان ہی اس لحاظ سے قابل ذکر ہے۔ چاچا چوہدری نے اپنے خاندان کی بھرپور تربیت کی اور ایک بااُصول اور ذمے دار خاندانی سربراہ کی مانند اپنی ذمے داریوں کو احسن طریقے سے سرانجام دیا۔

معروف صحافی علی احمد ڈھلون اپنی کتاب The White: Bright Minorities of Pakistan  میں لکھتے ہیں کہ ’’چاچا چوہدری صرف ایک فوٹو گرافر ہی نہیں تھے بلکی ایک تصویری تاریخ داں تھے۔

اُن کا کام صرف چند نسلوں ہی نہیں بلکہ زمانوں تک کے لیے ایک روشن مثال ہے کہ کس طرح اُنہوں نے اپنی صلاحیتوں کو اُجاگر کیا، نئے آئیڈیاز کو اپنایا اور کیمرے کی آنکھ سے اپنی مہارت کا اظہار کیا۔ اُن کی کرکٹ کے میدانوں، قدرتی نظاروں اور سماجی مقامات کی تصویریں ایک شاہ کار ہیں جو فوٹو جرنلزم میں معیار اور مہارت کا اعلیٰ درجہ سمجھی جاتی ہیں۔‘‘

چاچا چوہدری نے پاکستان میں فوٹو جرنلزم کا آغاز کیا اور برصغیر پاک و ہند میں پریس فوٹوگرافی کے شعبے میں غیرمعمولی کردار ادا کیا۔ وہ بطور ’’ مشہور فوٹو جرنلسٹ‘‘ جانے جاتے تھے اور پاکستان میں فوٹو جرنلزم کے ’’دادا‘‘ بھی سمجھے جاتے ہیں۔

فاسٹین ایلمر چوہدری کو مسلم لیگ کی جدوجہد آزادی اور 1947 میں اس کے بعد ہونے والی بڑے پیمانے پر نقل مکانی کو دستاویزی طور پر محفوظ کرنے کا انفرادی اعزاز بھی حاصل ہے۔

معروف اسپورٹس صحافی نجم لطیف نے اپنے مضمون F. E. CHAUDHRY, The First Action Lensmanمیں لکھا ہے کہ ’’پاکستان کرکٹ کی ابتدائی تصویری اور پرنٹ تاریخ کا زیادہ حصہ کبھی محفوظ نہیں کیا گیا۔ اے ایچ کاردار، قمرالدین بٹ اور ایم ایچ مقصود جیسے مصنفین تھے جن کی تحریروں میں تقسیم کے بعد نئی بننے والی ریاست میں کرکٹ کے ابتدائی معاملات درج تھے۔

خاک کے ڈھیروں تلے خستہ حال حالات میں کچھ پھٹی پرانی اخبارات کی فائلیں کچھ لائبریریوں میں پائی جاتی ہیں اور ان کی کچھ تاریخ بھی ہوسکتی ہے۔ پرانے اسکور بکس، تمام معلومات کی ریڑھ کی ہڈی، کبھی بھی کسی بھی سطح پر محفوظ نہیں کیے گئے۔

روایتی حریفوں گورنمنٹ کالج لاہور اور اسلامیہ کالج لاہور کے درمیان ہونے والے انٹر کالج ٹورنامنٹ کے مشہور فائنلز کا کوئی ریکارڈ دست یاب نہیں ہے، جس کی دشمنی اتنی ہی شدید اور تلخ تھی جتنی ایٹن اور ہیرو، آکسفورڈ اور کیمبرج، انگلینڈ اور آسٹریلیا، اور بھارت اور پاکستان کی روایتی حریف کی طرح ہوتی ہے۔

ایف ای چوہدری نے فوٹو جرنلزم میں مختلف اور جدید خصوصیات متعارف کروائیں۔ وہ پاکستان کے پہلے فوٹوگرافر تھے جنہوں نے کرکٹ کی ان ایکشن تصاویر لیں۔

1948 میں جب ویسٹ انڈیز نے لارنس گارڈن لاہور میں پاکستان کی سرزمین پر افتتاحی غیرسرکاری ٹیسٹ میچ کھیلا تو ایف ای چوہدری نے میچ کی ایکشن تصویریں لینے کے لیے جیم خانہ کرکٹ گراؤنڈ پویلین کی سلائیڈنگ چھت پر اپنی جگہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ ان دنوں زوم لینس نہیں تھے۔

چاچا چوہدری نے لکڑی کے ایک ڈبے کو ایک لمبی رینج لینس ہولڈر میں تیار کیا اور اس میں ایک خاص لینس لگایا جو ایئر فورس کی طرف سے دوبارہ تلاشی کے دوران استعمال کیا جاتا تھا۔ اس ایجاد کے ساتھ انہوں نے کچھ زبردست تصاویر لیں خاص طور پر وہ تصویر جس میں منور علی خان کے ہاتھوں بولڈ ہونے کے بعد ویسٹ انڈیز کے کپتان جان گوڈارڈ کی وکٹ کی اڑ گئی اور درمیان میں سے دو ٹکڑے ہو گئی۔ یہ پہلی بار تھا کہ کسی نے ایسی ایکشن تصویریں لیں۔‘‘

دی پاکستان ٹائمز میں وہ 1970 کی دہائی کے آخر تک کام کرتے رہے، جہاں انہوں نے فیض احمد فیض، مظہر علی خان اور کے ایم آصف کے ساتھ کام کیا۔ مظہر زیدی، جنہوں نے چاچاچوہدری پر ایک دستاویزی فلم پر کام کیا، بتاتے ہیں کہ چاچا چوہدری نے پاکستان کو بڑھتا ہوا دیکھا تھا اور ان کی تصاویر نے ایک قوم کی کہانی بیان کی۔

مظہرزیدی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا،’’ان کا انداز بہت سادہ تھا اور ان کی تصویروں میں گہرائی تھی۔ وہ اپنے فن کے ذریعے ملک میں سیاست کا بدلتا ہوا چہرہ دکھانے میں کام یاب رہے۔ انہوں نے دیکھا کہ پاکستان نے کیسے ترقی کی ہے اور وہ تصاویر ہماری تاریخ کی فہرست میں شامل ہیں۔‘‘

چاچاچوہدری پاکستان کے پہلے سنجیدہ، کل وقتی پریس فوٹوگرافر تھے، جنہوں نے فری لانس کام کیا۔ چاچاچوہدری نے 1935 میں دی سول اینڈ ملٹری گزٹ میں بطور صحافی اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ 1949 میں میاں افتخار الدین کی طرف سے دی پاکستان ٹائمز میں خدمات حاصل کرنے سے پہلے بھی انہوں نے کئی رسالوں اور اخبارات کے ساتھ فری لانس کام کیا۔

پروفیسر سلامت اختر اپنی معروف کتاب ’’تحریک ِ پاکستان کے گم نام کردار‘‘ میں چاچاایف۔ای ۔چوہدری کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’تحریک پاکستان کے تصویری سفر کے باوا آدم، قائداعظم کے جاںثار سپاہی اور فوٹو گرافی کے منفرد جوہری چاچا ایف ۔ای۔چوہدری کا نام تحریک اور تاریخ پاکستان کے اوراق میں جگنو کی طرح اور اندھیروں میں ٹھنڈی روشنی کی طرح چمکتا ہے۔ فوٹو گرافی کے میدان میں ان کا ہم پلہ کہیں نظر نہیں آتا۔ آپ نے دُنیا میں کیمرے کی آنکھ سے کرشمہ سازی کی خاطر 15مارچ 1909 کو اپنی آنکھ کھولی۔

ان کی تصاویر آج تحریک پاکستان کی کہانی اپنی زبانی سناتی ہیں۔ مزید برآں1942 میں لورنگ ہوٹل میں جناب دیوان بہادر ایس۔پی ۔سنگھا کی طرف سے قائداعظم اور قائد ملت کو دیے گئے استقبالیے کی تصویر مسیحی مسلم اتحاد اور تحریکِ پاکستان میں مسیحیوں کے زندہ کردار کی زندہ مثال ہے۔‘‘

اُن کی زندگی، صحافتی، ادبی اور سماجی خدمات کے بے شمار پہلو ہیں جن پر پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ میں نے اس مضمون میں صرف چند نکات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔

ایک لمحے کے لیے اپنے تعجب، سوچ اور تعصب کو ایک طرف پر رکھ کر پاکستان کو چاچا ایف۔ای۔ چوہدری کی نظر سے دیکھیں، آپ کو پاکستان خوب صورت، رنگارنگ اور محبت، امن، بھائی چارے اور مذہبی ہم آہنگی سے بھرپور نظر آئے گا۔

یہی پاکستان کی خوب صورتی اور قدرتی رنگ ہے جس کی حقیقی تصویر چاچا ایف۔ای۔چوہدری جیسے لوگوں نے دکھائی، جہاں انسانیت انسانوں کے رنگ، نسل، زبان اور پس منظر سے بلند تھی، جہاں انسان ریاست، سیاست، صحافت اور معاشرے کی نظر میں برابر تھا۔ کاش ایسا ہو کہ چشمے بدلنے سے نظریے بدل جائیں، لینس سے نظر اور نظر سے سوچ بدل جائے تو معاشرے کو بدلنے میں دیر نہ لگے۔

آئیں پاکستان کو چاچاایف۔ای ۔چوہدری کی نظر سے دیکھیں اور چاچا ایف۔ ای۔ چوہدری کی زندگی اور خدمات کو ان کی تصویروں سے دیکھیں۔ میں نے پاکستان میں تصویرکشی کے بانی کی زندگی کی تصویر اپنی تحریر سے کھینچنے کی کوشش کی ہے، اُمید ہے یہ چاچاایف ۔ای۔چوہدری کی خدمات کو خراج تحسین کا ذریعہ بن جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔