- انوار الحق کاکڑ، ایمل ولی بلوچستان سے بلامقابلہ سینیٹر منتخب
- جناح اسپتال میں خواتین ڈاکٹروں کو بطور سزا کمرے میں بند کرنے کا انکشاف
- کولیسٹرول قابو کرنیوالی ادویات مسوڑھوں کی بیماری میں مفید قرار
- تکلیف میں مبتلا شہری کے پیٹ سے زندہ بام مچھلی برآمد
- ماہرین کا اینڈرائیڈ صارفین کو 28 خطرناک ایپس ڈیلیٹ کرنے کا مشورہ
- اسرائیل نے امن کا پرچم لہرانے والے 2 فلسطینی نوجوانوں کو قتل کردیا
- حکومت نے آٹا برآمد کرنے کی مشروط اجازت دے دی
- سائفر کیس میں امریکی ناظم الامور کو نہ بلایا گیا نہ انکا واٹس ایپ ریکارڈ لایا گیا، وکیل عمران خان
- سندھ ہائیکورٹ میں جج اور سینئر وکیل میں تلخ جملوں کا تبادلہ
- حکومت کا ججز کے خط کے معاملے پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان
- زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر 8 ارب ڈالر کی سطح پر مستحکم
- پی ٹی آئی کا عدلیہ کی آزادی وعمران خان کی رہائی کیلیے ریلی کا اعلان
- ہائی کورٹ ججز کے خط پر چیف جسٹس کی زیرصدارت فل کورٹ اجلاس جاری
- اسلام آباد اور خیبر پختون خوا میں زلزلے کے جھٹکے
- حافظ نعیم کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری نہ کرنے پر الیکشن کمیشن کو نوٹس
- خیبر پختونخوا کے تعلیمی اداروں میں موسم بہار کی تعطیلات کا اعلان
- اسپیکر کے پی اسمبلی کو مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین سے حلف لینے کا حکم
- امریکا میں چاقو بردار شخص کے حملے میں 4 افراد ہلاک اور 5 زخمی
- آئی پی ایل؛ ’’پریتی زنٹا نے مجھے اپنے ہاتھوں سے پراٹھے بناکر کھلائے‘‘
- اسلام آباد میں ویزا آفس آنے والی خاتون کے ساتھ زیادتی
بچوں کو آزادانہ طور پر کھیلنے دیجیے ورنہ دماغی صحت متاثر ہوسکتی ہے
فلوریڈا: امریکہ میں اسکول کے بچوں اور نو عمروں میں اس وقت ڈپریشن اور دماغی عارضے اپنے بلند ترین درجے پر ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق اب ضروری ہے کہ بچوں پر غیر ضروری پابندیاں نہ عائد کی جائیں بلکہ انہیں آزادانہ طور پر کھیلنے اور کام کرنے کی اجازت ضرور دیجیے۔
جرنل آف پیڈیاٹرکس میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق امریکی والدین بچوں کو ہمہ وقت اپنی نظروں کے سامنے رکھتے ہیں اور ان پر طرح طرح کی قدغنیں لگاتے ہیں۔ اگر یہ عمل سخت اور دیرینہ ہو تو وہ نوعمر(ٹین) بچوں میں ڈپریشن، پریشانی (اینزائٹی)اور یہاں تک کہ خودکشی کے خیالات بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔ تاہم ان میں غیرمعمولی یاسیت تو ضرور نوٹ کی گئی ہے۔
اگرچہ والدین کا بچوں پر توجہ رکھنا ضروری ہے کیونکہ وہ اپنےبچوں کو منفی عادات اور خطرات سےبچانا چاہتے ہیں۔ لیکن بے جا روک ٹوک اور ان دیکھی زنجیر سے بچوں کو ہروقت کھٹکا لگا رہتا ہے اور وہ کھیلنے کودنے، آزادانہ طور پر خود اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے اور زندگی کے تجربات خود حاصل کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔
فلوریڈا اٹلانٹک یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر ڈیود ایف ہورک لیونڈ اور ان کے ساتھیوں نے غورکیا ہے کہ والدین کی جانب سے بچوں کو ایسی آزادانہ سرگرمیوں پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں جن میں کچھ نہ کچھ خطرہ ہوتا ہے۔ اس سے بچے اپنی مرضی کا کھیل یا سرگرمیاں جاری نہیں رکھ سکتے۔ بالخصوص امریکہ میں اس کا رحجان بڑھا ہے اور بچوں میں خوداعتمادی اور حوصلہ کم ہوتا ہے۔
والدین اس کیفیت کا احساس نہیں کرسکتے ہیں بچے دھیرے دھیرے ڈپریشن اور پریشانی کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ پھر اس سے خود بچے اس قابل ہوتے ہیں کہ وہ خاندان اور اپنے گھر میں مثبت کردار بھی ادا کرسکتے ہیں۔
پھر بچوں پر اسکول جانے، ٹیوشن اور ہوم ورک وغیرہ کا بھی بوجھ ہوتا ہے۔ ماہرینِ نفسیات نےبھی کہا ہے کہ بچے اپنے کھیل خود بناتے ہیں اور ان کے اصول خود وضع کرتے ہیں۔ اس طرح وہ سیکھتے ہیں اور ان کے اعتماد میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔