افتخار چوہدری اور سابق انڈین امپائر

ایاز خان  منگل 15 اپريل 2014
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

مشہور کہاوت ہے لڑائی کے بعد یاد آنے والا مکا اپنے منہ پر مار لینا چاہیے۔ یہ کہاوت مجھے عمران خان کے گزرے ہفتے بیان کیے گئے خیالات جاننے کے بعد یاد آئی۔ لاہور کے ایک بڑے ہوٹل کے ہال میں ایک تقریب سجائی گئی تھی۔ آئی ایس آئی اور انٹی کرپشن جیسے حساس محکموں سے وابستہ رہنے والے بریگیڈئیر ریٹائرڈ محمد اسلم گھمن کی کتاب ’’ہاں یہ سچ ہے‘‘ کی تقریب رونمائی تھی اور عمران خان بطور مہمان خصوصی خطاب کر رہے تھے۔ کپتان نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا موازنہ اپنے دور کے انڈین امپائر کے ساتھ کیا تو مجھے تسلی ہوئی کہ کپتان نے بے شک کرکٹ کو چھوڑ دیا ہے مگر کرکٹ آج بھی ان کے اندر موجود ہے۔

تحریک انصاف کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ وہ جب سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تو انھوں نے افتخار محمد چوہدری صاحب سے کہا کہ الیکشن میں اتنے بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے لیکن آپ اس کا نوٹس نہیں لے رہے۔ چوہدری صاحب نے فرمایا ’’اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا‘‘۔ یعنی انھوں نے دیگر اہم امور کا حوالہ دے کر اپنی جان چھڑانے کی کوشش کی۔ کپتان کا کہنا تھا کہ چوہدری صاحب میں ان کی باتیں سننے کے بعد اتنی بھی اخلاقی جرات نہیں تھی کہ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال سکتے۔ اسی طرح ایک بار دورہ بھارت میں ایک ٹیسٹ میچ کے دوران انھوں نے ایل بی ڈبلیو کی اپیل کی تو انڈین امپائر نے صاف آؤٹ ہونے کے باوجود ناٹ آؤٹ دے دیا۔ اس بے ایمانی کا احساس امپائر کو بھی تھا اس لیے ’’جب میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس نے نظریں جھکا لیں‘‘۔ عمران خان نے سابق چیف جسٹس پر جس طرح کھل کر تنقید اس تقریب میں کی اس سے پہلے نہیں کی۔ شاید کتاب کے عنوان کا اثر تھا کہ کپتان نے دل کی بات سچ سچ بیان کر دی۔ یہ وہی عمران خان ہیں جو افتخارمحمد چوہدری صاحب کو نجات دہندہ سمجھتے اور کہتے تھے۔ سوموٹو فیم چیف جسٹس کی ٹرم کے آخری ایام میں عمران کے کچھ بیانات سے مایوسی ضرور جھلکتی تھی لیکن کھل کر تنقید انھوں نے کبھی نہیں کی۔ حیرت ہے تب کپتان کو احساس ہی نہیں ہوا کہ چوہدری صاحب تو ن لیگ کے ساتھ مل کر کھیل رہے تھے۔ الیکشن کے دوران بھی ان کی ساری ہمدردیاں اپنے انھی ’’دوستوں‘‘ کے ساتھ تھیں۔ غیر جانبدار امپائر کی پہچان کپتان سے بہتر کسے ہو سکتی ہے لیکن وہ افتخار چوہدری صاحب کے معاملے میں دھوکا کھا گئے۔

کپتان کے ان خیالات نے مجھے ماضی کے جھروکے یاد دلا دیے ہیں۔ عمران خان کی غیر جانبدار امپائروں کے تقرر کی کوششیں کامیاب ہونے سے پہلے ویسے تو سارے ملکوں کے امپائر جذبہ ’’حب الوطنی‘‘ سے سرشار ہوتے تھے مگر انڈین‘ آسٹریلین اور نیوزی لینڈ کے امپائروں کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ اس دور کے دو انڈین امپائرز کے نام ذہن میں رہ گئے ہیں۔ ایک امپائر پنجابی اور دوسرا دھوتی والا۔ پاکستان کے ساتھ انڈیا کا میچ ہوتا تھا تو ایل بی ڈبلیو دینے کا تو قریب قریب سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ وکٹوں کے پیچھے یا بیٹ اینڈ پیڈ کیچ آؤٹ دینے کا رواج بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔ مجھے جہاں تک یاد پڑتا ہے ویسٹ انڈیز کی ٹیم جب عروج پر تھی اور اس کے فاسٹ بولرز کو کھیلنا کسی کے بس میں نہیں تھا‘ دورہ نیوزی لینڈپرگئی۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم13کھلاڑیوں کی مدد سے ویسٹ انڈیز کو ٹیسٹ ہرانے میں کامیاب ہو گئی۔ گیارہ ٹیم کے کھلاڑی تھے اور دو ان کے امپائرز۔غالباً دونوں ٹیموں کے اعزاز میں ایک عشائیے کے دوران جب ان امپائرز سے پوچھا گیا کہ انھوں نے اتنے غلط فیصلے کیوں دیے تو انھوں نے بڑی معصومیت سے کہا کہ ان کا کوئی قصور نہیں۔ ویسٹ انڈیز کے بولروں کی گیندیں ہی اتنی تیز تھیں کہ انھیں نظر ہی نہیں آئیں۔گویا ان کے تمام فیصلے اندازوں پر مبنی تھے، یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ سارے اندازے ان کی اپنی ٹیم کے حق میں تھے۔ غیر جانبدار امپائروں اور ٹیکنالوجی متعارف ہونے سے پہلے کی کرکٹ میں اس جیسی بے شمار مثالیں ہیں۔ اس دور میں کچھ اچھے امپائرز بھی تھے جن میں انگلینڈ کے ڈکی برڈ سرفہرست تھے۔عمران خان کی خوبی ہے کہ وہ ایک عام کرکٹر سے کرکٹ کے عظیم کھلاڑی بنے۔ ان کا کیرئیر طویل رہا۔ اب وہ بڑا سیاستدان بننے کی کوشش کر رہے ہیں‘ دیکھیں اس کوشش میں کتنا عرصہ لگتا ہے۔ کرکٹر محنت اور لگن سے بنا جا سکتاہے۔ سیاست کے داؤ پیچ سیکھنے کے لیے ایک عمر چاہیے۔ افتخار چوہدری صاحب پر تنقید کرنے کے بجائے کپتان کو اپنی توجہ اس طرف رکھنی چاہیے کہ وہ پھر کسی سے دھوکا نہ کھائیں۔

تقریب کی بات ہوئی ہے تو تھوڑا بہت ذکر ’’ہاں یہ سچ ہے‘‘ کا بھی کر لیا جائے۔ کتاب میں خود ستائشی کی مثالیں موجود ہیں لیکن کچھ حقائق ایسے ہیں جو یہ مقولہ سچ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ ’’آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے‘‘۔ کتاب پڑھنے کے بعد انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کرپشن پورے معاشرے میں ناسور کی طرح پھیل چکی ہے۔ کرپشن کرنے والے اب شرمندہ نہیں ہوتے وہ اپنی وارداتوں پر فخر کا اظہار کرتے ہیں۔ کسی کرپٹ کو پکڑا جائے تو سفارشیوں کی لائنیں لگ جاتی ہیں۔ سیاستدان‘ بیورو کریٹ‘ سرکاری ملازم حتیٰ کہ بعض علما بھی خود کرپشن کرتے ہیں یا کرپشن کی سرپرستی میں ملوث ہیں۔ کبھی کرپٹ افراد کو انگلیوں پر گنا جا سکتا تھا آج کرپشن نہ کرنے والوں کی فہرست آسانی سے بن جاتی ہے۔ اس معاشرے میں کمزور کو جینے کا کوئی حق نہیں۔ اس کی عزت محفوظ ہے نا جائیداد۔ بیوگان کی زمین و جائیداد پر قبضے کی داستانیں ’’ہاں یہ سچ ہے‘‘ میں موجود ہیں۔ مجھے یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ میں جن ’’ہستیوں‘‘ کے بارے میں اس شبہے میں مبتلا تھا کہ وہ کہیں نہ کہیں کرپشن کی سرپرستی کرتی ہیں‘ گھمن صاحب  نے اپنی کتاب میں انھیں بے نقاب کیا  ہے۔ کئی بار پڑھتا جا شرماتا جا والی کیفیت سے بھی دوچار ہونا پڑا۔ یہ کتاب پڑھنے کے بعد جو نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے وہ یہی ہے کہ حکمران سیاسی ہو یا غیر سیاسی‘ کوئی بھی کرپشن ختم نہیں کرنا چاہتا۔ دونوں طرح کی حکومتوں میں احتساب کا صرف نعرہ ہی لگایا جاتا ہے۔

آخر میں اپنے ایک قاری کی خواہش پوری کرنے کے لیے وفاقی وزیر خزانہ سے یہ اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ بجٹ میں سرکاری ملازموں کی تنخواہیں ضرور بڑھائی جائیں۔ ہمارے قاری یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے لکھنے سے شاید حکومتیں ہل جاتی ہیں اور ہم جو بھی مطالبہ کریں وہ فوری مان لیا جاتا ہے۔ ہمیں ایسی کوئی غلط فہمی نہیں لیکن قاری کی خواہش پر اپیل کر دی ہے۔ باقی جو ان کے مقدر میں ہو گا مل جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔