- مردم شماری ہماری ریڈ لائن ہے، ہم اس پر خاموش نہیں رہیں گے،ایم کیوایم
- یورپ کو انسانی حقوق اُس وقت یاد آتے ہیں جب اس کا مفاد ہوتا ہے، روس
- جناح ہاؤس پر حملے کے وقت یاسمین راشد کی موجودگی ثابت ہوئی ہے، فرانزک رپورٹ
- فالج جیسے حادثے کے بعد روزمرہ معمولات میں چند ضروری تبدیلیاں
- پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ملکوں میں ائیرلائنز کے کروڑوں ڈالر پھنس گئے
- سوئمنگ پول میں کرنٹ لگنے سے دو افراد جاں بحق، ایک زخمی
- کراچی کے نوجوان انجینئرنے ’جانوروں‘ کا ڈیجیٹل پاسپورٹ متعارف کرادیا
- امریکا میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی وجہ سے ہزاروں افراد بیروزگار ہوگئے
- کوئٹہ سے براہ راست حج پروازوں کا آغاز
- 25 لاکھ مالیت کے جعلی 5 ہزار والے نوٹ برآمد
- کینیڈا میں مچھلی کے شکار کے دوران خاندان ڈوب گیا؛ 4 بچوں سمیت 5 ہلاک
- اینڈرائیڈ 14 میں اہم فیچر شامل کیے جانے کا امکان
- نگلنے میں دشواری کے مرض کی دو اہم وجوہ ہوسکتی ہیں، پاکستانی ماہرین
- برطانوی انجینیئر نے دوڑنے والا کوڑے دان بنالیا، ویڈیو وائرل
- جنگلی جانوروں اورپرندوں کے انکلوژرنیلام کرنے کا فیصلہ
- گاڑی پر انجن کی طاقت کے بجائے قیمت کی شرح سے ٹیکس لگانے کی مخالفت
- سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑا ہوں، ہزار کیس بنالیں فرق نہیں پڑے گا، پرویزالہٰی
- چین میں مٹی کا تودہ گرنے سے 60 مکانات تباہ؛ 14 افراد ہلاک
- یاسمین راشد کی بریت کیخلاف ہائی کورٹ میں اپیل کریں گے، آئی جی پنجاب
- لیاری ایکسپریس وے پر گندگی کے ڈھیر لگ گئے
ذہنی امراض کے ریکارڈز کی قانونی فروخت کا انکشاف

ہم میں سے اکثر اس بات کو جانتے ہیں کہ جو کچھ ہم آن لائن پوسٹ کرتے ہیں وہ عوام سے چھپا نہیں ہوتا تاہم بہت سے لوگ یہ نہیں جانتے کہ ان کی جسمانی اور ذہنی صحت سے متعلق معلومات ان کے ڈیجیٹل ریکارڈ کی بنیاد پر فروخت کی جا رہی ہیں۔
ڈیوک یونیورسٹی کے سانفورڈ اسکول آف پبلک پالیسی کی ایک تحقیق کے مطابق ڈپریشن، اضطراب، پوسٹ ٹرومیٹک اسٹریس، اور بائی پولر ڈس آرڈر کے مریضوں کے نام، پتے اور ادویات کی معلومات آن لائن ڈیٹا مارکیٹنگ کو فروخت کی جاتی ہیں۔
ڈیوک کی رپورٹ میں اس بات کا بھی انکشاف ہوا کہ دماغی صحت کے ریکارڈز کو منظم کرنے کے لیے استعمال ہونے والی تھرڈ پارٹی موبائل ایپس اکثر ’بروکرز‘ کو معلومات فروخت کرتی ہیں، مزید شواہد کے لیے محققین نے ڈیٹا بروکرز سے رابطہ کیا اور پتہ چلایا کہ 11 کمپنیوں نے ذہنی مریضوں کی معلومات کے بارے میں ڈیٹا فروخت کیا جس میں اینٹی ڈپریسنٹس ادویات جو لوگوں نے لیں اور وہ حالات کی تفصیلات تھیں جن کا مریض کو سامنا رہا جیسے بے چینی، بے خوابی، الزائمر کی بیماری، مثانے پر قابو پانے میں مشکلات وغیرہ۔
ڈاکٹر آف سائیکالوجی، اور نیویارک کی ایڈیلفی یونیورسٹی کی پروفیسر، ڈیبورا سیرانی نے ہیلتھ لائن کو بتایا کہ اس سے قطع نظر کہ یہ کافی تشویشناک ہے، اس کے باوجود یہ سب کچھ قانونی اجازت سے اور برسوں سے ہورہا ہے اور عام لوگوں کے سامنے ہورہا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔