- نگراں وزیراعلیٰ پنجاب کی کاوشوں سے 8 سال سے لاپتا بچہ لواحقین کو مل گیا
- دوسرا ٹی 20؛ پاکستان کا افغانستان کو جیت کیلئے131 رنز کا ہدف
- عمران خان کومزید دومقدمات میں شامل تفتیش ہونے کا حکم
- ایران اور شام کی تہران سے منسلک تنصیبات پر امریکی حملوں کی مذمت
- پاکستانی ’ایلون مسک‘ کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل
- کینیڈا میں سکھوں کا احتجاج، بھارتی وزارت خارجہ میں کینیڈین ہائی کمشنر طلب
- کراچی سے حویلیاں جانے والی ہزارہ ایکسپریس بڑے حادثے کا شکار ہونے سے بچ گئی
- جوڈیشل کمپلیکس ہنگامہ آرائی کیس، عمران خان کل عبوری ضمانت کی درخواستیں دائر کریں گے
- ایم کیو ایم پاکستان کا مردم شماری پرشدید تحفظات کا اظہار
- پی آئی اے کی خاتون افسر پرایئرہوسٹس کو ’ہراساں‘ کرنے کی تحقیقاتی کا آغاز
- قدیم مصر سے مینڈھوں کے 2000 حنوط شدہ سر برآمد
- کسٹمزکی انسداد اسمگلنگ مہم، کروڑوں کا اسمگل شدہ سامان ضبط
- ضیائی تالیف کے عمل سے توانائی حاصل کرنے کا نیا طریقہ دریافت
- ایف آئی اے نے انسانی اسمگلنگ میں ملوث دو ملزمان کو گرفتار کرلیا
- کراچی میں ملکی و غیرملکی جعلی کرنسی نوٹوں کی گردش کا انکشاف
- ٹڈی دل کے حملے کو ناکارہ بنانے والے 18 طیارے ’غیر فعال‘ ہونے کا انکشاف
- سپریم کورٹ نے سرٹیفائیڈ آئین کو توڑنے والے عمران خان کو سزا کیوں نہیں دی؟ مریم نواز
- سعودی عرب؛ 32 سال سے رمضان میں مفت روٹی دینے والے پاکستانی نانبائی کی دھوم
- آئندہ 20 سالوں میں گوشت خور بیکٹیریا کے انفیکشن میں دوگنا اضافہ
- آئی ایم ایف سے معاملات جلد طے پا جائیں گے، وفاقی وزیرخزانہ
ذہنی امراض کے ریکارڈز کی قانونی فروخت کا انکشاف

ہم میں سے اکثر اس بات کو جانتے ہیں کہ جو کچھ ہم آن لائن پوسٹ کرتے ہیں وہ عوام سے چھپا نہیں ہوتا تاہم بہت سے لوگ یہ نہیں جانتے کہ ان کی جسمانی اور ذہنی صحت سے متعلق معلومات ان کے ڈیجیٹل ریکارڈ کی بنیاد پر فروخت کی جا رہی ہیں۔
ڈیوک یونیورسٹی کے سانفورڈ اسکول آف پبلک پالیسی کی ایک تحقیق کے مطابق ڈپریشن، اضطراب، پوسٹ ٹرومیٹک اسٹریس، اور بائی پولر ڈس آرڈر کے مریضوں کے نام، پتے اور ادویات کی معلومات آن لائن ڈیٹا مارکیٹنگ کو فروخت کی جاتی ہیں۔
ڈیوک کی رپورٹ میں اس بات کا بھی انکشاف ہوا کہ دماغی صحت کے ریکارڈز کو منظم کرنے کے لیے استعمال ہونے والی تھرڈ پارٹی موبائل ایپس اکثر ’بروکرز‘ کو معلومات فروخت کرتی ہیں، مزید شواہد کے لیے محققین نے ڈیٹا بروکرز سے رابطہ کیا اور پتہ چلایا کہ 11 کمپنیوں نے ذہنی مریضوں کی معلومات کے بارے میں ڈیٹا فروخت کیا جس میں اینٹی ڈپریسنٹس ادویات جو لوگوں نے لیں اور وہ حالات کی تفصیلات تھیں جن کا مریض کو سامنا رہا جیسے بے چینی، بے خوابی، الزائمر کی بیماری، مثانے پر قابو پانے میں مشکلات وغیرہ۔
ڈاکٹر آف سائیکالوجی، اور نیویارک کی ایڈیلفی یونیورسٹی کی پروفیسر، ڈیبورا سیرانی نے ہیلتھ لائن کو بتایا کہ اس سے قطع نظر کہ یہ کافی تشویشناک ہے، اس کے باوجود یہ سب کچھ قانونی اجازت سے اور برسوں سے ہورہا ہے اور عام لوگوں کے سامنے ہورہا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔