ہمت ہے تو یہ کر ڈالیں

خالد محمود رسول  ہفتہ 18 مارچ 2023

یہ باتیں اور اعدادوشمار سن سن کر ہمارے کان پک گئے ہیں، مسائل کا حل کیا ہے؟ یہ بتائیں ناں!

آئی ایم ایف کا پروگرام اگر بحال ہو بھی جاتا ہے تو بھی اگر معیشت کے چال چلن یہی رہے تو ایک بار پھر اسی گھن چکر کا سامنا ہو گا؛ دوسرے طرف فون پر ناروے سے ہمارے دوست صحافی اور براڈ کاسٹر سید مجاہد علی نے کہا۔ جی بالکل جناب؛ کچھ ذکر ان اقدامات اور پالیسیوں کا بھی ہونا چاہیے، ہم نے ان سے اتفاق کیا ۔

آج کے اس کالم میں مختصراً ان طویل اور قلیل مدت اقدامات اور پالیسیوں کا ذکر ہے۔ بہتری کی صورت کیا ہو؟معیشت کو اس وقت بیرونی ادائیگیوں کے چیلنجز، کمزور ہوتی شرح مبادلہ اور مہنگائی، بجٹ خسارے اور جی ڈی پی میں سست روی جیسے بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ ان مسائل کے حل کے لیے حکومت کو انتہائی بنیادی نوعیت کے چند طویل اور قلیل مدت اقدامات کی ضرورت ہے۔

طویل مدت اقدامات؛ ملکی معیشت کو طویل مدت گروتھ کی راہ پر لگانے کے لیے ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں کم از کم (Minimum)معاشی ایجنڈے پر متفق ہوں اور ملک کو ایک مستحکم سیاسی ماحول میسر ہو جہاں دور رس فیصلے کرنے کی اقتصادی سوجھ بوجھ اور معاشی سکت موجود ہو، پالیسیوں میں تسلسل ہو، ملک کی گرتی ہوئی مسابقت کو بحال کرنے کے لیے بہتر انتظامی اور معاشی گورننس کو بنیادی وصف کے طور پر اپنایا جائے۔

آبادی میں اندھا دھند اضافے کو روکنے کی سبیل ضروری ہے۔ معیشت کا ڈھانچہ بہتر ویلیو ایڈیشن کی بنیاد پر اور انڈسٹری اور ایکسپورٹس کی مرکزیت پر استوار ہو۔بلیک اکونومی کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔ رئیل اسٹیٹ کے بجائے عالمی اور مقامی تجارت معاشی ترقی کے انجن بنائے جائیں۔

تعلیم کے میدان میں ٹیکنالوجی اور سائینسز کی ترویج کی ضرورت ہے۔ نجی شعبے اور انٹرپرینیورشپ کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے کہ دنیا بھر میں یہی اقتصادی ترقی کے بنیادی کردار ہیں۔ حکومت رول آف لائ، موافق تجارتی اور صنعتی ماحول، امن و امان، انصاف کی جلد اور شفاف فراہمی اور معاشرے میں بالغ نظری کو فروغ دینے پر توانائیاں صرف کرے۔

قلیل مدت اقدامات، 1 ۔ گزشتہ پچاس سالوں کے دوران میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک نے ترقی کے لیے ایکسپورٹس کو ذریعہ بنایا یعنی Export driven Growth ۔ چین، تائیوان، جنوبی کوریا، ملائیشیائ، سنگاپور جب کہ حالیہ سالوں میں ویت نام اور بنگلہ دیش کی مثالیں سامنے ہیں۔ پاکستان کو اقتصادی ترقی کے لیے تین سے پانچ سال کی مدت کے اندر اندر اپنے ایکسپورٹس جی ڈی پی تناسب یعنی Ratio کو کم از کم 15%- 18% تک بڑھانے کی ضرورت ہے۔ 2 ۔ پاکستان میں تمام تر کوششوں کے باوجود ٹیکس جی ڈی تناسب  9- 10%تک رہا ہے جو انتہائی کم ہے۔

ملکی بجٹ کا سب سے بڑا حصہ قرضوں اور سود کی ادائیگیوں کی مد میں خرچ ہو جاتا ہے۔ ایسے میں ٹیکس نیٹ میں اضافہ دیوانے کا خواب لگتا ہے لیکن ملکی وسائل میں خود انحصاری کے لیے   ٹیکس جی ڈی پی تناسب تین سے پانچ برس میں کم از کم   15%  to 18% تک بڑھانا از حد ضروری ہے۔

3 ۔ ملکی معیشت میں زراعت کی شرح نمو گزشتہ تیس سالوں سے انتہائی مایوس کن رہی ہے۔ زرعی شعبہ فصلوں و اجناس اور لائیواسٹاک پر مشتمل ہے۔

پچھلے پندرہ سالوں میں زراعت کی شرح نمو دو سے چار فی صد تک رہی ہے،ضروری ہے کہ زرعی شعبے میں پیداوار میں کمی کے ٹرینڈ کو ریورس کرنے کے لیے نئے بیجوں، بہتر کھاد ، مناسب پانی فراہمی اور مشینی آلات کے ساتھ ساتھ فوڈ پروسیسنگ اور اسٹوریج کے مربوط نظام کو وضع کیا جائے ، فرسودہ مارکیٹ نظام میں بھی بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے۔

4 ۔پاکستان کے معاشی نظام میں غیرپیداواری شعبوں سے منافع کمانے کے مواقع اس قدر پر کشش ہیں کہ بالعموم سرمائے کا رخ زیادہ تر ان غیر پیداواری شعبوں کی طرف رہتا ہے۔ ان شعبوں میں رئیل اسٹیٹ، اسٹاک ایکسچینج، غیر ملکی کرنسیوں سمیت ایسے شعبے شامل ہیں جو بہت حد تک ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں، بلیک اکونومی کا پیسہ ان میں آسانی سے گردش کرتا ہے۔ دوسری طرف ملک میں ڈی انڈسٹریلائزیشن کا عمل معیشت کو کھوکھلا کر رہا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں زراعت کے ساتھ ساتھ انڈسٹری میں ترقی معکوس یا جمود کو توڑنے کے عملی اقدامات کیے جائیں۔ اس سے تجارتی خسارہ بھی کم ہوگا اور ایکسپورٹس کے لیے وافر پیداوار بھی دستیاب ہو سکے گی ۔

5 ۔ پاکستان کی برآمدات کا انحصار چند پراڈکٹس پر ہے جن میں ویلیو ایڈیشن بہت معمولی ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور نجی شعبہ سر جوڑ کر بیٹھیں اور تین سے چار نئے ویلیو ایڈڈ پراڈکٹس کی پیداوار اور مارکیٹنگ کا اہتمام کریں جس سے ہماری ایکسپورٹ باسکٹ میں ہائی ویلیو تبدیلی لائی جا سکے۔ 6 ۔ دنیا کا تجارتی نظام مقابلے اور مسابقت پر قائم ہے۔

بہتر پراڈکٹ، بہتر سروس، نئی سے نئی ایجادات اور اختراع اور عالمی تجارتی نظام کے ساتھ ہمہ گیر جڑاؤ کسی بھی ملک کے لیے از بس لازم ہے۔ نجی شعبے کی کامیابی میں بہتر گورننس اور کاروبار دوست حکومت کا کلیدی کردار ہے۔ کرپشن سے آزاد، مستحکم سیاسی اور انتظامی ڈھانچہ اور سیاسی استحکام جیسے عوامل ایکسپورٹ دوست ماحول یعنی Enabling environment  فراہم کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ سیاسی عدم استحکام اور دور رس معاشی پالیسوں کا تسلسل اس سازگار ماحول کے قیام اور دوام کے لیے ضروری ہیں۔

انتہائی اختصار کے ساتھ جن طویل مدت اور قلیل مدت اقدامات کا ذکر کیا گیا ہے، یہ کم و بیش وہی اقدامات ہیں جو ہر ترقی پذیر ملک نے اٹھائے۔ عالمی مسابقت میں کوئی فری لنچ ہے نہ کوئی بے مقصد ملکی دوستیاں، یہ حقیقت جتنی جلد ہماری حکومت، اپوزیشن، ادارے اور عوام سمجھ لیں اور اپنے آپ کو تبدیلی پر آمادہ کر لیں، اتنا ہی بہتر ہوگا۔ معیشت میں بہتری کے یہ اقدامات مشکل ضرور ہیں مگر ناممکن نہیں، اگر ذوق یقین پیدا ہو جائے تو دوسروں پر انحصار کرنے کی غلامانہ زنجیریں ٹوٹ سکتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔