- ویمنز ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا
- امریکی یونیورسٹیز میں ہونے والے مظاہروں پر اسرائیلی وزیراعظم کی چیخیں نکل گئیں
- پولیس یونیفارم پہننے پر مریم نواز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، یاسمین راشد
- قصور ویڈیو اسکینڈل میں سزا پانے والے 2 ملزمان بری کردیے گئے
- سپریم کورٹ نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کو بحال کر دیا
- مرغی کی قیمت میں کمی کیلیے اقدامات کر رہے ہیں، وزیر خوراک پنجاب
- عوام کو کچھ نہیں مل رہا، سارا پیسہ سرکاری تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ چیف جسٹس
- وزیراعلیٰ بننے کیلئے خود کو ثابت کرنا پڑا، آگ کے دریا سے گزر کر پہنچی ہوں، مریم نواز
- کلین سوئپ شکست؛ ویمنز ٹیم کی سلیکشن کمیٹی میں بڑی تبدیلیاں
- قومی اسمبلی کمیٹیاں؛ حکومت اور اپوزیشن میں پاور شیئرنگ کا فریم ورک تیار
- ٹرین میں تاریں کاٹ کر تانبہ چوری کرنے والا شخص پکڑا گیا
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبریں، امریکا نے اسرائیل سے جواب طلب کرلیا
- وزارتِ صنعت و پیداوار نے یوریا کھاد درآمد کرنے کی سفارش کردی
- ٹی20 ورلڈکپ؛ 8 بار کے اولمپک گولڈ میڈلسٹ یوسین بولٹ سفیر نامزد
- کہوٹہ؛ بس میں ڈکیتی کے دوران ڈاکو کی فائرنگ سے سرکاری اہلکار جاں بحق
- نوجوان نسل قوم کا سرمایہ
- اسلام آباد میں روٹی کی قیمت میں کمی کا نوٹیفکیشن معطل
- کیا رضوان آئرلینڈ کیخلاف سیریز میں اسکواڈ کا حصہ ہوں گے؟ بابر نے بتادیا
- ویمنز کوالیفائر؛ آئی سی سی نے ثنامیر کو ’’برانڈ ایمبیسڈر‘‘ مقرر کردیا
- پی او بی ٹرسٹ عالمی سطح پر ساڑھے 3لاکھ افراد کی بینائی ضائع ہونے سے بچا چکا ہے
امجد اسلام امجد صاحب کا مہربان سایہ
گزشتہ سے پیوستہ کالم میں امجد اسلام امجدؔ صاحب کے ساتھ ایم اے او کالج میں جس ادبی مکالمہ اگست 1989 کا ذکر ہوا ، قارئین نے فرمایش کی ہے کہ یہاں اس کے چند اقتباسات شیئر کروں، اس فرمایش پر سرتسلیم خم ہے۔
اس ادبی مکالمہ میں اس سوال پر کہ ان کے نزدیک ادب کی جامع ترین تعریف کیا ہو گی ، انھوں نے جو گفتگو کی ،وہ کچھ یوں تھی، ’’ ادب کی مجرد تعریف تو ممکن نہیں، کیونکہ زندگی اور ادب کو چند جملوں میں سمیٹا نہیں جا سکتا۔
مختلف مملک اور جزائر میں، مختلف رنگ و نسل کے لوگ اپنے اپنے تہذینی دائروں کے اندر رہتے ہوئے غور وفکر کرتے ہیں۔ اس غوروفکر کا ایک مظہر ادب ہے ۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ادب انسانی زندگی کے خوابوں، خیالوں اور جمالیاتی ذوق کا مجموعہ ہے۔
اس ادب میں جس قدر ادیب کی ذات کوعمل دخل زیادہ ہوگا، اسی قدر اس کی شکل بدلتی جائے گی۔ مثلاً، اگر ذات کا عنصر غالب ہوگا تو اس کے نتیجہ میں ’ادب براے ادب‘ وجود میں آئے گا۔ اگر معاشرتی سوچ کا پہلو حاوی ہو گا تو ’ادب برائے مقصد‘ صورت پذیر ہو گا۔ پھر، ہمارے معاشرے کی بہت سی حقیقتوں میں سے ایک حقیقت سیاست بھی ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ سو برس میں یہ حقیقت بہت زیادہ ابھر کے سامنے آئی ہے۔
اب چونکہ ادب کے پاس پروپیگنڈے کی ایک اضافی قوت ہوتی ہے، اس لیے سیاست دان اسے اپنے اپنے طریقے سے اپنے اپنے نظریات کے لیے استعمال بھی کرتے ہیں۔
ادیب کو یہ آزادی تو حاصل ہے کہ وہ ادب سے اپنے نظریات کے لیے کام لے،لیکن یہ پروپیگنڈا بہر طور ادب کی حدود میں رہ کے ہونا چاہیے۔ اگر یہ پروپیگنڈا ادب پر حاوی نہیں ہوتا تو اس میں کوئی ہرج نہیں ہے، لیکن دوسری صورت میں یہ ادیب کے ادبی تشخص کو تباہ کر دیتا ہے۔میں ادب میں صرف اس سیاست کے خلاف ہوں، جس سے ادب کی بنیادی شناخت متاثر ہوتی ہے۔ شناخت متاثر نہ ہو تو میں ادب میں سیاست کو میں خوش آمدید کہتا ہے۔
اسی طرح میرے نزدیک کسی ادیب کے سیاستدانوں سے اس حد تک روابط رکھنے میں بھی کوئی ہرج نہیں جس سے اس کی ادبی حیثیت متاثر نہ ہو۔‘‘
اس تناظر میںجب ماضی میں فیضؔ صاحب کے خلاف ذرایع ابلاغ کی سطح پر روا رکھے گئے ناروا سلوک کا ذکر ہوا تو امجد اسلام امجدؔ صاحب کا کہنا تھا، ’ جب فیض ؔصاحب پر پابندی تھی، تو ا س میں ان کا کوئی قصور نہیں تھا، اب جب کہ وہ پوری طرح IN ہیں تو اس میں بھی ان کا کوئی کارنامہ نہیں۔ دراصل ہمارے ذرایع ابلاغ پر جو لوگ قابض ہیں، وہ اپنے سیاسی مفادات کے لیے کبھی ایک ادیب کو OWN کرتے ہیں اور کبھی DISOWN ۔ یہ روش کسی انصاف پسند معاشرے کی نہیں ہوتی۔
میرے نزدیک فیض ؔصاحب ہوں یا احمد ندیمؔ قاسمی صاحب، سب کے خیالات کو ٹی وی پر آنے کا موقع ملنا چاہیے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے، جب سیاست ادب پر حاوی ہو تی ہے ، تو پھر ادیبوں کے مقام و مرتبے بدلتے رہتے ہیں۔ایک ادیب کی حیثیت سے میری رائے یہی ہے کہ اس ملک کے ہر ادیب کا اس کے سرکاری ذرایع ابلاغ پر برابر حق ہے۔ اس میں مقام و مرتبہ کی درجہ بندی ہو سکتی ہے لیکن کسی ادیب سے یہ حق یکسر چھینا نہیں جا سکتا ہے۔
باقی میرے خیال میں ذرایع ابلاغ پر سب سے زیادہ تشہیر فیضؔ صاحب کی میسر آئی ہے، بلکہ وہ تو ذرایع ابلاغ کے محبوب رہے ہیں۔‘‘ادبی حلقوں میں ’’پاکستانی ادب ‘‘ اور ’’غیر پاکستانی ادب‘‘ کے حوالہ سے چلنے والی بحث پر امجد اسلام امجد صاحب کا کہنا تھا کہ یہ بے معنی بحث ہے۔ پاکستان میں رہنے والاہر ادیب جو بھی لکھ رہا ہے، وہ پاکستانی ادب ہے، یہ جو رائٹ لیفٹ کی تقسیم ہے، یہ تو ساری دنیا میں ہے ،اس میں گبھرانے کی کوئی بات نہیں۔ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگوں کے خیالات بہت زیادہ ریڈیکل ہوں اور وہ انتہا پسند ہو جائیں ، لیکن ایسے لوگ تو ہر معاشرے میں ہوتے ہیں۔
آپ انھیں معاشرے سے کاٹ کے نکال تو نہیں سکتے ہیں۔ میں اور آپ ٹھیکے دار نہیں ہیں کہ صرف ہم راہ راست پر ہیں اور باقی ساری دنیا گمراہی کا شکار ہے۔‘‘ …. ایک معاشرہ جو سیاسی بے چینی کا شکار ہو، اس میں ایک ادیب کی کیا ذمے داری ہے ، اس پر امجد اسلام امجدؔ صاحب کا کہنا تھا، ’’ساری دنیا سیاسی بے چینی کی زد میں ہے۔ غوروفکر کرنے والے اور حساس لوگ ہمیشہ مضطرب اور غیر مطمئن رہتے ہیں۔
ادیب کی نظر معاشرے کے دکھوں پر رہتی ہے۔ وہ انسانوں کی ناآسودہ خواہشوں کو دیکھ کے کڑھتا رہتاہے ، اور اپنے اپنے پیرائے میں اپنی اس اضطرابی کیفیت کو بیان کرتا ہے۔ لیکن اگر ہم ادیب سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ہر وقت معاشرے کے غم میں ڈوبا رہے، تو ایسا ہوتا نہیں ہے،اسے بھی معاشی مسائل درپیش ہیں، اسے بھی بہت سارے معاشرتی دباؤ برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ کبھی کبھی تو میں محسوس کرتا ہوں کہ ہمارا معاشرہ ادبیوں سے بہت زیادہ توقعات رکھتا ہے۔
لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ ایک ادیب معاشرے کے دکھوں کو بیان توکر سکتا ہے، لیکن اس کا حل پیش نہیں کر سکتا۔ یہ درست ہے کہ موجودہ حالات میں ادیب اپنی ذمے داری کماحقہ پوری نہیں کر پا رہا ، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ معاشرہ کو کوئی طبقہ بھی اپنی ذمے داری پوری نہیں کر رہا، اور ادیب بھی اسی معاشرے کا حصہ ہے۔ یہ بدقسمتی کی بات ضرور ہے کہ ادیب بھی اس ایک حصہ ہے، لیکن یہ ایک wishful thinking ہو گی کہ وہ اس کا حصہ نہ ہوتا۔ واقعہ یہی ہے کہ وہ ہے، اب کیوں ہے، یہ لمبی بحث ہے۔‘‘
ادب کے حوالہ سے بھٹو اور ضیاالحق کے ادوار کے موازنہ کو ایک گمراہ کن بحث قرار دیتے ہوئے امجد اسلام امجدؔ صاحب کا کہنا تھا، ’’جو لوگ جنرل ضیاالحق کے 11 سالہ دور میں گھٹن کا پروپیگنڈا کرتے ہیں، ان سے پوچھنا چاہیے کہ ان پرکیا ظلم ہو ا۔ ہمارے جیسے معاشروں میں جو لوگ حکومت وقت کے ساتھ نہیں ہوتے، ان پر دور ِ ابتلا آتا ہے۔ بھٹودور میں دلائی کیمپ کی صورت میں یہ ظلم ہوا اور ضیاالحق دور میں ان کے مخالف زیر عتاب رہے۔ یہ ایک رویہ ہے، اور جب سے پاکستان بنا ہے، یہ ڈرامہ چل رہا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔