خیبر پختونخوا میں گورنر کی تبدیلی کے سیاسی اثرات

شاہد حمید  بدھ 16 اپريل 2014
سردار مہتاب کی تقرری کے حوالے سے جس پارٹی نے بڑے کھلے الفاظ میں اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے وہ عوامی نیشنل پارٹی ہے۔  فوٹو: فائل

سردار مہتاب کی تقرری کے حوالے سے جس پارٹی نے بڑے کھلے الفاظ میں اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے وہ عوامی نیشنل پارٹی ہے۔ فوٹو: فائل

پشاور:  گورنر خیبرپختونخوا انجینئر شوکت اللہ کا جانا اسی دن ٹھہر گیا تھا جس دن مرکز میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت بنی تھی اور یہ تبدیلی بھی اسی وقت ہونا تھی تاہم ’’بوجوہ‘‘نہ ہوسکی۔

البتہ اب جب حالات نے پلٹا کھایا تو مرکز نے انجینئر شوکت اللہ کو واضح پیغام دے دیا کہ اب ان کے جانے کا وقت آ گیا ہے جس کے نتیجے میں انجینئر شوکت اللہ گورنر ہاؤس پشاور سے رخصت ہوگئے ہیں اور اب ان سطور کی اشاعت تک صوبہ کے نامزد گورنر سردار مہتاب احمد خان اپنے عہدہ کا حلف اٹھالیں گے۔ صوبہ میں گورنر کے عہدہ کے حصول کے لیے مسلم لیگ (ن) کے سارے ہی دھڑے کوشاں تھے جن میں اقبال ظفر جھگڑاکا گروپ بھی شامل ہے اور انجینئرامیر مقام کا گروپ بھی ،تاہم قرعہ فال سردار مہتاب احمد خان کے نام نکلا کیونکہ موجودہ حالات کی حساسیت کے پیش نظر گورنر خیبرپختونخوا کے عہدہ پر ایسی ہی کسی شخصیت کا ہونا ضروری تھا کیونکہ سردار مہتاب احمد خان کا یہ پلس پوائنٹ ہے کہ وہ وفاقی اور صوبائی وزیر رہنے کے علاوہ صوبہ کے وزیراعلیٰ بھی رہ چکے ہیں اور سابق بیوروکریٹ ہونے کے ناطے بیوروکریسی کی چالیں بھی بخوبی جانتے ہیں اور ان کا توڑ بھی کر سکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم نے گورنر کے عہدہ کے لیے سردار مہتاب ہی کا انتخاب کیا جن پر اب انتہائی بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ جو بھی انتخابی سیاست کے میدان کا کھلاڑی ہو وہ کسی بھی ایسے عہدہ کے حوالے سے دیگر کے مقابلہ میں بہتر پوزیشن میں ہوتا ہے جبکہ اقبال ظفر جھگڑا کی بدقسمتی ہی سمجھئے کہ وہ انتخابی سیاست کے لیے فٹ نہیں اور نہ ہی وہ مسلم لیگ کو گزشتہ کسی الیکشن میں کوئی نشست جیت کر دے سکے ہیں جس کی وجہ سے وہ اس موقع پر نظر انداز کردیئے گئے جبکہ دوسری جانب امیر مقام جن کے حوالے سے شنید ہے کہ انھیں وزیراعظم کے داماد کیپٹن صفدر اور میاں فیملی کے دیگر با اثر افرد کی پشت پناہی حاصل ہے اور اسی بنیاد پر امیر مقام گروپ کی پوری کوشش تھی کہ گورنر کا عہدہ حاصل کر لیا جائے لیکن (ن) لیگ کے اندر ان کے مخالفین کا موقف بھی اپنی جگہ نہایت ہی مضبوط ہے جن کا بجا طور پر کہنا تھا کہ ’’کل تک پرویز مشرف کے پہلو میں ان کے چھوٹے بھائی بن کر کھڑے ہونے والے امیر مقام کو یہ عہدہ دینا پوری مسلم لیگ کے ساتھ زیادتی ہوگی‘‘اور ان کا یہ موقف تسلیم کیا گیا ہے۔

سردار مہتاب کے گورنر بننے سے مسلم لیگیوں کو خوشی ہو رہی ہے کیونکہ صوبہ میں اب ان کا پوچھنے والا بھی کوئی ہوگا اور ان کے پاس بھی مورچہ بھی ہوگا جسے وہ بوقت ضرورت اور حسب ضرورت استعمال کر پائیں گے۔ دوسری جانب صوبائی حکومت سیاسی گورنر کی آمد سے خوش نہیں ہے ، بظاہر تو وزیر اعلیٰ اس بارے میں کہتے ہیں کہ ’’یہ مرکز کا اختیار تھا جس نے اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے سردار مہتاب کو گورنر تعینات کردیا ہے‘‘ تاہم صوبائی حکومت انجینئر شوکت اللہ کے ساتھ سہولت کے ساتھ کام کر رہی تھی جبکہ اب سردار مہتاب کے ساتھ کام کرنے کے حوالے سے انھیں اپنی نئی صف بندی کرنا پڑے گی کیونکہ سردار مہتاب کا مطلب پوری مسلم لیگ (ن) اور مرکزی حکومت ہوگا۔تاہم سردست لیگی گورنر کی آمد سے تحریک انصاف کی حکومت کو کسی مشکل کا سامنا نہیں ہوگا کیونکہ دونوں میں مرکزی سطح پر تعلقات اگر اچھے نہیں تو برے بھی نہیں ہیں اور اس وقت تحریک انصاف کی اپنی صفوں میں جو کچھ ہو رہاہے ایسے حالات میں مرکز انھیں چھیڑے گا بھی نہیں کیونکہ جس قسم کی چھیڑ خانی مرکز کی جانب سے توقع کی جاسکتی ہے وہ سب کچھ تحریک انصاف کے اندر پہلے ہی سے ہو رہا ہے۔

سردار مہتاب کی تقرری کے حوالے سے جس پارٹی نے بڑے کھلے الفاظ میں اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے وہ عوامی نیشنل پارٹی ہے جس نے سردار مہتاب کی تقرری کے معاملہ کو پختون اور نان پختون کے معاملہ میں الجھا نے کی کوشش کی ہے ۔اے این پی اگر سردار مہتاب کی تقرری کے معاملہ کو صوبہ ہزارہ کی تحریک سے جوڑے گی تو پھر اے این پی کو یہ حساب بھی دینا ہوگا کہ وہ خود کیوں پانچ سال اپنی کشتی میں تحریک ہزارہ کے حامیوں کو لیے پھرتی رہی، صرف اس لیے کہ ایوان میں ان کی تعداد میں اضافہ ہو سکے اس لیے بجائے اس کے کہ سردار مہتاب کو بطور ہزارہ وال گورنر کے دیکھا جائے ان کی تقرری کے بعد ان کی کارکردگی کی بنیاد پر تجزیئے اور تبصرے کرنے چاہئیں جو زیادہ مناسب ہوں گے اور تحریک انصاف کے حوالے سے شنید ہے کہ پی ٹی آئی کے ناراض ارکان پر مشتمل فارورڈ بلاک کے مطالبہ پر دو سے تین وزراء کے خلاف کاروائی کی جانے والی ہے اور یہ کاروائی یہ ہے کہ انھیں وزارتوں سے محروم کیا جائے گا اور ان کی جگہ اس فارورڈ بلاک سے تعلق رکھنے والے دو سے تین ارکان کو بطور وزیر کابینہ میں شامل کیا جا رہا ہے ، یہ خبر بھی ہوسکتی ہے اور تھیوری بھی ، تاہم اس پر کام جاری ہے آئندہ چند دنوں میں اس بارے میں صورت حال واضح ہو جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔