کراچی میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 12 گھنٹے سے متجاوز، شہری ذہنی اذیت سے دوچار

اسٹاف رپورٹر  پير 20 مارچ 2023
(فوٹو فائل)

(فوٹو فائل)

  کراچی: شہر قائد میں گرمی کی شدت میں اضافے کے ساتھ ہی بجلی کی اعلانیہ  و غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا  دورانیہ 12 گھنٹے سے بھی زائد ہوگیا ہے، جو شہریوں اور خصوصاً کاروباری طبقے کے لیے شدید ذہنی اذیت کا سبب بن رہا ہے۔

موسم گرما کا آغاز  ہوتے ہی شہر کے بیشتر علاقوں میں پہلے سے جاری لوڈشیڈنگ کا وقت 10 سے 12 گھنٹے اور کچھ علاقوں میں اس سے بھی تجاوز کرگیا ہے۔ ایک سروے کے مطابق محمودآباد میں رات 2 سے صبح 6 ، صبح 8 سے 10 ، دوپہر 3 سے 5 اور رات 8 بجے سے 10 بجے تک بجلی کی فراہمی معطل رہتی ہے۔

لانڈھی میں صبح 10 سے ایک بجے ، دوپہر ڈھائی سے ساڑھے 5 بجے ، شام 7 سے رات ساڑھے 10 اور رات ساڑھے 11 بجے سے ایک بجے تک بجلی کی فراہمی معطل رہتی ہے ۔ لیاقت آباد کے مکینوں نے بتایا کہ صبح ساڑھے 9 بجے سے 12 بجے تک ، دن ایک بجے سے دوپہر ساڑھے 3 بجے ، شام ساڑھے 6 بجے سے ساڑھے 8 بجے اور رات 11 بجے سے رات ساڑھے بارہ بجے تک بجلی کی فراہمی معطل رہتی ہے۔

علاوہ ازیں نیو کراچی ، سرجانی ٹاؤن ، تیسر ٹاؤن خدا کی بستی ، گلشن معمار ، بلدیہ ٹاؤن کے مختلف علاقے ،  گولیمار ، گلبہار ، گارڈن ، سولجر بازار ، سٹی ریلوے کالونی ، صدر اور اولڈ سٹی ایریا ، جمشید کوارٹر ، مارٹن کوارٹر ، مہاجر عثمانیہ کالونی میں بھی بجلی کی فراہمی اور معطلی کا سلسلہ جاری ہے۔

بجلی کی طویل اور بار بار بندش کے باعث شہر کے بیشتر علاقوں میں پانی کی بھی قلت پیدا ہو جاتی ہے، جس سے شہری بلبلا اٹھتے ہیں۔  سروے کے دوران مارٹن کوارٹرز کے مکینوں نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ رات 2 بجے سے صبح 7 بجے تک بجلی کی عدم فراہمی سب سے زیادہ اذیت ناک ہے کیوں کہ وہی سونے کا وقت ہے جب کہ سخت گرمی اور مچھروں کی بہتات کے باعث گھر کی چھت پر سونا بھی ممکن نہیں۔

کئی علاقوں کے مکینوں نے بتایا کہ رات بھر بجلی نہ ہونے کے باعث صبح دفتر اور بچوں کو اسکول جانے میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب کہ وقت کی کمی کی وجہ سےاکثر ناشتے  سے بھی محروم رہتے ہیں ۔

شہریوں نے بجلی کے بھاری بل ادا کرنے کے باوجود لوڈشیڈنگ میں طویل اضافے کے خلاف حکومت اور بجلی فراہم کرنے والی کمپنی کے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ بلاجواز اعلانیہ و غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا سلسلہ ختم کیا جائے، تاکہ شہری سکون سے معلومات زندگی جاری رکھ سکیں اور ساتھ ہی کاروباری سرگرمیوں میں پیش آنے والی رکاوٹ دور ہو سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔