دیر آید، درست آید

شکیل فاروقی  منگل 21 مارچ 2023
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

مدتِ دراز سے ہماری طبیعت حالاتِ حاضرہ کی وجہ سے ملول رہتی تھی اور افسردگی کے عالم میں ہمارا دل بار بار یہ کہتا تھا۔

جانے کیا ہوگیا ہے دنیا کو
کوئی اچھی خبر نہیں آتی

بے کیفی کی اِس حالت میں اچانک یہ خبر ہمارے لیے جان لیوا حبس میں تازہ ہوا کے جھونکے سے کم نہ تھی کہ بقول عزیز حامد مدنی۔

تازہ ہوا بہار کی دل کا ملال لے گئی
پائے جنوں سے حلقہ گردش حال لے گئی

خبر یہ تھی کہ دو برادر مسلم ممالک ایران اور سعودی عرب کے درمیان برسوں کے جمود کے بعد اچانک مصالحت ہوگئی۔ یہ خبر ہمارے لیے ایک مژدہ جانفزا سے کم نہ تھی۔ ہم نے اطمینان کی گہری سانس لی اور خداوند تعالیٰ کا شُکر ادا کیا کہ:

کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے

یہ کارنامہ تقریباً ناممکن اور ناقابلِ یقین تھا لیکن داد دیجیے عظیم جمہوریہ چین کو جس نے اپنی لائقِ تحسین ڈپلومیسی سے ناممکن کو ممکن بنا دیا۔

ہمیں اِس صورتحال سے دہری خوشی ہوئی ہے۔ اول یہ کہ یہ کارنامہ ہمارے جگری دوست چین نے انجام دیا ہے جب کہ دوسری جانب اِس کے نتیجہ میں ہمارے دو انتہائی قریبی برادر ممالک سعودی عرب اور ایران میں مفاہمت ہوگئی ہے۔

جہاں تک سعودی عرب کا تعلق ہے تو یہ وہ برادر ملک ہے جو حرمین شریفین کا خادم ہے اور مسلم اُمہ کا سرتاج ہے۔

یہ وہ برادر ملک ہے کہ جس نے ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے اور دارالحکومت اسلام آباد میں قائم شاہ فیصل مسجد جس کی ایک نمایاں علامت ہے۔ اِس کے علاوہ سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے دیرینہ اور خصوصی تعلقات ہیں اور افواجِ پاکستان کا سعودی عرب کے دفاعی معاملات میں اہم کردار رہا ہے۔

اِس بات کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں کہ فارسی زبان برصغیر کے مسلم حکمرانوں کی سرکاری زبان رہی ہے۔فارسی زبان کی قانونی اصطلاحات آج تک ہمارے نظامِ قانون میں مروج ہیں۔

اُن کا کوئی نعم البدل ابھی تک دریافت نہیں ہوسکا۔ دوسری جانب مرزا اسد اللہ خان غالب اور علامہ اقبالؔ کی فارسی شاعری کو ایران میں انتہائی پذیرائی حاصل ہوئی ہے اور علامہ اقبال کو ایران میں اقبال لاہوری پاکستان اور ایران کے تعلقات کے حوالے سے یہ حقیقت بھی قابلِ غور اور قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد ایران دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے پاکستان کو تسلیم کیا تھا۔

قیامِ پاکستان کے بعد دونوں ممالک دوستی کے گہرے تعلقات سے منسلک رہے۔ پاکستان ایران اور ترکی کے تعلقات کا ایک مثلث آر سی ڈی کی صورت میں وجود پذیر ہوا۔ تینوں ممالک کی نہ صرف سرحدیں ملتی ہیں بلکہ ایک دوسرے کے دل بھی جڑے ہوئے ہیں۔

ایران سعودی دوستی کا نیا باب کھلنے کے بعد دونوں برادر ممالک اور اُن کے عوام کے درمیان غلط فہمیاں دور ہوں گی اور قربتیں بڑھیں گی۔

اِس کے علاوہ چین کی بے مثال ترقی کے ثمرات بھی ایران اور سعودی عرب کے معاملات پر اثر انداز ہوں گے۔ایران اور سعودی عرب کے تعلقات استوار ہونے کے نتیجہ میں سعودی عرب اور یمن کی باہمی دشمنی کی آتش بھی سرد ہوجائے گی جس سے یمنی عوام بھی سکھ اور چین کی سانس لے سکیں گے۔

چینی سفارت کاری کی اِس کامیابی کے بہت دور رَس اثرات مرتب ہوں گے جس سے تہران اور ریاض کے تعلقات بھی مستحکم ہوں گے اور چین کو بھی اِس سے بہت فائدہ حاصل ہوگا۔

بہرحال اِس عظیم پیش رفت کے بارے میں صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ دیر آید درست آید !

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔