مقبول اور غیر مقبول کے انصاف میں فرق

مزمل سہروردی  منگل 21 مارچ 2023
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

آج کل ملک میں عدلیہ پر سیاست ہو رہی ہے۔ عدلیہ کا کردار پاکستان کے سیاسی منظر نامہ میں غیر ضروری اہمیت اختیارکر گیا ہے۔ بہر حال میری رائے میں ایسا نہیں ہوناچاہیے۔ عدلیہ کا کام صرف یکساں انصاف کرنا ہے۔

عدلیہ کے نزدیک امیر غریب‘ کالے گورے‘ ان پڑھ پڑھے لکھے اور مقبول و غیر مقبول میں کوئی فرق نہیں۔ عدلیہ مقبول کو الگ اور غیر مقبول کو الگ انصاف نہیں دے سکتی۔ عدلیہ نے گواہوں اور ثبوت کی بنیاد پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔

عدلیہ کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ کون مقبول ہے اور کون غیر مقبول۔ عدلیہ کے لیے سب برابر ہیں۔ یہی یکساں انصاف کا بنیادی اصول ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ عدلیہ کو دباؤ میں لانے کی ہر کوشش کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ خواص اور عام دونوں کو عدلیہ کے سامنے سرنڈر ہی ہونا ہے۔

جتھوں کی صورت میں عدالت میں پیش ہونا عدلیہ کی توہین ہے۔ ویسے تو میں سمجھتا ہوں کہ عدلیہ کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے کہ عدالت سے باہر کیا ہو رہا ہے۔ باہر طوفان ہے یا امن جج کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔

باہر ہزاروں لوگ موجود ہیں یا کوئی اکیلا عدالت میں موجود ہے۔ عدالت اور جج سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ عدالتی سماعت کو مرعوب کرنے کی ہر کوشش ناکام ہونی چاہیے۔ جج کو دباؤ میں لانے کی ہر کوشش ناکام ہونی چاہیے۔ اسی لیے کہتے ہیں انصاف اندھا ہے۔ کیونکہ انصاف کی ان معاملات سے لاتعلقی ہی انصاف کی بنیاد ہے۔

کیا مقبولیت عدالتوں سے آپ کو خصوصی سلوک کا حقدار بناتی ہے۔ کیا مقبولیت کی بنیاد پر عدالت سے خصوصی سلوک لے سکتے ہیں۔ کیا عام آدمی کی ضمانت تو اس لیے منسوخ کر دی جائے کہ وہ پانچ منٹ لیٹ ہو گیا ہے۔ اور مقبول لیڈر کا کئی کئی گھنٹے انتظار کیا جائے۔

میری ضمانت کے لیے تو جج صاحب پانچ منٹ انتظار کرنے کے لیے تیار نہیں اور مقبول لیڈر کے لیے وہ کئی کئی گھنٹے انتظار کریں۔ میرے لیے عدالتی اوقات کی پابندی لازمی ہو جب کہ مقبول لیڈر کے لیے عدالتیں بعد از اوقات بھی انتظار کریں۔

یہ یکساں انصاف کے بنیادی تصور کی نفی ہے۔ میں گاڑی باہر کھڑی کر کے پیدل عدالت جاؤں اور کٹہرے میں کھڑا ہو کر بتاؤں کہ میں حاضر ہوں جب کہ مقبول لیڈر کی گاڑی اندر جائے یہ بھی یکساں انصاف کی نفی ہے۔ عدالت کو اس طرح کے سلوک نہیں کرنے چاہیے۔ عدالت کو سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرنا چاہیے۔

آج کل گاڑی میں حاضری لگانا بھی بہت زیر بحث ہے۔ یہ بھی خصوصی سلوک کی ہی ایک مثال ہے۔ حالات کچھ بھی ہوں اگر عدالت میں حاضری لازمی ہے تو ہے۔ میرے ایک دوست نے بتایا کہ اس کی بوڑھی والدہ کو ایک کیس میں عدالت میں پیش ہونا تھا۔

عدالت دوسری منزل پر تھی۔ اس نے جج صاحب سے درخواست کی کہ والدہ سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتیں‘ نیچے حاضری لگوا لی جائے۔ لیکن جج صاحب نے کہا کہ ملزم کو عدالت میں آنا ہے۔ لہٰذا میں کرسی پر بٹھا کر انھیں دوستوں کی مدد سے اوپر لے کر گیا۔

اس کا سوال ہے کہ جب میری عمر رسیدہ اور علیل والدہ کو نیچے حاضری لگوانے کی سہولت نہیں ملی تو پھر مقبول لیڈر کو کیسے ملتی ہے؟ یہ سوال ہرعام آدمی کر رہا ہے۔ عدالتوں کو سب کے ساتھ یکساں سلوک کرنا ہے‘ یہی بنیادی شرط ہے۔

عدالتوں کا ملزم کی سیکیورٹی کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ کیا عدالت اپنے سامنے پیش ہونے والے ہر شہری کی سیکیورٹی کو یقینی بناتی ہے۔ کیا عدالت میں پیش ہونے والا ہر عام شہری اپنی سیکیورٹی مانگ سکتا ہے۔

ٹرائل کرنے والا جج جب عام آدمی کی سیکیورٹی سے کوئی تعلق نہیں رکھتا تو کسی خاص کی سیکیو رٹی ٰاہم کیسے ہو سکتی ہے۔کوئی کیسے عدالت آتا ہے یہ عدالت کا سروکار نہیں۔ کیا عدالت پیشی پر آنے والے ہر ملزم کا اس طرح خیال رکھتی ہے۔

سابق وزیر اعظم اور عام شہری عدالت کی نظر میں برابر ہیں۔ عدالت سلوک میں فرق کیسے کر سکتی ہے۔ یہ فرق نظام انصاف کی بنیادی شرط یکساں انصاف کی نفی ہے۔کیا یہ منطق قابل قبول ہے کہ میں عدالت میں پیش ہو نہیں سکتا‘ میری گاڑی میں حاضری لگا دی جائے۔ اسی لیے اب لوگ Drive Inn پیشی کی بات کر رہے ہیں۔

کیا عدالت کو اپنے کارکنوں کے ساتھ عدالت میں پیش ہونے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ کیا عدالتوں میں اپنے حامیوں کے ساتھ پیش ہونا درست ہے۔ کیا یہ منطق قابل قبول ہے کہ لوگ ساتھ ہیں‘ اس لیے نہیں آسکتا۔ امن وامان قائم کرنے کی ذمے داری عدالت کی نہیں۔

پاکستان میں یہ بات تو عام رہی ہے کہ اسٹبلشمنٹ کس کو سپورٹ کر رہی ہے۔مقتدر حلقوں کی مدد سے اقتدار میں آنے اور اقتدار سے نکلنے کی روایت تو موجود ہے۔

لوگ یہ بات تو کرتے ہیں کہ آج کل کس کو اسٹبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے۔ اسٹبلشمنٹ پاکستان کے سیاسی کھیل کا اہم کھلاڑی بن گئی ہے۔

مقتدر حلقوں کا عام آدمی سے کوئی براہ راست تعلق نہیں۔ لیکن عدلیہ کو روز عوام کی عدالت میں پیش ہونا ہے۔ مقتدر حلقوں نے روز عوام کے سامنے عدالت نہیں لگانی، لیکن جج صاحبان نے تو روز عوا م کے سامنے عدالت لگانی ہے۔ اس لیے آج کل عدلیہ کو اسٹبلشمنٹ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ تاثر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ایک سیاسی فریق کو عدلیہ کی حمایت حاصل ہے۔ اس لیے وہاں سے فیصلے ان کے حق میں آرہے ہیں۔

میں نے پہلے بھی ہائی کورٹس کے دائرہ اختیار کے تقدس کو قائم رکھنے کی بات کی ہے۔ یہ تاثر کیوں بن رہا ہے کہ ایک ہائی کورٹ سے کوئی غیر معمولی حمایت کی جا رہی ہے۔ بنچ فکسنگ کے حوالے سے سپریم کورٹ میں تنازعات تھے۔ لیکن اب یہ تنازعہ ہائی کورٹ تک پہنچ گیا ہے۔لوگ ہائی کورٹ میں بھی بنچ فکسنگ پر اعتراض اٹھا رہے ہیں۔

کسی کا کیس کئی ماہ نہیں لگتا۔ کسی کا ایک گھنٹے میں لگ جاتا ہے۔ کسی کے لیے خاص بنچ بن جاتا ہے۔ عدالتوں کا کب سے یہ کام ہوگیا کہ وہ امن و امان اور قانون کی عملداری میں مصالحت کروانے لگ جائے۔

ایک عدالت کے بلاضمانت وارنٹس پر دوسری عدالت مصالحت کروا سکتی ہے۔ کیا عام آدمی کے بلا ضمانت وارنٹس کے لیے بھی ہائی کورٹس ایسی مصالحت کرواتی ہے۔ کیا عام آدمی کے بلا ضمانت وارنٹ پر بھی عدالتوں میں ایسا ہی جیوڈیشل ایکٹوزم نظر آتا ہے۔

عدلیہ کا وقار یکساں نظام انصاف کی طاقت میں ہی ہے۔ عام اور خاص کے ساتھ یکساں سلوک ہی نظام انصاف کی بنیاد ہے، یا تو عام آدمی کے لیے بھی وہی سہولیات شروع کر دی جائیں جو خاص کو دی جا رہی ہیں۔ میں تو ویسے بھی رات کو عدالتیں لگانے کے حق میں ہوں۔

ملک میں اس قدر مقدمات زیر التوا ہیں کہ رات کو عدالتیں لگنی چاہیے۔ انصاف دن رات ہونا چاہیے۔ لیکن کسی خاص کے لیے رات کو نہیں ہو سکتا۔عدلیہ کو سیاسی اکھاڑے میں نہیں آنا چاہیے۔ اسی میں عدلیہ کا وقار ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔