قوم کا ایٹمی پروگرام

اطہر قادر حسن  بدھ 22 مارچ 2023
atharqhasan@gmail.com

[email protected]

محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک ایساہتھیار تیار کیا جس نے پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر بنا دیا ہے لیکن قوم کے اس محسن کے ساتھ حکمرانوں نے کیا سلوک کیا۔

محسن پاکستان نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں نظر بندی میں گزارے‘ وہ شکوہ کناں رہے کہ پاکستان کے کار پردازوں نے احسان ناشناسی اور محسن کشی کی حد کر دی ۔ ان کا مشہور زمانہ شعر ان کے اسی شکوئے کا اظہار ہے ،

گزر تو خیر گئی ہے تیری حیات قدیرؔ

ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے

سقوط ڈھاکا کے بعد ڈاکٹر صاحب نے پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانے کا خود سے جو وعدہ کیا تھا، انھوں نے اسے حقیقت میں تبدیل کر دکھایا۔ خوش قسمتی سے ایک سیاستدان حکمران ذوالفقار علی بھٹو نے آپ کا ہاتھ پکڑ لیا اور آپ کے خوابوں اور خواہشوں کو حقیقت بنانے کے اسباب فراہم کر دیے اور یوںڈاکٹر صاحب نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک ناممکن کو ممکن کردکھایا اور پاکستان کو دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بنا دیا ۔

قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان بنایا تھا تو ڈاکٹر صاحب نے اس پاکستان کی سلامتی کے اسباب مکمل کیے ہیں۔ ہماری نوجوان نسل جس نے ایٹمی پاکستان میں آنکھ کھولی ہے۔

ان کے اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ایٹمی دھماکوں کے بعد ہمارے دشمن بھارت نے اعلان کیا تھا کہ ہم پاکستان کا ایٹم بم برداشت نہیں کر سکتے اور یہ عدم برداشت کا سلسلہ آج بھی قائم و دائم ہے۔گزشتہ برس اکتوبر میں امریکی صدر بائیڈن نے پاکستان کو خطرناک ملک قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کو ایٹم بم کی ضرورت نہیں ہے ۔

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے گزشتہ دنوں سینیٹ میں تقریر کرتے ہوئے نہ جانے کس ترنگ میں فرمایاکہ کسی کو حق نہیں کہ وہ پاکستان کو بتائے کہ وہ کس رینج کے میزائل یا ایٹمی ہتھیار رکھے۔ ایٹمی اور میزائل پروگرام پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔

پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہہ دیا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے قرضہ پروگرام میں تاخیر کا مقصد پاکستان پر دباؤ ڈالنا ہے، یہ نیو ورلڈ آرڈر ہے جو اس خطے میں لاگو کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی نے بھی بجا کہا کہ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن ہم نے اپنی بقاء کے لیے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کی ہے۔یوں یہ بات موضوع بحث بن گئی ہے۔

انھی کالموں میں کئی مرتبہ یہ عرض کیا ہے کہ پاکستان کا اصل مسئلہ عالمی ساہوکاروں کا قرض نہیں ہے بلکہ ان کا اصل نشانہ پاکستان کا ایٹمی اور میزائل پروگرام ہے، اب اسحاق ڈار صاحب فرما رہے کہ ان کی بات کو سیاق وسباق سے ہٹ کر پیش کیا جارہے ، بہرحال یہ بات ہی ایسی تھی جس پر باتیں تو ہونی ہی تھیں، لیکن ہماری بد بختی یہ ہے کہ آج کل سیاست میں جو دھماچوکڑی مچی ہوئی ہے۔

اس بیچ اہم ترین ایشو پر گروہی اختلا فات کو پس پشت رکھ کر قومی سلامتی اور معیشت پر ہمیں یکجا ہونے کی اشد ضرورت ہے ۔ قومی سلامتی کمیٹی کے مسلمہ اور مستند فورم سے یہ پیغام جانا چاہیے کہ ایٹمی پروگرام پر قوم متحد ہے اور کشمیر سمیت پاک چین دوستی پر بھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔

اگر سمجھ آجائے تو یہ قومی معاملات ہیں جن پر کسی پارٹی کی اجارہ داری نہیں ہے لیکن موجودہ سیاسی افراتفری کی وجہ سے یہ حالات بگڑ بھی سکتے ہیںجن کو شاید ملک برداشت نہ کر سکے۔ گو کہ اسحاق ڈار نے ایٹمی اثاثوں کے متعلق اپنے بیان کی مکمل وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے لیکن سیاست دانوں کی بھینٹ چڑھی اس مظلوم قوم کے خدشات ختم ہونے کو نہیں آرہے۔

ڈاکٹر قدیر خان یقیناً عالم برزخ سے پاکستان کی سلامتی کے لیے دعا گو ہوں گے کیونکہ یہ ایٹمی پروگرام کسی فرد یا حکومت کی ملکیت ہر گز نہیں ہے بلکہ یہ ریاست پاکستان اور یہاں پر رہنے والوں کی سلامتی اور بقاء کا ضامن ہے ۔

میں ایک بات نہایت یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستانی قوم کسی ایسے ایڈوینچر کو ہرگز برداشت نہیں کرے گی جس سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر کوئی حرف آتا ہو، یہ قوم حقیقی معنوں میں گھاس کھا لے گی لیکن ایٹم بم پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرے گی ۔ یہ وہ نازک اور سنجیدہ معاملہ ہے جس پر کسی بھی حکمران یا با اختیار طاقتوں کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہے،اس معاملے پر بیان برائے بیان جاری کرنے سے پرہیز ہی بہتر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔