حکومت کی ناکامیاں

ڈاکٹر توصیف احمد خان  جمعرات 23 مارچ 2023
tauceeph@gmail.com

[email protected]

وفاق میں قائم مخلوط حکومت اب تک برسراقتدار آنے والی حکومتوں سے اس بناء پر منفرد ہے کہ یہ اپنے اہم فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کرا پاتی۔ میاں شہباز شریف کی قیادت میں مخلوط حکومت میں 90ء کے قریب وفاقی وزرائ، وزراء مملکت ، مشیر اور معاون خصوصی شامل ہیں۔

میاں شہباز شریف نے بین الاقوامی مالیاتی ادارہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈز (I.M.F) کی سخت شرائط کو پورا کرنے کے لیے بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں سے سبسڈی واپس لے لی، یوں توانائی فراہم کرنے والے بنیادی ماخذ کے نرخ بڑھ گئے جس کے نتیجہ میں نچلے متوسط طبقہ کا کیا ذکر کیا جائے متوسط طبقہ کے لیے تین وقت کے کھانے کے لیے اشیاء اور علاج معالجہ کے لیے ادویات کی خریداری مشکل ہوگئی۔

وفاقی کابینہ نے عوام سے یکجہتی کے لیے وفاقی کابینہ پر ہونے والے 200 بلین کے اخراجات کم کرنے کا فیصلہ کیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے اعلان کیا کہ وفاقی کابینہ کے اراکین سے بڑی گاڑیاں واپس لی جا رہی ہیں مگر ہمیشہ پندرہ دن گزرنے کے بعد یہ رپورٹیں ذرایع ابلاغ میں شایع ہوتی ہیں کہ بیشتر اراکین نے یہ گاڑیاں واپس نہیں کیں۔ صرف منصوبہ بندی کے وزیر احسن اقبال نے سرکاری گاڑی واپس کرنے کا باقاعدہ اعلان کیا۔

ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ وفاقی وزرائ، وزراء مملکت، مشیران اور معاون خصوصی کے ساتھ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی خصوصی کمیٹیوں کے چیئرمین کو گاڑی اور سیکریٹریٹ اسٹاف فراہم کیا جاتا ہے۔

ان اراکین نے اب تک 16 کے قریب گاڑیاں واپس لیں۔ موجودہ حکومت نے چند ماہ قابل توانائی پر خرچ کیے جانے والے قیمتی زرمبادلہ کو کم کرنے کے لیے کچھ بنیادی اقدامات کا فیصلہ کیا تھا۔ ان فیصلوں میں بازار، ریسٹورنٹس، ہوٹلوں اور شادی ہالز کا رات 8 سے 10 بجے تک بند ہونا شامل تھا۔ اس فیصلہ کو خیبر پختون خوا اور پنجاب میں برسر اقتدار تحریک انصاف کی حکومتوں نے ماننے سے انکار کیا تھا۔ ملک بھر کے تاجروں کی انجمنوں نے اپنا کاروبار حکومت کی ہدایت پر بند کرنے سے منع کردیا تھا۔

ان دونوں صوبوں کی اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد عبوری حکومتیں قائم ہوئیں مگر صوبائی مشنری نے اس فیصلہ پر عملدرآمد کے قابل نہیں سمجھا تھا۔ سندھ کی صوبائی حکومت نے ایک دلچسپ حکمت عملی اختیار کی۔ وفاقی حکومت نے تمام صوبائی حکومتوں کو ہدایات پر مشتمل سر کولر بھجوایا۔

سندھ حکومت نے یہ سرکلر اخبارات اور ٹی وی چینلز کو جاری کیا تو ٹی وی چینلز نے اس نوٹیفکیشن کو سرخیوں میں شامل کیا۔ کمشنر کراچی نے سرکاری طور پر اس خبر کی تردید جاری کی کہ بازار اور شادی ہال بند کرنے کا سرکار کی طرف سے کوئی نوٹیفکیشن جاری ہوا ہے۔

حکومت ایک طرف ملک کے معاشی بحران کو کم کرنے کے لیے دوست ممالک اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے خطیر رقم ملنے کے دعوے کررہی ہے، دوسری طرف کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آتے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے یہ عہدہ سنبھالنے کے بعد بیرونی ممالک کے دوروں کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا۔

وزارت خارجہ کی کوششوں سے ملک میں آنے والے سیلاب کی تباہ کاریوں پر قابو پانے کے لیے مالیاتی مدد کے لیے ڈائیوس میں ایک بڑی کانفرنس منعقد ہوئی۔ میاں شہباز شریف اپنے وزیر خارجہ سمیت ایک بڑے وفد کے ساتھ اس کانفرنس میں شریک ہوئے۔ شہباز شریف کے علاوہ بلاول بھٹو زرداری اور شیری رحمن نے ملک میں سیلاب کی تباہیوں اور گلوبل وارمنگ کے پڑنے والے اثرات کے بارے میں پرجوش تقاریرکیں۔

کئی ممالک کے صدور اور وزراء اعظم نے وڈیو لنک پر اپنی تقاریر میں پاکستان میں ہونے والی موسمیاتی تباہیوں پر افسوس کا اظہار کیا اور اربوں ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا۔پشاور میں پولیس لائن پر دہشت گردی کے واقعہ کے بعد تمام سیاسی جماعتوں کو ایک کانفرنس میں مدعو کیا تھا مگر عمران خان کے اس کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کے اعلان کے بعد یہ کانفرنس لاپتہ ہوگئی اور دہشت گردی کے خلاف قومی بیانیہ سامنے نہیں آسکا۔

امریکا کے افغانستان اور عراق میں سابق سفیر زلمے خلیل زاد جو افغانستان میں پیدا ہوئے، پاکستان کی موجودہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو سیاسی، معاشی اور سیکیورٹی کے تہرے بحران کا سامنا ہے۔ بڑی صلاحیت کے باوجود یہ ملک کم کارکردگی کا مظاہرہ کررہا ہے اور اپنے بڑے حریف بھارت سے ہمیشہ پیچھے ہے۔

یہ وقت گہری سوچ بچار اور جرات مندانہ مؤقف اور حکمت عملی اختیار کرنے کا ہے۔ زلمے خلیل زادہ نے ٹویٹر اکاؤنٹ پر لکھا کہ قید و بند ، قتل اور تختہ دار پر لٹکانے جیسے حربوں کے ذریعہ سیاسی رہنماؤں کو منظر سے ہٹانا غلط راستہ ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما عمران خان کی گرفتاری بحران میں مزید بڑھاوا دے گی۔ اگرچہ زلمے خلیل زادہ امریکا کی پرانی اسٹیبلشمنٹ کے نمایندہ ہیں مگر ان کے خیالات امریکی رائے عامہ پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کو ملک کے سب سے بڑے عہدہ پر تعینات کرنے کے لیے جو حکمت عملی تیار کی تھی وہ حکمت عملی کامیاب تو ہوئی اور عمران خان چار سال تک ملک کے سب سے بڑے عہدہ پر تعینات رہے اور ان کی پالیسیوں سے ملک میں معاشی بحران پیدا ہوا اور پاکستان دنیا میں تنہا رہ گیا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ گیارہ ماہ قبل برسر اقتدار آنے والی مخلوط حکومت کا اسٹیبلشمنٹ پر انحصار اور بڑھ گیا۔

شہباز شریف اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنے کے لیے جن سمجھوتوں پر مجبور ہوئے ان کے نتیجہ میں ریاست کے انفرااسٹرکچر میں بنیادی تبدیلیاں رونما نہ ہوسکیں۔

بین الاقوامی منظر نامہ پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کے تقاضوں کے مطابق یہ حکومت خاطر خواہ تبدیلیاں نہ کرسکی، یوں مہنگائی کے بڑھنے کا سارا فائدہ عمران خان کو حاصل ہوا۔ عمران خان اقتدار سے ہٹنے کے بعد مسلسل عوام سے رابطہ میں رہے۔ مخلوط حکومت میں شامل مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، جمعیت علماء اسلام کے رہنما محض عمران خان کے رویوں اور پالیسیوں کی مذمت کرنے میں مصروف رہے، یوں رائے عامہ عمران خان کے حق میں نظر آنے لگی۔

یہی وقت ہے کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور جمعیت علماء اسلام کے رہنما بنیادی نوعیت کے فیصلے کریں۔ فوری طور پر وفاقی کابینہ میں شامل پنجاب اور خیبر پختون خوا سے تعلق رکھنے والے استعفے دیں اور اپنے حلقوں میں جائیں۔ حکومت ہر صورت تمام نوعیت کے غیر پیداواری اخراجات میں پچاس فیصد تک کمی کا فیصلہ کرے۔ بلوچستان میں عام معافی کا اعلان کیا جائے اور جلاوطن بلوچ رہنماؤں سے مذاکرات شروع کیے جائیں۔

وزیر اعظم ، وفاقی وزراء، وزراء اعلیٰ اور جج صاحبان کی بڑی گاڑیاں نیلام کردی جائیں اور ہر وزیر کو چھوٹی گاڑیاں فراہم کی جائیں۔ مخلوط حکومت سے تعلق رکھنے والے سابق وزراء اعظم اور وزراء توشہ خانہ سے حاصل کردہ اشیاء کی کمرشل بنیادوں پر رضاکارانہ ادائیگی کریں ، اگر میاں نواز شریف مسلم لیگ ن کو بچانا چاہتے ہیں تو وہ فوراً پاکستان آکر عدالتوں کا سامنا کریں۔

حکومت بھارت اور ایران سے تجارت کی بحالی کے جرات مندانہ فیصلے کرے، یوں عوام کو مہنگائی کے طوفان سے بچانے کے لیے دیگر ضروری اقدامات کے فیصلے کیے جائیں۔ حکومت اگر اپنے فیصلوں کو فوری طور پر نافذ کرے ،اگر یہ حکومت ایسے انقلابی فیصلے نہیں کرسکتی تو پھر عمران خان کے فاشزم سے ملک نہیں بچ سکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔