بُک شیلف

بشیر واثق / عبید اللہ عابد  اتوار 26 مارچ 2023
—فائل فوٹو

—فائل فوٹو

 پیغمبر

مصنف: خلیل جبران، ترجمہ : قاضی عبدالغفار، قیمت: 500 روپے

صفحات: 121، ناشر: فیکٹ پبلی کیشنز، علی پلازہ ، ٹیمپل روڈ ، لاہور (03009482775)

اس کے الفاظ دل کو چھو لیتے ہیں ، روح کی گہرائیوں میں اتر جاتے ہیں ، وہ بولتا ہے تو جانے والے پلٹ پڑتے ہیں ، آنکھیں جھپکنا بھول جاتے ہیں ، منہ کھولے ہونقوں کی طرح اس کی طرف دیکھے جاتے ہیں ، اس کی باتیں سنتے چلے جاتے ہیں، وہ استعارے کی زبان بولتا ہے ، راز کھولتا ہے ، وہ خلیل جبران ہے جو لبنان کی ایک بستی میں پیدا ہوئے۔

حالات بدلے تو اپنے خاندان کے ہمراہ ہجرت کر کے امریکہ چلے گئے ، یہ ان کا لڑکپن کا دور تھا ، انھوں نے فنون لطیفہ کا علم حاصل کیا ، سکول میں ان کا تعارف بوسٹن کے مشہور فنکار، مصور اور ناشر فریڈ ہالینڈ ڈے سے ہوا جنھوں نے ان کی صلاحیتوں کو نکھارا ۔ جب ان کے فن پاروں کی نمائش ہوئی تو دنیا ان کی طرف متوجہ ہو گئی ۔

تب ہی انھوں نے ادب کا سفر بھی شروع کیا ۔ انھوں نے اپنے دل کی بات نظم اور نثر دونوں میں بیان کی ہے ان کی پہلی کتاب ’ دی میڈ مین‘ تھی ، وہ اپنی تحاریر میں روحانی اصطلاحات کا بہت استعمال کرتے ہیں ۔

زیر تبصرہ ’ دی پرافٹ‘ ان کی سب سے مشہور کتاب جس میں کل چھبیس شاعرانہ مضامین ہیں ، اس کتاب سے وہ عالمی سطح پر مشہور ہوئے ، یہ کتاب تاریخ کی سب سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہونے والی اور اس دور کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب کا اعزاز رکھتی ہے جس کا سو زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے ، ساٹھ کی دہائی میں یہ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن گئی ۔ یہ زندگی کے تمام پہلوؤں کی کہانی سناتی ہے ۔

خلیل جبران کے اقوال بھی بہت مشہور ہیں ، انھوں نے ان کے ذریعے ایسے پہلوؤں کی طرف توجہ دلائی جو عام لوگوں کی نظر سے اوجھل تھے ۔ جیسے کہتے ہیں :

۔ اگر تمھارا دل آتش فشاں ہے تو تم اس سے پھول کھلنے کی تمنا کیسے کر سکتے ہو ؟

۔ خود محبت بھی اپنی گہرائی کا احساس نہیں کر پاتی جب تک وہ جدائی کا دکھ نہیں سہتی ۔

۔ تم جہاں سے چاہو زمین کھود لو ، خزانہ تمہیں ضرور مل جائے گا مگر شرط یہ ہے کہ زمین کامیابی کے یقین کے ساتھ کھودو ۔انتہائی شاندار کتاب ہے ، ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔ مجلد کتاب کو شاندار ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔

میری نئی زندگی

مصنفہ: پروفیسر شمع سکندر خان، قیمت:600 روپے، صفحات:128

ناشر: بک ہوم ، مزنگ روڈ، بک سٹریٹ ، لاہور (03014568820)

سرطان یعنی کینسر بڑا موذی اور جان لیوا مرض ہے جس فرد کو یہ بیماری لاحق ہو جائے تو تصور کر لیا جاتا ہے کہ اس کی موت اب یقینی ہے ، جس مریض کو یہ پتہ چل جائے کہ اسے کینسر ہو گیا ہے تو وہ بھی عام طور پر اپنی زندگی سے مایوس ہو جاتا ہے۔

یوں اس بیماری کے علاج سے پہلے ہی بیماری اپنا آدھا کام کر جاتی ہے اور مریض کا صحت یاب ہونا مشکل ہو جاتا ہے ۔ حالانکہ کینسر کا شافعی علاج نہ ہونے کے باوجود اس بیماری سے لڑا جا سکتا ہے ، ایسے بہت سے مریض ہیں جنھوں نے اس بیماری کے خلاف جنگ جیتی ۔ زیر تبصرہ کتاب بھی ایسی ہی ایک حوصلہ مند خاتون کی کہانی ہے ۔

انھوں نے بڑی تفصیل سے اس روداد کو بیان کیا ہے ، جس کا مقصد وہ یہ بتاتی ہیں کہ اس سے ایسے مریضوں کو حوصلہ ملے جو ہمت ہار جاتے ہیں ، خاص طور پر خواتین کے لئے یہ کتاب بہت بڑا محرک ہے کیونکہ خواتین عام طور پر چھاتی کے کینسر کا شکار ہوتی ہیں اور فطری شرم و حیا کی وجہ سے علاج سے بھی جھجھکتی ہیں۔

یوں علاج میں تاخیر ہو جاتی ہے، جب بیماری کا علم ہوتا ہے تو بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے ، اس لئے اس بیماری سے جنگ جیتنے کے لئے ضروری ہے کہ فوری تشخیص کی جائے اور علاج شروع کر دیا جائے تو شفا کے مواقع بڑھ جاتے ہیں ، باقی کام اللہ کی ذات پر چھوڑ دینا چاہیے جو سب کو شفا عطا کرنے والی ہے ۔

کتاب میں نا صرف علاج کے طریقہ کار کی کہانی بیان کی گئی ہے بلکہ احتیاطی تدابیر ، غذا اور قرانی آیات سے علاج بھی دیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ انھوں نے مشوروں سے بھی نوازا ہے ۔ آخر میں حکیم عبدالوحید سلیمانی کی تحریر شامل کی گئی ہے جنھوں نے ایک حکیمی نسخہ بیان کیا ہے جس سے وہ سرطان کا علاج کرتے ہیں اور اس علاج کے دریافت ہونے کی کہانی بھی بیان کی ہے ۔ انتہائی مفید کتاب ہے خواتین کو اسے خاص طور پر پڑھنا چاہیے ۔

ون منٹ سیلز پرسن

مصنف: سپینسر جانس، ایم ڈی لاری ولسن، قیمت:300 روپے، صفحات:120

ناشر: بک ہوم ، مزنگ روڈ ، بک سٹریٹ ، لاہور (03014568820)

ہر کاروباری شخص چاہتا ہے کہ اس کی مصنوعات لوگ زیادہ سے زیادہ خریدیں ، اس کے لئے اسے ان اشیاء کو عوام میں متعارف کرانے اور پہنچانے کے لئے سیلز مین کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

گویا اعلیٰ معیاری اشیاء بنانا یا ان کی موجودگی ہی ضروری نہیں بلکہ انھیں فروخت کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے ، اگر فروخت نہیں ہوں گی تو ان کا ہونا نہ ہونا ایک برابر ہے ۔ اس لیے کامیاب فروخت کنندہ بننا ضروری ہے ، کامیاب فروخت کار کیسے بنا جائے یہی گر یہ کتاب بتاتی ہے ۔

کتاب کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ، پہلے حصے کا عنوان ’ ہر شخص ایک فروخت کار ہے‘ ہے، جس کے تین ابواب تحقیق و جستجو، مستعد اور تیز رفتار فرخت کار اور بامقصد فروخت کاری ہیں۔

دوسرے حصے کا عنوان ’ دوسروں(گاہکوں) کو فروخت ہے، جس کے تین ابواب فروخت سے پہلے قیمتی اور اہم لمحات، دوران فروخت اہم لمحات، بعد از فروخت اہم لمحات ہیں ۔

تیسرے حصے کا عنوان فروخت کاری کے طریقے ہے ، جس کے چار ابواب خود انتظامی فروخت کاری ، فوری اور تیز رفتار اہداف، فوری اور تیز رفتار تعریف و ستائش اور فوری و تیز رفتار ڈانٹ ڈپٹ اور سرزنش ہیں ۔ چوتھے حصے کا عنوان افادیت ہے جس کا ایک باب بصیرت افروز افکار ہے ۔ پانچویں حصے کا عنوان محنت کا ثمر ہے۔

اس کے بھی تین ابواب ایک نیا مستعد ماہر اور تیز رفتار فروخت کار ، میرے لیے تحفہ ، دوسروں کے لیے تحفہ ہیں ۔ پہلے باب سے لے کر آخری باب تک تحریر ایک کہانی کی صورت میں آگے بڑھتی ہے ، اس مشکل موضوع کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے ، قاری کی دلچسپی آخری سطروں تک برقرار رہتی ہے ۔

ہر فرد کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے کیونکہ جیسا کہ پہلے حصہ کا عنوان ہے ’ ہر شخص ایک فروخت کار ہے‘ تو اس لئے اسے ضرور پڑھیں تاکہ جب کبھی بھی آپ کو خرید و فروخت کے مرحلے سے گزرنا پڑے تو آپ اسے کامیابی سے سرانجام دے سکیں ۔’ بک ہوم ‘ کا یہ سلسلہ ’ سیلف ہیلپ کلاسیک‘ بہت شاندار ہے ۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔

مجھ پر وجود آیا ہوا

شاعر: افضال نوید، قیمت:1200 روپے، صفحات:416

ناشر: بک ہوم ، مزنگ روڈ، بک سٹریٹ ، لاہور (03014568820)

شاعر اپنے دل کی بات بڑی آسانی سے کہہ دیتا ہے چاہے وہ بات مشکل ہو یا آسان ، کیونکہ شاعری استعارے کی زبان میں سب کچھ کہہ سکتی ہے ، صرف کہنے والے کو کہنے کا فن آنا چاہیے ۔ شاعری کا سب سے دلکش پہلو یہی ہے کہ اس میں جو بھی بات کہی جائے خوبصورت لگتی ہے ۔

زیر تبصرہ کتاب بھی شاعری کا ایسا مجموعہ ہے جس میں شاعر نے اپنے دل و دماغ میں آنے والے تمام احساسات بڑی خوبصورتی سے شعروں میں سمو دیئے ہیں ۔ نذیر قیصر کہتے ہیں ’’ مجھ پر وجود آیا ہوا‘ بود نبود سے آگے نیند میں جاگے ہوئے آدمی کا خواب ہے جو آنکھوں پر نہیں روح میں اترتا ہے ، جاگتے ہیں سوتے ہیں ۔۔ حرف آنکھیں ہوتے ہیں ۔

جاگے سوتے حرف الواح پر آنکھیں جھپکتے ہیں ۔ چہرے پگھلتے ہیں اور شاعری کی سرزمین پر نئی کائنات سانسیں لیتی ہے ۔‘‘ ناصر عباس نیر کہتے ہیں ’’ افضال نوید مشکل پسند شاعر ہیں ۔ اس کا اعتراف ، اظہار ان کے پہلے پانچ مجموعوں ( تیرے شہر وصال میں ، افلاک لیے پھرتا ہوں، سمندر بات کرتا ہے ، آواز اترتی ہے ، دروازے تھے کچھ اور بھی ) پر لکھنے والے نقادوں نے کیا ہے ۔

دو ایک نے اس مشکل کی وضاحت کی کوشش بھی کی ہے ۔ ان کے مطابق افضال نوید کی غزل تجریدیت کی حامل ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے تجریدیت کو واضح کیا ہے نہ تجریدی آرٹ پر کچھ لکھا ہے اور نہ ہی اس امر پر روشنی ڈالی ہے کہ فن مصوری کے اہم اسلوب کے طور پر تجریدیت غزل کے اسلوب کا حصہ بن بھی سکتی ہے یا نہیں ۔ افضال نوید کی غزل معاصر کے اس رجحان سے فاصلہ قائم کرتی ہے جسے نوکلاسیکی رجحان کا نام دیا جا سکتا ہے ۔

نو کلاسیکی رجحان کے حامل شعرا کلاسیکی علامتوں کو کم ہی کام میں لاتے ہیں ، مگر وہ جس نئی زبان کو بروئے کار لاتے ہیں اس میں کلاسیکی شعرا کی پیروی میں رعایتوں اور مناسبتوں کا اہتمام کرتے ہیں ۔

وہ حقیقت میں قارئین بلکہ سامعین کو وقتی حیرت میں مبتلا کرتے ہیں اور داد پاتے ہیں ۔ ‘‘ ذوالفقار فرخ کہتے ہیں ’’ افضال نوید جس رجحان ساز طرز احساس سے شعر کہتا ہے اس کی مثال خال خال ملتی ہے ، اس کی شاعری نقش بھی ہے اور ریلا بھی۔ وہ موسیقی کا گہرا علم رکھتا ہے جس نے اس کی شاعری میں ازلی ردھم اور ابدی چکا چوند بھی بخش دی ہے۔‘‘ شاعری کا بہت خوبصورت مجموعہ ہے ، ضرور پڑھنا چاہیے ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔

 اقبال بعد از وصال ( سیرت اقبال کا روحانی پہلو )

مصنف : ع۔ م ۔ چودھری، قیمت : درج نہیں

ناشر : قلم فاؤنڈیشن ، بینک سٹاپ ، والٹن روڈ ، لاہور کینٹ ۔ رابطہ :03000515101

شاعر مشرق علامہ اقبال کی سیرت پر بے شمارکتب لکھی گئیں، ان کی حیات و خیالات کے مختلف زاویوں کو دیکھا گیا اور لکھا گیا۔ زیرنظر کتاب بھی ایک منفرد پہلو پر لکھی گئی ہے ۔ اس میں علامہ اقبال کی زندگی سے جڑے روحانی واقعات کو مرتب کیا گیا ہے۔

مصنف علامہ اقبال ؒ کو اپنا روحانی مرشد سمجھتے ہیں ۔ انھوں نے نہایت محنت اور لگن سے یہ واقعات مرتب کیے ہیں ۔ اس اعتبار سے یہ ایک منفرد تصنیف ہے ۔ اب کتاب کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے :

’’ حضرت علامہ اقبال ؒ فرمایا کرتے تھے کہ جو دعا دل کی گہرائیوں سے نکلے، ضرور قبول ہوتی ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ دعا کا اثر فوراً ظاہر ہو ۔ بعض دعائیں تو ایسی بھی ہوتی ہیں جن کا اثر کہیں موت کے بعد ظاہر ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کی زندگی بڑی مختصر ہے اور نظام کائنات بہت وسیع ہے ۔

ڈاکٹر صاحب کے اس قول کی تصدیق ان کی زندگی کے واقعات سے ہوتی ہے۔جو لوگ آپ ؒ کی زندگی کے حالات سے اچھی طرح باخبر ہیں ، انھیں معلوم ہے کہ ڈاکٹر صاحب تیسری شادی کے بعد مدت تک اولاد سے محروم رہے ۔

وہ اولاد کی طرف سے قریب قریب مایوس ہو چکے تھے کہ ایک دن شام کو وہ گھر گئے تو دیکھا کہ جاوید کی والدہ طوطے کے بچے کو اپنے پاس بٹھا کر بڑی شفقت سے پھل کھلا رہی ہیں ۔ یہ کیفیت دیکھ کر علامہ صاحب ؒ کا دل بھر آیا اور ان کی زبان سے بے اختیار یہ الفاظ نکلے :

’ الٰہی اس خاتون میں مادرانہ شفقت پیدا ہو چکی ہے ، اب اسے اولاد بھی عطا فرما ۔‘

یہ دعا قبول ہوئی چنانچہ اسی سال جاوید اقبال پیدا ہوئے۔‘‘

کتاب جن ابواب پر مشتمل ہے ، ان کے عنوانات : ’’ اقبالؒ قبل از وصال ‘‘ ، ’’ اقبالؒ بارگاہ نبوی ﷺ میں قبل از وصال ‘‘ ، ’’ اقبالؒ بارگاہ نبوی ﷺ میں بعد از وصال ‘‘ اور ’’ اقبال بعد از وصال ‘‘ ہیں ۔ کتاب میں موجود واقعات دلچسپ ہیں ، اس اعتبار سے بھی اس کا مطالعہ آپ کے لئے نہایت یادگار تجربہ ثابت ہوگا ۔ ( تبصرہ نگار : عبیداللہ عابد)

 ضیا بار افراد کے خطوط  (بنام پروفیسر اصغر عباس)

مرتب : ڈاکٹر سکندر حیات میکن ، قیمت : 1200 روپے

ناشر : قلم فاؤنڈیشن ، بنک سٹاپ ، والٹن روڈ ، لاہور کینٹ ( رابطہ : 03000515101)

پروفیسر اصغر عباس سرسید شناسی کے میدان میں ممتاز حیثیت کے حامل ہیں ۔ ’ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ‘ میں طویل عرصہ استاد رہے ۔ سرسید اکیڈمی کے ڈائریکٹر اور شعبہ اردو کے چیئرمین بھی رہے ۔ انھوں نے ’ سرسید اسٹڈیز ‘ میں بنیادی علمی کاموں کے لئے دانشور اور تجربہ کار ماہر تعلیم کے طور پر نمایاں مقام حاصل کیا ۔

ان کی زبردست تحقیق اُن سماجی، معاشی اور فکری چیلنجز کے بارے میں بصیرت فراہم کرتی ہے جن کا سامنا سرسیداحمد خان نے تعلیمی تحریک کے شروع کرتے ہوئے کیا ۔

پروفیسر اصغر عباس نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں پی ایچ ڈی کی ، پھر لیکچرر کے طور پر اسی جامعہ سے وابستہ ہوئے ۔

17 سے زائد کتابوں کے مصنف تھے جن میں ’’ سرسید کی صحافت‘‘ ، ’’سرسید کا سفر نامہ : مسافران لندن‘‘ ، ’’سرسید ، اقبال اور علی گڑھ‘‘ اور ’’ اردو کا جمالیاتی ادب اور علی گڑھ‘‘ بطور خاص قابل ذکر ہیں ۔ انہوں نے متعدد مقالے لکھے اور کئی دیگر علمی کتابیں بھی مرتب کیں ۔

زیر نظر کتاب کا عنوان ہی اس کا تعارف ہے ۔ یہ اُن خطوط کا مجموعہ ہے جو پروفیسر مرحوم نے پاک وہند کے145 مشاہیر کے نام لکھے۔ ان کا زمانی عرصہ 1969ء سے 2010ء پر مشتمل ہے۔ اپنے خطوط کے بارے میں وہ لکھتے ہیں : ’’ یہ خطوط ماضی بعید کے نہیں ، قریب کے ہیں۔ مکتوب نگاروں کے چہرے جانے پہچانے ہیں۔

اس لیے ان خطوط میں دلچسپی کا سامان بھی وافر ہے ۔ یہ خطوط خاصے معلومات افزا ہیں ۔ قاری کو کتابوں اور رسالوں سے جو معلومات دستیاب نہ ہوں گی وہ یہاں سے مل جائیں گی … اس مجموعہ مکاتیب میں ایسے کرم فرماؤں کے بھی نوازش نامے ہیں جنھوں نے اردو زبان و ادب کو نوا بخشی ہے اور جنھیں علم و فضل کے اعتبار سے آفریدہ عصر کہا جائے گا ۔‘‘

یقیناً ایسی شخصیات کے خطوط ادب کی تاریخ کے متعدد پہلو روشن کرتے ہیں ، بعض اوقات متبادل تاریخ کے لئے مواد بھی فراہم کرتے ہیں۔ قلم فاؤنڈیشن لائق تحسین ہے کہ وہ ایسی شاندار کتب شائع کرنے کا اہتمام کر رہی ہے۔ انحطاط کے اس دور میں ایسی کاوشوں کی پذیرائی لازم ہو جاتی ہے۔

افسانوں کے دو مجموعے

جناب محمد اقبال دیوان ناول نگار ہیں ، افسانہ نگار ہیں ، اور مترجم بھی ۔ پٹیل گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ آباؤ اجداد ریاست جونا گڑھ میں دیوان تھے ۔ امریکا میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی ۔ وطن واپس آئے تو پہلے سندھ ، پھر مرکز میں اعلیٰ سطحی انتظامی خدمات سرانجام دیں ۔ سندھ سول سروس اکیڈمی کے بانی ڈائریکٹر جنرل رہے ۔ دنیا کے60 ممالک میں گھومے پھرے ۔ مطالعہ بے پناہ ہے ۔ موسیقی ، مصوری اور اہل سلوک سے بیک وقت شغف رکھتے ہیں ۔ یہ سب اجزائے ترکیبی ہوں تو کیسی ہمہ جہت شخصیت دیکھنے کو ملتی ہے، اندازہ کرنا چنداں مشکل نہیں ۔

تین ناول لکھ چکے ہیں :’’ جسے رات لے اُڑی ہوا ‘‘ ، ’’ وہ ورق تھا دل کی کتاب کا ‘‘ ، ’’ کہروڑ پکا کی نیلماں‘‘۔افسانوں کے مجموعے بھی شائع ہو چکے ہیں۔ ’’ پندرہ جھوٹ اور تنہائی کی دھوپ ‘‘ ، ’’ چارہ گر ہیں بے اثر ‘‘ اور ’’ میر معلوم ہے، ملازم تھا ‘‘۔

زیر نظر دو مجموعوں میں سے پہلا ’’ چارہ گر ہیں بے اثر ‘‘ بنیادی طور پر تین طویل افسانوں کا مجموعہ ہے ۔ ’’ پیوما ‘‘ ، ’’ چارہ گر ہیں بے اثر ‘‘ ، ’’ من کہ مسمّی منیر نسیم‘‘۔ جبکہ دوسرے مجموعہ ’’ میر معلوم ہے، ملازم تھا ‘‘ میں چار طویل افسانے ہیں ۔ ’’عجلت پسند ‘‘ ، ’’ گھر واپسی‘‘ ، ’’ دوسری شادی‘‘ اور ’’ میر معلوم ہے، ملازم تھا ‘‘۔

محمد اقبال دیوان کا اسلوب بہت مزے کا ہے ۔ چونکہ انھوں نے ایک دنیا گھومی پھری ہے اور ایک طویل عرصہ بحیثیت بیوروکریٹ لوگوں کا مشاہدہ کیا ہے ، ان کے ساتھ تجربات میں شامل ہوئے ہیں ، اس لئے فطری طور پر ان کے مشاہدات ، تجربات ان کے کسی نہ کسی افسانے کی بنیاد میں شامل نظر آتے ہیں ۔ تاہم ایسا بھی نہیں ہے کہ انھوں نے یہ واقعات سیدھے سادے انداز میں بیان کر دیے بلکہ غیر معمولی ہنر مندی ، خوبصورت اسلوب سے نئی کہانیاں تخلیق کیں ۔

ان کی ہر ایک کہانی میں ہزار داستانیں مچل رہی ہوتی ہیں۔ ان کی کہانیوں میں سماجیات ، نفسیات ، فلسفہ ، سیاسیات ، جنسیت ، شوبز ، فیشن ، موسیقی اور فنون لطیفہ کے ذائقے واضح طور پر محسوس ہوتے ہیں ۔ بہ الفاظ دیگر اپنی کہانی میں ، وہ کئی دنیاؤں کی سیر کرواتے ہیں۔ ایسا جوش اور ولولہ عطا کرتے ہیں کہ پڑھنے والا اسی دنیا کا حصہ بننے کے لئے مچلتا ہے۔ ان کی کہانیاں پڑھنے کے لئے ایک خاص ذوق کی ضرورت ہوتی ہے ۔ آپ باذوق ہیں تو افسانوں کے یہ دونوں مجموعے پڑھ کر اَش اَش کر اٹھیں گے ۔

نہایت دیدہ زیب ٹائٹل ، شاندار طباعت کے ساتھ ، مجلد صورت میں، ہر مجموعہ کی قیمت 800 روپے ہے۔ کتب حاصل کرنے کے لئے ’ بک کارنر ‘ ، جہلم ، ( واٹس ایپ : 03215440882) سے رابطہ کیجیے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔