چپ رہا نہیں جاتا

غلام محی الدین  ہفتہ 25 مارچ 2023
gmohyuddin@express.com.pk

[email protected]

دین نے ایمان کی تین حالتیں بتائی ہیں۔ پہلی باطل کے خلاف عملی جدوجہد، دوسری زبان سے اس کی تردید ومذمت اور تیسری پوری دیانت داری اور اخلاص کے ساتھ اس سے نفرت اور بغیر اظہار کیے اسے بُرا سمجھنا۔ اس تیسری کیفیت کو ایمان کا سب سے کمزور درجہ قرار دیا گیا لیکن اسے غیر ضروری ہر گز نہیں سمجھا گیا۔

اس تقسیم میں بڑی حکمت ہے۔ گو کہ معاشرے میں باطل کے خلاف صف آرا ہونے کی مختلف کیفیتوں کے اثرات اپنی شدت میں یقیناً مختلف ہوتے ہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ تینوں صورتوں میں انسان برائی کے خلاف جہاد کے دائرے کے اندر شمار ہوتا ہے۔

ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا ہے کہ مادی وسائل اور اپنے جسم و جاں کے ساتھ میدان کارزار میں مصروف عمل لوگ بھی ہمیشہ سے محاذ پر جمے رہنے کی توانائی ایمان کے دو نچلے درجوں پر قائم انسانوں ہی سے حاصل کرتے رہے ہیں۔ پھر یہ بھی بڑی حکمت کا نقطہ ہے کہ کوئی شخص ایمان کی کسی بھی حالت میں ہو، اس کی افادیت کے مزید بڑھ جانے، نچلے سے اوپری درجے میں پہنچ جانے کی اُمید ہر وقت موجود رہتی ہے۔

بُرائی کو بُرائی کہنے میں قلم، یعنی تحریر کا درجہ سب سے بلند ہے۔ انسانی ارتقاء میں لکھے ہوئے نے سب سے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کے اثرات دائمی ہوتے ہیں۔ یہ نسل در نسل کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ انسانی تاریخ میں ایسے سیکڑوں ادوار گزرے ہیں جب حق کے لیے آواز بلند کرنا مشکل بنا دیا گیا اور یہ معاملہ آج تک جوں کا توں ہے۔

بالادست اور زیردست کے درمیان کشمکش ازل سے جاری ہے اور شاید تاابد جاری رہے گی اور اس کشمکش میں انسان کا امتحان بس یہ ہے کہ وہ اس ٹکراؤ میں کس کے ساتھ کھڑا تھا۔ یقیناً حق و باطل کے ہر معرکے کا نتیجہ تو قدرت نے طے کرنا ہے لیکن درحقیقت ہر ایسے تصادم میں دیکھا یہ جانا ہے کہ ہمارا دل ودماغ، زبان اور قلم یا ہمارے دست وبازو کس کے لیے بروئے کار آئے۔

عدل سے انحراف، ناانصافی، جبر و استبداد اور اعلیٰ انسانی اقدار کی بے توقیری معاشرے میں استثنائی حیثیت کے مزے لوٹنے والے بالادست طبقات کو اس لے گوارا ہوتی ہے کیونکہ اس ناہمواری ہی سے ان کی من مانی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ ان دھونس دھاندلی کو قائم رکھنے کی یہی صورت ہوتی ہے کہ جمود کے خلاف اُٹھنے والی ہر آواز کو دبا دیا جائے۔

دوسری طرف آواز بلند کرنے والوں کے لیے بھی یہ لازم ہو جاتا ہے کہ وہ کہنے کی کوئی سبیل کریں۔ معاشرتی جبر اور ناہمواری کے خلاف اُٹھنے والی ہر آواز دراصل اس استثنائی طبقے ہی کو چیلنج کر رہی ہوتی ہے لہٰذا ایسی کوئی آواز جمود کی قوتوں کو گوارا نہیں ہوتی دوسری طرف ایسے ماحول میں خاموش رہنا درد دل رکھنے والے کسی بھی شخص کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔

اظہار پر قدغن نے ہی انسان کو اس بات پر مجبور کیا کہ کہنے کا ایسا اسلوب اختیار کرے جو آئین زباں بندی کے دائرے میں بھی نہ آئے اور حال دل بھی بیان کر دے۔ اس مقصد کے لیے جو طریقہ سب سے زیادہ موثر انداز میں استعمال ہوتا رہا ہے وہ طنز و مزاح کے پیرائے میں سنجیدہ پیغام رسانی کا ہے۔ یہ ملفوف انداز بیان معاشروں میں انقلابات کے بیج بوتا رہا ہے، ذہن سازی کرتا رہا ہے اور جذبہ حریت کی آبیاری کے کام آتا رہا ہے۔

مجھے یہاں ولیم شیکسپئر کے ڈرامے ہنری چہارم کا ایک کردار Sir John Falstaff یاد آتا ہے جس کے ہیت اور حُلیے سے تو مسخرہ پن جھلکتا ہے لیکن ڈرامے کے مختلف مناظر میں مزاحیہ انداز میں یہی کردار ایسی بات کرتا ہے جو دیکھنے والے کو سوچنے پر مجبور کر دے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ انگریزی زبان کے عظیم شاعر اور ڈرامہ نگار ولیم شیکسپئر کے ڈراموں کا یہ واحد ایسا کردار نہیں جو طنز و مزاح کے پردے میں فکر انگیز باتیں کرتا ہو بلکہ یہ شیکسپئر کے اسلوب فن کا ایک بنیادی وصف رہا کہ اُن کے ڈراموں میں ہمیشہ ایسے غیرسنجیدہ، مزاحیہ بلکہ بعض صورتوں میں مجنونانہ حرکتیں کرنے والے کردار ملتے ہیں جن کی زبان سے مزاحیہ پیرائے میں وہ باتیں کہلاتی جاتی ہیں جو دانش میں بادشاہوں اور ان کے مصاحبین کو حیرت میں ڈال دیتی ہیں۔

Sir John Falstaffکے کردار کا تعارف یوں کرایا جاتا ہے کہ فالسٹاف بیک وقت جوان بھی ہے اور بوڑھا بھی، وہ بہت فربا ہے مگر سوچنے میں چُست اور مشکلات کے حل میں تیز ہے، دانش میں یکتا اور دھوکا دہی میں طاق ہے، بے ضرر بھی ہے اور شریر بھی، بظاہر کمزور مگر حقیقت میں عزم صمیم رکھنے والا، ظاہر میں بزدل مگر حقیقت میں دلیر اس کی بدمعاشی اور بددیانتی بدنیتی سے پاک ہے۔

اس کا جھوٹ دھوکا دہی سے مبرا ہے، وہ نائٹ ہے، اس کا شمار شرفا میں ہے اور وہ ایک سورما ہے مگر وقار، شائستگی اور عزت سے عاری۔ ایک ہی کردار کے اندر ظاہری حُلیے اور ذاتی کردار کے اتنے تضادات جمع کر دینے کا مقصد یہ ہے کہ فالسٹاف کے ذریعے ہر وہ بات کہی جانی ہے جسے خود کہنا ممکن نہیں۔ یہ کردار ہنستے ہنساتے ہوئے وہ بات کر جاتا ہے جو سنجیدہ پیرائے میں کہی جاتی تو کئی گریبانوں تک پہنچتی۔ بات کہنے کا یہ طریقہ ہر دور میں ہر جگہ برتا گیا اور برتا جاتا رہے گا۔

ہمارے ہاں بھی مشکل ادوار میں قلم کاروں نے عوام الناس کے ساتھ اپنے تعلق پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ طنز و مزاح کے پردے میں دعوت فکر دینے کی روایت مولانا ظفر علی خان، مولانا محمد علی جوہر، عبدالمجید سالک اور چراغ حسن حسرت جیسی شخصیات کے ذریعے ہم تک پہنچی ہے۔ عثمان جامعی کا شمار بھی ہمارے ملک کے اُن لکھنے والوں میں ہوتا ہے جنھوں نے ایسے وقت میں بھی خاموشی اختیار نہیں کی جب کہنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ ان کی فکاہیہ تحریروں پر مشتمل دوسری کتاب ’چپ رہا نہیں جاتا‘ حال ہی میں شایع ہوئی ہے۔

اس سے قبل اسی سلسلے کی پہلی کتاب ،کہے بغیر، منظرعام پرآ چکی ہے۔ ایک شاعر، ادیب اور صحافی کی حیثیت سے تو ان کی پہچان ہے ہی، ہمارے لیے ان کی حیثیت ایک کارکن ساتھی اور دوست کی بھی ہے۔ ان کی دونوں کتابوں کے نام ہی اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ’کہنا‘ کس قدر جاں گسل مرحلہ بھی ہو سکتا ہے۔ طنز و مزاح عثمان جامعی کی نثر کا خاص میدان ہے۔ ان کی یہ تحریریں بالخصوص روزنامہ ایکسپریس اور کئی دیگر ویب سائٹس پر شایع ہوتی رہتی ہیں اور ’چپ رہا نہیں جاتا‘ انھیں تحریروں کا انتخاب ہے۔

اپنی اس کتاب کا تعارف کراتے ہوئے خود عثمان جامعی لکھتے ہیں:

میر تقی میر نے کہا تھا،

کیا کہیں کچھ کہا نہیں جاتا

اب تو چپ بھی رہا نہیں جاتا

میری فکاہیہ تحریریں بھی اسی کیفیت کی دین ہیں۔ جس ملک میں حق گو جان سے اور سچ کہنا رائیگاں جاتا ہو، جہاں دلیل دینا کار زیاں ہو، منطق گالیوں سے کچل دی جاتی ہو، زورآوروں کی دھاڑیں، چنگھاڑیں اور ان کے بھاری بوٹوں کی دھمک کم زوروں کے لیے اٹھتی ہر آواز کو سموچا نگل لیتی ہوں، وہاں کہنا وہ کار لاحاصل ہے جس کا حاصل دیواروں سے سر پھوڑنا ٹھہرتا ہے اور ضروری نہیں کہ یہ دیواریں اپنے گھر کی ہوں۔

لیکن ہم جیسے لوگ عام آدمی کو خون آشام بلاؤں کے پنجوں میں سکتے، تڑپتے، سادگی کو دھوکے کے گڑھوں میں گرتے اور اعتماد کو راہوں میں لٹتے دیکھ کر چپ بھی نہیں رہ سکتے کہ میرے نزدیک ظلم، منافقت اور ریا کاری پر خاموش رہنے والا قلم کار وہ بد ترین مخلوق ہے جسے خدا نے لفظ گری کی نعمت دی اور اس صلاحیت کو محض زرگری کا ذریعہ بنائے رکھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔