مالیاتی استحکام کے اشارے

ایڈیٹوریل  اتوار 26 مارچ 2023
پاکستان کے لیے یہ اچھی خبر ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے مذاکرات مثبت انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ فوٹو:فائل

پاکستان کے لیے یہ اچھی خبر ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے مذاکرات مثبت انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ فوٹو:فائل

پاکستان کے مالیاتی بحران کو حل کرنے کے لیے عوامی جمہوریہ چین اپنا کردار ادا کر رہا ہے، اخباری اطلاعات کے مطابق عوامی جمہوریہ چین نے پاکستان کے لیے دو ارب ڈالر کے سیف ڈیپازٹ قرض کی واپسی ایک سال کے لیے موخر کر دی ہے۔

پاکستان کے وزارت خزانہ حکام نے چین کے سیف ڈیپاذٹ قرضہ رول اوور کرنے کی تصدیق کر دی ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ چین کے بعد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے بھی جلد فنانسنگ کی توقع ہے۔

میڈیا نے وزارت خزانہ کے ذرایع کے حوالے سے بتایا ہے کہ رواں ماہ چین سے مزید 30کروڑ ڈالر بھی پاکستان آنے کی توقع ہے۔ ذرایع وزارت خزانہ کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے معاہدے کے لیے بیرونی فنانسنگ کی تصدیق ضروری ہے۔

پاکستان کے لیے یہ اچھی خبر ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے مذاکرات مثبت انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کے لیے عالمی مالیاتی اداروں اور ملکوں کے ساتھ تعاون کے دروازے کھل رہے ہیں۔

گزشتہ روز اسٹیٹ بینک کے ہفتہ وار اعداد و شمار کے مطابق 17 مارچ کو ختم ہونے والے ہفتہ کے دوران 50 کروڑ ڈالر کے کمرشل قرضوں کی رقم موصول ہونے سے سرکاری ذخائر میں اضافہ ہوا، زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر کی مالیت 10 ارب ڈالر سے تجاوز کرگئی، زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر کی مالیت گزشتہ ہفتہ 28 کروڑ ڈالر اضافہ سے 4 ارب 59 کروڑ 87 لاکھ ڈالر کی سطح پر آگئی، کمرشل بینکوں کے پاس 5 ارب 54 کروڑ 5 لاکھ ڈالر کے ذخائر موجود ہیں۔

ان اعداد و شمار سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ملکی معیشت میں استحکام کے اشارے واضح ہو رہے ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ اس کا ثبوت ہے کہ معیشت سانس لینے کے قابل ہو گئی ہے۔ ابھی آئی ایم ایف کے ساتھ حتمی معاہدہ طے نہیں پایا ہے، تاہم حکومت پرامید ہے کہ یہ معاہدہ جلد طے پا جائے گا۔

اگر یہ معاہدہ طے پا جاتا ہے تو پاکستان کو 10 ارب ڈالر جاری ہو جائیں گے۔ یوں پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 20 ارب ڈالر کے قریب پہنچنے کے امکانات روشن ہیں۔

میڈیا نے آئی ایم ایف کے عہدیدار کے حوالے سے بتایا ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان جب پٹرول کی قیمتوں کے تعین کی مجوزہ حکومتی اسکیم سمیت چند باقی نکات طے پاجائیں گے تو معاہدے پر دستخط کیے جائیں گے، اس معاہدے کے تحت پاکستان کو ایک ارب 10 کروڑ ڈالر جاری کیے جائیں گے۔

پاکستان میں آئی ایم ایف کی رہائشی نمایندہ ایستھر پیریز روئز کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ حکومت پاکستان نے پٹرول کی قیمتوں کے تعین کی اسکیم کے بارے میں فنڈ سے مشاورت نہیں کی۔ ایستھر پیریز روئز نے نیوز ایجنسی کو ایک پیغام میں اس میڈیا رپورٹ کی تصدیق کی ہے کہ پٹرول کی اسکیم سمیت چند باقی نکات طے ہونے کے بعد عملے کی سطح کے معاہدے پر دستخط کیے جائیں گے۔

انھوں نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف حکومت سے پٹرول کی تجویز کے بارے میں مزید تفصیلات طلب کرے گا، بشمول اس پر عمل درآمد کیسے کیا جائے گا اور غلط استعمال کو روکنے کے لیے کیا تحفظ فراہم کیا جائے گا۔

وزیر مملکت برائے پٹرولیم مصدق ملک نے اس حوالے سے بتایا ہے کہ ان کی وزارت کو پٹرول کی قیمتوں کے تعین کے منصوبے پر کام کرنے کے لیے 6 ہفتے کا وقت دیا گیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت حکومت کو کسی قسم کے اضافی فنڈز درکار نہیں ہوں گے۔ ہم ان تمام چیزوں کی وضاحت آئی ایم ایف سے کر دیں گے جب وہ ہم سے رابطے کریں گے۔

واضح رہے حکومت پہلے ہی کئی مالیاتی اقدامات کر چکی ہے، جس میں روپے کی قدر میں کمی، سبسڈی ختم کرنا اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے جیسی پیشگی شرائط شامل ہیں۔

عالمی مالیاتی ادارے نے کہا ہے کہ بیرونی شراکت داروں کی بروقت مالی امداد پاکستان کے ساتھ نویں جائزے کی کامیابی یقینی بنانے میں اہم ہوگی اور مالیاتی یقین دہانیوں کے بعد پاکستان کے ساتھ اگلا قدم اٹھاسکیں گے۔

آئی ایم ایف کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی معیشت کو سست شرح نمو اور بلند افراط زر جیسے چیلنجز کا سامنا ہے، پاکستان کی معیشت کو بڑی مالیاتی ضروریات جیسے چیلنجز کا سامنا ہے اور یہ سب چیلنجز پاکستان میں تباہ کن سیلاب کی وجہ سے ہوئے۔

انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی (آئی آر سی) کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سیلاب زدہ علاقوں میں45 لاکھ افراد ابھی تک مشکل ترین حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، رپورٹ کے مطابق 2022کے سیلاب کے بعد بحالی اور تعمیر نو کا عمل اب بھی جاری ہے، آئی آر سی نے پیش گوئی کی کہ غذائیت اور خوراک، صحت، رہائش، تعلیم اور صفائی کی صورت حال خراب ہے اور اگر اس صورت حال کو روکا نہ گیا تو سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں مقیم لوگوں کو اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے طویل مدتی سنگین نتائج پیدا ہونے کا امکان ہے۔

سیلاب کے سات ماہ بعد بھی لاکھوں افراد بے گھر ہونے کی تکلیف کا سامنا کر رہے ہیں، صحت، تعلیم، سماجی تحفظ کی خدمات کو زیادہ تر متاثرہ علاقوں میں رکاوٹوں کا سامنا رہا جس نے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں، معاش اور امکانات کو مزید خطرے میں ڈالا، رپورٹ کے مطابق 45 لاکھ افراد بدستور شدید حالات کا شکار ہیں، فروری 2023 تک ملک کے جنوب میں کئی اضلاع سے سیلاب کا پانی کم نہیں ہوا کچھ لوگ جن حالات میں واپس آ رہے ہیں وہ ان کے لیے خوش آیند نہیں۔

فروری 2023 تک پاکستان کو بین الاقوامی امداد سے 871 ملین ڈالر کا صرف 36 فیصد ملا۔ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سیلاب اور موسمی تبدیلیوں کے تحت برسنے والی شدید بارشوں نے پاکستان کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ زرعی رقبہ بھی متاثر ہوا ہے جس کی وجہ سے پھلوں اور سبزیوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ اجناس کی پیداوار کم ہوئی ہے۔

پاکستان کی معیشت کو کثیرالجہتی مسائل کا سامنا ہے۔ ملک میں پیداواری سرگرمیاں بھی سست ہیں جب کہ درآمد کنندگان بھی مشکل میں پھنسے ہوئے ہیں، بہرحال وفاقی حکومت نے تقریباً تمام اقسام کی اشیا کی درآمد پر عائد پابندی ہٹادی ہے، 2017 سے 2022 کے درمیان 826 مختلف اقسام کی اشیا کی درآمدات پر پابندیاں عائد تھیں تاہم اب یہ پابندی ختم کردی گئی ہے۔

ان اشیا میں سیمنٹ اور اسٹیل کے لیے درکار خام مال، گاڑیوں کے پرزہ جات، کھانے پینے کی مختلف اشیا، چاکلیٹ، منزل واٹر، سگریٹ پیپر، برقی سامان اور برقی آلات کے علاوہ کچھ مشینری اور ان کے پرزہ جات بھی شامل ہیں، اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے ایک سرکلر کے مطابق بینک نے سیکڑوں اشیا کی درآمدات پر 100 فیصد تک پیشگی ادائیگی جمع کرانے کی شرط ختم کردی ہے۔

مرکزی بینک نے جمعہ کو ایک سرکلر میں کہا کہ 31مارچ 2023 سے آئٹمز کی درآمد پر موجودہ کیش مارجن کی ضرورت/سی ایم آر (پیشگی ادائیگی) کو واپس لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔چند ماہ قبل SBP نے کمرشل بینکوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ بالترتیب توانائی (پٹرولیم مصنوعات اور LNG)، دواسازی اور طبی آلات، خام مال اور برآمد کنندگان اور گاڑیوں کے لیے مشینری (بشمول مسافر کاروں) کے لیے درآمدی فنانسنگ کو ترجیح دیں۔

درآمد اور برآمد کے درمیان توازن پیدا کر کے ہی معیشت کو مستحکم کیا جاسکتا ہے۔ یہ کوئی ایک دن کا کام نہیں ہے بلکہ اس کے لیے شارٹ ٹرم کے ساتھ ساتھ لانگ ٹرم منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی معیشت کنزیومر معیشت کا ماڈل بنی ہوئی ہے۔ یہاں کپڑوں کے بٹن سے لے کر جوتوں اور ملبوسات تک درآمد ہوتے ہیں۔ الیکٹرانکس کی تمام آئٹمز درآمد کی جاتی ہیں۔ تعمیراتی میٹریل بھی بڑی تعداد میں درآمد ہوتا ہے۔ آٹو موبائل کا شعبہ بھی زیادہ تر درآمدات پر انحصار کرتا ہے۔ فوڈ آئٹمز کی درآمد بھی بڑے پیمانے پر ہوتی ہے۔

اب اگر حکومت درآمدات پر فوری پابندی عائد کرتی ہے تو اس سے بھی ملکی معیشت متاثر ہو گی کیونکہ امپورٹرز کا کاروبار متاثر ہو گا تو اس کا لامحالہ اثر روزگار پر بھی پڑے گا۔ مقامی انڈسٹری ایک دن میں غیرملکی اشیاء کا مقابلہ نہیں کر سکتی، اس کے لیے طویل المدتی پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔

اولین ترجیح زرعی معیشت کو بنانا چاہیے۔ زرعی پیداوار میں اضافہ ہو گا تو فوڈ سیکیورٹی قائم ہو جائے گی۔ اسی طرح ایگرو انڈسٹری کو فروغ دینا چاہیے۔ لائف اسٹاک کو بھی صنعت کا درجہ دے کر ترقی دینی چاہیے، اگر ایسا ہو جائے تو پاکستان میں ٹیکسٹائل کی صنعت خودکفیل ہو جائے گی، دودھ، مکھن، پنیر وغیرہ باہر سے منگوانے کی ضرورت نہیں رہے گی، سرسوں، توریے اور سورج مکھی کے تیل کھانے کے لیے بہترین ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔