زلزلہ… قدرتی آفت یا قدرت کا پیغام

سرور منیر راؤ  اتوار 26 مارچ 2023
msmrao786@hotmail.com

[email protected]

جب کوئی قدرتی آفات آتی ہے تو دنیا کے تمام سائنسدانوں، سیاستدانوں اور حکمرانوں کے انتظامات دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ خواہ کوئی کسی بھی منصب پر فائز ہو، ایسے موقع پر اس کی نگاہ اپنے بچائو کے لیے اﷲکی طرف اٹھتی ہے اورہرطرف اﷲ اکبر اﷲ اکبر، کلمہ طیبہ کا ورد اور توبہ و استغفار ہو رہی تھی۔

زلزلہ آنے کے وقت کا تعین نہیں کیا جا سکتا لیکن زلزلہ سے پہلے زمین کے داخلی پراسس میں تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔ایک تحقیق تو یہ بھی بتاتی ہے کہ زلزلہ آنے سے پہلے سطح زمین سے ایک میٹر نیچے کا ٹمپریچر باہر کے درجہ حرارت سے چار سے پانچ درجے زیادہ ہو جاتا ہے اور دریائوں، چشموں اور نہروں کی سطح آب میں بھی تغیر و تبدل ہوتا ہے۔

زمین کے اندر الیکٹرو میگنٹ لہروں میں شدت محسوس کرتے ہوئے حشرات الارض کیڑے مکوڑے، دیمک،بچھو اور سانپ باہر نکل آتے ہیں۔ پالتو جانور اور پرندے اپنے آشیانوں سے بھاگ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔

زلزلے کے حوالے سے سائنسدانوں کی علمی اور تحقیقی کاوشیں یقینا اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہیں لیکن مذہبی عالم خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، اپنے اپنے عقائد کی روشنی میں زلزلوں کی وجہ عوام کی اکثریت کی بد اعمالیوں کو قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق جب معاشرے کی اکثریت برائیوں، گناہوں اور شرک میں غرق ہوجائے تو آفات سماوی کا سلسلہ بڑھ جاتا ہے۔

ماحولیاتی سائنسدانوں کچھ عرصے سے بتا رہے ہیں کہ دنیائی نظام کو Regulate کرنے والے عنا صر میں تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں۔ سائنسدانوں نے کہا ہے کہ بحر منجمد شمالی میں برف تیزی سے پگھل رہی ہے جس سے ماحول کو سنگین مسائل درپیش ہوں گے۔ امریکا کے نیشنل سنو اینڈ آئس ڈیٹا سنیٹر کے مطابق خطے میں برف کی تہہ گزشتہ سو سال کے دوران اپنی کم ترین سطح پر آ گئی ہے۔ نئی تحقیق سے ماہرین کی اس رپورٹ کی تصدیق ہو گئی ہے کہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے اس صدی کے آخر تک بحیرہ منجمد شمالی پر برف کہ تہہ مکمل طور پر پگھل جائے گی۔

سائنسدانوں نے کہا ہے کہ اس عمل سے سمندری طوفان آئیں گے اور سمندر میں پانی کی سطح بلند ہو گئی جس سے بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل کے علاقے میں بڑی تبد یلیاں واقع ہوںگی۔ ” ماہرین کے نزدیک ہر دس ہزار سال کے بعد زمین میں ایسی تبدیلیاں آتی ہیںکہ جہاں پانی ہو وہاں زمین ظاہر ہو جاتی ہے ۔ جہاں زمین ہے وہاں سمندر کا پانی آجاتاہے ۔

یونان، مصر، ہندوستان اور چین کے قدیم لٹریچر ، برما، ملایا جزائر الشرق الہند ، آسٹریلیا، نیو گنی ، امریکا ، اور یورپ کے مختلف حصوں میں ایسی روایات تسلسل کے ساتھ بیان کی گئی ہیں اور اب بھی بیان کی جاتی ہیں ، جن میں سیلاب کے علاوہ ہر ساٹھ سال کا ایک سال مان کر ان سالوں سے اپنے تمام عوامی اور ذاتی واقعات کی مدت شمار کی جاتی ہے۔اٹلی کے ساحل کے نزدیک بحیرہ روم میں ڈوبے ہوئے ایک شہرکے آثار ملے ہیں یہاں کے لوگ صنعت و حرفت میں بہت ترقی یافتہ تھے۔

1929میں خلیج فارس کے قریب ’’ار‘‘ کے قدیم شہر کی کھدائی کے دوران بہت گہرائی میں دس فٹ موٹی مٹی کی تہہ ملی تھی ، سائنسدان نے اعلان کیا کہ قریب و جوار کی زمین کے سائنسی تجربہ سے یہ ثابت ہوا کہ مٹی کی یہ تہہ ایک زبردست طوفان کی باقی ماندہ تلچھٹ(RESIDUE) ہے ۔ جنوبی میسوپو ٹا میا کے دریا کی وادیوں میں ہر جگہ ایسی ہی مٹی کی تہیں ہیں۔

پچھلی صدی کے سائنسدانوں کا خیال تھا کہ زمین پر پانی اچانک چڑھا تھا اور یہ کہ بلند سے بلند تر پہاڑ کی چوٹی بھی پانی میں ڈوب گئی تھی۔ ہمالیہ ، اینڈیز، الپس،اور امریکا کے سلسلہ کوہ راکیز پر پانی کے نشان آج بھی موجود ہیں اور وہ اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ پانی اچانک ہی چڑھا تھا اور دریائی جانوروں کے ڈھا نچوں کے نشانات سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے۔

ماہرین بتاتے ہیں کہ جو مردہ جانور سالم حالت میں پائے گئے ہیں، ان میں تکلیف اور کرب نمایاں ہے۔ اور اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ ان پر کسی گوشت خور جانور نے حملہ کیا تھا۔ یا ان کا گوشت جسم سے الگ ہوا ہو۔ ان کی سب سے زیادہ واضح مثال سائیبیریا سے نکلے ہوئے ایک ایسے سالم جانور کی ہے جس کا جسم ، کھال اور بال سمیت برف میں بلکل محفوظ حالت میں ملا ہے۔

یہ جانور بے حد جسیم ہے اور ان جانوروں میں سے ہے جن کا وجود چند ہزار سال پہلے تک تھا۔ اور اب نا پید ہے ، ان کی آنکھیں جسم کی کھال اور بال اس بات کی شہادت فراہم کرتے ہیں کہ اس کی موت اچانک کسی حادثے ہوئی ہے ۔ اس کے منہ میں وہ گھاس تھی ، اس کے پیٹ سے بھی اس قسم کی گھاس میں سے ہے جو گرم علاقوں میں پائی جاتی ہے ۔

طوفان نوح کے وقت آدم زاد نے سرکشی کی تمام حدود پار کرلی تھیں۔وقت کا تقاضہ ہے کہ انفرادی اور اجتماعی توبہ استغفار کی جائے اور اﷲ تعالیٰ سے اس کا خصوصی کرم مانگا جائے کیونکہ جب آفات سماوی آتی ہیں تو دنیا کی تمام ترقی چند لمحوں میں ملیا میٹ ہو جاتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔