- پیپلز پارٹی کے چوہدری لطیف اکبر آزاد کشمیر اسمبلی میں 14 ویں اسپیکر منتخب
- پشاور میں گھر کی چھت گرنے سے 2 بچے جاں بحق، 4 افراد زخمی
- مصرکی سرحد کے قریب 3 اسرائیلی اہلکار ہلاک
- لاہور میں جنسی درندگی کے واقعات میں اضافہ، مزید 4 خواتین نشانہ بن گئیں
- بلوچستان حکومت نے ضلع گوادر کو ٹیکس فری زون قرار دے دیا
- رجب طیب اردوان نے تیسری مرتبہ ترکیہ کے صدر کا حلف اٹھالیا
- موسمیاتی شدت گندم کی پیداوار متاثر کرسکتی ہے
- چوری اور نفاست : بیکری سے چھ کیک چرانے والا فرش صاف کرکے فرار ہوگیا
- محکمہ صحت سندھ نے آغا خان ہسپتال کے اشتراک سے، جان بچانے کی تربیت کا آغاز کردیا
- 2005ء کے زلزلے میں لاپتا ہونے والا نوجوان بالاکوٹ پہنچ گیا
- پرویزالہی خاندانی طور پر واپس آسکتے ہیں سیاسی طور پر نہیں، چوہدری شافع
- یاسمین راشد کو کور کمانڈر ہاؤس حملہ کیس میں رہا کرنے کا حکم
- 5 سالہ بچے کے قتل کےتین مجرموں کو سزائے موت
- آسٹریا کی ایتھلیٹ سبرینا فلزموزر کا اسلام آباد سے کےٹو تک سائیکلنگ کا اعلان
- وزیراعظم کی ترکیہ میں کاروباری شخصیات سے اہم ملاقاتیں
- سونے کی عالمی اور مقامی قیمت میں کمی
- نادرا نے آنکھوں سے بائیو میٹرک کا نظام آئرس متعارف کرادیا
- امریکا نے سی آئی اے ڈائریکٹر کے خفیہ دورہ چین کی تصدیق کردی
- غفلت اور خامیوں سے بھرپور متنازع ڈیجیٹل مردم شماری
- جہانگیر ترین کے ساتھ ملکر چلنے پر اتفاق ہوا ہے، سردار تنویرالیاس
کیا تنزانیہ کی پراسرار جھیل جانوروں کو پتھر کا بنا رہی ہے؟

تنزانیہ کی جھیل نیٹرون میں کوئی جاندار زندہ نہیں رہ سکتا ہے اور وہاں جانے والے پرندے اور جانور فوری طور پر نمک کے مجسمے بن جاتے ہیں۔ فوٹو: فائل
تنزانیہ: تنزانیہ کی مشہور پراسرار جھیل ایک عرصے سے معمہ بنی رہی ہے کیونکہ اس جھیل میں جانے والے اکثر جانور فوری طور پر مرجاتے ہیں اور وہاں اس طرح رک جاتے ہیں کہ گویا مجمند ہوگئے ہیں۔
اس کا نام نیٹرون جھیل ہے اور یہاں فلیمنگو پرندے ملاپ کرتے ہیں۔ لیکن یہ پرندے بھی کنارے پر ہی رہتے ہیں کیونکہ نمکین جھیل گہرائی میں انہیں ہمیشہ کے لیے ساکت بنا سکتی ہے۔ جیسے ہی کوئی جانور یا پرندہ اس جھیل میں گرجائے وہ فوری طور پر مر جاتا ہے اور بہت تیزی سے اس کا جسم نمک زدہ ہوکر ایسا لگتا ہے کہ گویا پتھر کا ہوچکا ہے۔
جھیل کا اوسط درجہ حرارت صرف 26 درجے سینٹی گریڈ ہے جس میں خاص قسم کے بیکٹیریا پائے جاتے ہیں۔ انہی جھیل کی وجہ سے جھیل گہری سرخ رنگت میں دکھائی دیتی ہے۔ لیکن اس میں الکلائنی کیفیت اور بھرپور نمک موجود ہے جو اسے مزید پراسرار بناتا ہے۔
ایک عرصے تک جھیل کو آسیبی اور پراسرار سمجھا گیا تھا لیکن یہاں کے کنارے بھی نمک کے ڈلوں پر مشتمل ہیں۔ نمک کی زیادتی اور کسی مچھلی کی عدم موجودگی سے اسے جان لیوا جھیل بھی کہا جاتا ہے۔ جھیل کی اس کیفیت کی وجہ قریبی آتش فشاں پہاڑ ہے جو اب بھی سرگرم ہے، اس سے نیٹرو کاربونائی ٹائٹس جھیل میں آتے ہیں اور الکلائن کیفیت 10 بی اپچ تک بڑھ چکی ہے۔ یہاں بیکٹیریا ہی پائے جاتے ہیں جن کی بہتات سے جھیل سرخ ہوچکی ہے۔
فلیمنگو پرندے نیٹروکاربونائی ٹائٹس کھاتے رہتے ہیں لیکن وہ کنارے تک ہی رہتے ہیں اور دور تک نہیں جاتے۔ تاہم جھیل کنارے پر بڑی تعداد میں مری ہوئی چمکادڑیں اور پرندے دیکھے جاسکتے ہیں۔ لیکن اس جھیل میں 19000 سال کی تاریخ بھی پنہاں ہے۔
جھیل کنارے انسان کے 400 قدم دیکھے گئے ہیں جو ایک وقت میں جم کر پتھراگئے اور ہزاروں سال قدیم بتائے جاتے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔